شگفتہ بیانیاں

بے نیام
منصور اصغر راجہ
جب سے پی ٹی آئی کی حکومت وجود میں آئی، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی شگفتہ بیانیوں کی پورے ملک میں دھوم مچی ہوئی ہے۔ ہم جب بھی انہیں ایوان کے اندر اور باہر اپوزیشن کے بارے میں کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان استعمال کرتے دیکھتے ہیں تو ہمیں بچپن میں اپنی نانی اماں سے سنی ہوئی یہ کہانی یاد آجاتی ہے… ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گداگر صبح سویرے اپنا کشکول لیے حسبِ معمول گھر سے نکلا۔ وہ جس دروازے پر بھی دستک دیتا، جواباً اسے خیرات میں کچھ نہ کچھ ضرور ملتا، کیونکہ یہ اُس دور کا قصہ ہے، جب لوگوں کے گھر چھوٹے اور دل بڑے ہوا کرتے تھے۔ وہ رہتے اگرچہ کچے گھروں میں تھے، لیکن ان کے اندر اک دوجے کا احساس پایا جاتا تھا۔ معاشرے میں رشتوں کا تقدس اور احترام موجود تھا۔ ابھی یہ احساس باقی تھا کہ اگر گھر کے دروازے پر کھڑا کوئی حاجت مند خدا کے نام پر سوال کرے تو اسے خالی واپس نہیں لوٹانا چاہئے۔ گھر کی بزرگ خواتین گھر میں پکنے والے دو وقت کے کھانے میں گلی محلے کے کسی غریب مسکین کا حصہ ضرور رکھتی تھیں، تاکہ رزق میں برکت بھی رہے اور صدقہ وخیرات بھی نکلتی رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس صدقہ و خیرات کے اشتہار نہیں لگائے جاتے تھے، بلکہ یہ سارا عمل خاموشی سے ہوتا، تاکہ حاجت مند کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ اُس گداگر کو بھی کہیں سے آٹا ملا۔ کسی نے اناج کی ایک مٹھی کشکول میں ڈال دی۔ کسی نے پانی یا لسی پلائی۔ کسی نے چوّنی اٹھنی ہاتھ پہ رکھ دی اور کسی نے صرف دعا دیتے ہوئے دوبارہ آنے کی تاکید کی۔ چلتے چلتے آدھا دن گزر گیا۔ ادھر سورج ڈھلنے لگا، ادھر گداگر کی بھوک چمکنے لگی۔ کچھ سوچنے کے بعد اس نے ایک دروازے پر دستک دی۔
بزرگ خاتون نے دروازہ کھولا تو گداگر بولا: ’’اماں! روٹی کھانی ہے۔ میرے پاس آٹا تو ہے، لیکن روٹی کیسے پکائوں؟‘‘ بوڑھی اماں نے اسے اندر بلا لیا کہ لائو میں تمہیں روٹی پکا دیتی ہوں۔ اماں نے آٹا پرات میں ڈالا اور اسے گوندھنے کی تیاری کرنے لگیں۔ گداگر بھی چولہے کے قریب رکھی پیڑھی پر بیٹھ گیا۔ اماں ابھی آٹے میں پانی گھول ہی رہی تھیں کہ گداگر کی نگاہ صحن میں بندھی بھینس اور اس کے اردگرد پھدکتی چھوٹی سی ’’کٹی‘‘ (بھینس کا مادہ بچہ) پر جا پڑی۔ گداگر کو نجانے کیا سوجھی کہ بولا: ’’اماں کیا تمہاری بھینس نے سجرا بچہ دیا ہے؟‘‘ اماں نے کہا: ’’ہاں! ہماری بھینس نے دو روز پہلے ہی کٹی دی ہے‘‘۔ یہ سن کر گداگر بولا: ’’اماں! اگر تمہاری بھینس مر جائے تو دو دن کی یہ کٹی کیا کرے گی؟‘‘ آٹا گوندھنے میں مصروف اماں کو گداگر کا یہ سوال اچھا تو نہ لگا، لیکن انہوں نے اسے ڈانٹنے کے بجائے نرمی سے صرف اتنا کہا ’’پتر، خدا ہماری بھینس کو سلامت رکھے۔ اس طرح کی باتیں نہیں کرتے، تمہیں تو دعا دینی چاہئے۔‘‘ اس پر وہ احمق سر ہلا کر رہ گیا۔ اسی اثنا میں گھر کے اندرونی کمرے سے ایک پیاری سی لڑکی باہر آئی۔ لڑکی مناسب طریقے سے بنی ٹھنی ہوئی تھی۔ اس کی دونوں کلائیوں میں کھنکتی چوڑیاں اور ہاتھوں پہ لگی مہندی صاف بتا رہی تھی کہ اس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ لڑکی کو دیکھتے ہی گداگر کی رگِ حماقت پھر پھڑک اٹھی اور اس نے اماں سے لڑکی کے بارے میں پوچھ لیا۔ اماں نے خوشی سے بتایا کہ ’’پتر، یہ میری بہو ہے۔ میں نے ابھی پچھلے مہینے ہی اپنے بڑے بیٹے کا بیاہ کیا ہے‘‘۔ گداگر اگر عقل مند ہوتا تو اس کے لیے اتنا جواب ہی کافی تھا، لیکن عقل مند ہوتا تو تب نا… اُس نے اماں پر جھٹ سے اگلا سوال داغ دیا: ’’اماں! اگر تمہارا بیٹا مر جائے تو تمہاری اس بہو کا کیا بنے گا؟‘‘… یہ سنتے ہی اماں کا تو دماغ گھوم گیا۔ بس پھر کہاں کا آٹا اور کیسی روٹی؟ انہوں نے گداگر کو دو چار موٹی موٹی گالیاں دیں، پرات میں گھولا ہوا آٹا اور پانی اس کی چادر میں اُلٹا اور باہر کی راہ دکھائی۔ اب سچویشن کچھ یوں بن گئی کہ گداگر گلی گلی چلا جا رہا تھا۔ اس کی چادر میں سے پانی ملے آٹے کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ رستے میں اگر کوئی آدمی اس بارے میں پوچھتا تو گداگر شرمندہ ہو کر کہتا: ’’یہ میری زبان کی شیرینی اور مٹھاس ہے، جو چادر میں سے قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے‘‘۔
واضح رہے کہ بچپن میں سنی یہ کہانی ہمیں پہلی بار گزشتہ برس تب یاد آئی، جب پاکستان سپر لیگ کے فائنل میچ میں شرکت کے لیے پاکستان آنے والے غیر ملکی مہمان کھلاڑیوں کو تحریک انصاف کے کپتان نے ’’پھٹیچر‘‘ اور ’’ریلوکٹے‘‘ کہہ کر اُن کی ’’حوصلہ افزائی‘‘ فرمائی تھی۔ سیانے سچ کہتے ہیں کہ النّاسُ علیٰ دینِ ملوکہم۔ اب اگر پی ٹی آئی حکومت کے ترجمان اعلیٰ اپوزیشن کے خلاف کرخت لہجہ اپناتے ہیں تو اِس میں اُن کا کوئی قصور نہیں ہے، بلکہ وہ تو اپنی قیادت کے نقشِ پا پر چلتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومتی ترجمان اعلیٰ کی شگفتہ بیانی نہ صرف ان کے لیے بلکہ اعلیٰ حکومتی قیادت کے لیے بھی مسائل کھڑی کر سکتی ہے۔ ویسے بھی پی ٹی آئی حکومت کے دامن میں تاحال نیک نامی کم اور رسوائی کے چرچے زیادہ ہیں۔ لیجیے! رسوائی کے چرچے سے ہمیں ایک اور کہانی یاد آگئی۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سردیوں کے دن تھے۔ جنگل کے بادشاہ کا موڈ اچھا تھا۔ سو وہ دوپہر کے وقت ایک گراسی لان میں استراحت فرمانے لگے۔ ایک شرارتی بندر دو چار دن تو شیر کو گھاس پر لیٹے دھوپ سینکتے دیکھتا رہا۔ ایک روز اس کی رگِ شرارت پھڑکی تو اس نے سوئے ہوئے شیر کو ذرا دور سے پتھر دے مارا۔ شیر کی آنکھ کھل گئی اور وہ گستاخ بندر کو سبق سکھانے کے لیے اس کے پیچھے لپکا۔ غصے سے لال پیلے ہوتے شیر سے بچنے کے لیے بندر کچھ دیر تو اِدھر اُدھر بھاگتا رہا اور پھر ایک درخت کے آخری ٹہن پر جا بیٹھا۔ اگلے روز بندر نے سوئے ہوئے شیر کو دو پتھر مارے۔ اس دوہری گستاخی پر تو شیر پاگل ہی ہو گیا اور وہ بندر کی تکا بوٹی کرنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا۔ لیکن چونکہ آج بندر ایک نئے پلان کے تحت جنگل
کے بادشاہ پر حملہ آور ہوا تھا، اس لیے وہ کچھ دیر اِدھر اُدھر بھاگنے کے بعد جھاڑیوں کے جھنڈ میں جا گھسا۔ غصے سے بپھرے ہوئے شیر نے بھی بنا سوچے سمجھے جھنڈ میں سر پھنسا دیا۔ اِدھر شیر کا سر پھنسا، اُدھر بندر پیچھے سے آکر چھڑی سے شیر کی پشت سینکنے لگا۔ جتنی دیر میں شیرنے جھاڑیوں سے جان چھڑائی، اتنے میں بندر اُس کی پٹائی کرنے کے بعد یہ جا وہ جا۔ آج تو شیر کو سخت ہتک اور بے عزتی کا احساس ہوا کہ چھٹانک بھر بندر اُس کی پشت سینک گیا۔ تیسرے روز شیر پوری طرح الرٹ ہو کر دھوپ سینکنے آیا۔ آج وہ صرف دھوپ سینکنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا۔ بندر اسے سوتا دیکھ کر قریب پہنچا تو شیر جست لگا کر اس پر حملہ آور ہوا۔ وہ تو بندر کی قسمت اچھی تھی، جو اُس کی دُم شیر کے پنجے میں آتی آتی رہ گئی۔ شیر کو شدید غصے میں دیکھ کر جان بچانے کے لیے بندر جنگل کی حدود پار کر گیا۔ جنگل سے باہر سڑک کنارے ایک ہوٹل آباد تھا، جہاں میز کرسیاں لگی ہوئی تھیں اور ایک میز پر تازہ اخبار بھی پڑا تھا۔ بندر نے ایک کرسی سنبھالی اور اخبار پھیلا کر منہ کے آگے کر لیا۔ اتنے میں شیر بھی وہاں جا پہنچا۔ اس نے سڑک کی پرلی طرف کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھنے میں ’’مصروف‘‘ بندر کو انسان سمجھتے ہوئے ہانک لگائی: ’’بھائی صاحب! آپ نے یہاں سے ایک آوارہ بندر کو گزرتے تو نہیں دیکھا؟‘‘ بندر نے آواز بدل کر جوابی حملہ کیا: ’’جناب! آپ کہیں اس بندر کے بارے میں تو نہیں پوچھ رہے، جس نے کل جنگل کے بادشاہ کی پٹائی کی تھی؟‘‘ یہ سنتے ہی شیر یہ کہہ کر واپس مڑ گیا کہ ’’ہائے افسوس! اب جنگل کے بادشاہ کی رسوائی کے چرچے اخباروں میں بھی ہونے لگے‘‘۔
فواد چوہدری نے ہیلی کاپٹر کو سستی ترین سواری ثابت کرنے سے اپنی شگفتہ بیانیوں کا جو سفر شروع کیا تھا، وہ اب ان کے سینیٹ اجلاس میں داخلے پر پابندی تک آ پہنچا ہے، جو سراسر اُن کی زبان کی ’’شیرینی اور مٹھاس‘‘ کا ثمر ہے۔ لیکن ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کا کپتان اپنے وزیر اطلاعات کے کان کھینچنے کے بجائے قوم کو یوٹرن کے فضائل اور فوائد بتانے میں مصروف ہے۔ گویا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ایسے میں ملک و قوم کے لیے خیر کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ یادش بخیر، گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے فواد چوہدری کے سبز قدم جس روز سے وزارت اطلاعات میں پڑے ہیں، پاکستانی میڈیا کو اسی روز سے سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اخبارات کو اشتہارات کی بندش اور پرانے واجبات کی عدم ادائیگی کا سامنا ہے۔ کارکن صحافیوں کے لیے اپنے گھروں کے چولہے جلانا مشکل ہوگیا ہے۔ کراچی میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ واقفانِ حال کے مطابق اس پریشان کن صورتحال کا ایک سبب وفاقی وزیر اطلاعات کی مبینہ میڈیا دشمن پالیسیاں بھی ہیں۔ وزیر اعظم کو اس صورت حال اور خاص طور پر اپنے وفاقی وزیر اطلاعات کی ’’شگفتہ بیانیوں‘‘ کا فوری نوٹس لینا چاہئے تاکہ حکومت کی مزید سُبکی نہ ہو۔ علاوہ ازیں اگر وزیر اطلاعات کی یہی بے ڈھنگی چال برقرار رہی تو پھر عمران خان حکومت کی رسوائیوں کے چرچے اخباروں میں ہوتے رہیں گے اور بالآخر ایک دن انہیں لے ڈوبیں گے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment