یوٹرن کے بجائے رائٹ ٹرن کی ضرورت

کل بدھ کو تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت کے سو دن پورے ہو رہے ہیں۔ انفرادی زندگی میں کسی کے سو برس پورے ہونے کو بدشگونی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس قوموں کی زندگی میں ایک ایک روز اہمیت کا حامل ہوتا ہے، لیکن عمران خان کی سو روزہ حکومت کے موقع پر ملک کے گوشے گوشے سے مایوسی اور ناکامی کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ بعض حلقے تحریک انصاف کی حکومت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوئے اب بھی کہتے ہیں کہ یہ پارٹی پہلی مرتبہ اقتدار میں آئی ہے، لہٰذا اسے سیکھنے کے لیے کچھ موقع ملنا چاہئے۔ ان سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا پاکستان سیاست دانوں اور ان کی حکومتوں کے لیے تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا تھا؟ دوسرا سوال یہ کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف نے حالیہ عام انتخابات سے قبل بلند بانگ دعوے کئے تھے کہ اس کے پاس قومی دولت کے لٹیروں سے تمام رقوم واپس لینے کی قوت اور صلاحیت موجود ہے، اس صلاحیت کا کیا بنا؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا مزید بوجھ ڈال کر وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے ماضی کی حکومتوں سے مختلف کیا کارنامہ انجام دیا؟ آخری سوال یہ کہ جس حکومت کی اقتصادی پالیسی سو دنوں میں بھی واضح نہیں ہوسکی اور وہ اب تک اندھیروں میں تیر چلا رہی ہے، وہ کب تک سیکھنے کا عمل جاری رکھے گی؟ اس عرصے میں ملک و قوم کا کیا حال ہو چکا ہوگا، جبکہ وزیر خزانہ اسد عمر ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے خود اعتراف کر چکے ہیں کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے زیرصدارت اقتصادی رابطہ کونسل کے اجلاس میں وزارت خزانہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کے لیے مذاکرات جاری رکھے جائیں، لیکن ساتھ ہی متبادل اقتصادی منصوبے پر بھی غور کیا جائے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے بتایا کہ حکومت کو بعض سخت اقتصادی فیصلے کرنے پڑیں گے۔ کونسل میں موجود کچھ شرکا نے کہا کہ سخت فیصلوں کی صورت میں حکومت کے لیے سیاسی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ متبادل منصوبے پر غور کے لیے اقتصادی رابطہ کونسل کا اجلاس دو ہفتے بعد پھر ہو گا۔ دریں اثنا عمران خان نے حالیہ اجلاس میں غربت مٹائو حکمت عملی کی منظوری دی، جس کے لیے عالمی بینک سے چار کروڑ بیس لاکھ ڈالر (تقریباً پانچ ارب پینسٹھ کروڑ روپے) قرض لیا جائے گا۔ ماضی سے آج تک تمام حکومتوں کے پاس غربت مٹانے کا سب سے آسان نسخہ یہ رہا ہے کہ انہیں ٹیکسوں، قرضوں اور مہنگائی کے تازیانے لگا لگا کر بالکل ہی ختم کر دیا جائے، جس کے بعد نہ غریب بچے گا نہ غربت باقی رہے گی۔ غریبوں کے لیے انکم سپورٹ پروگرام، صحت کارڈز، لیپ ٹاپ کی تقسیم اور یوٹیلٹی اسٹورز کے قیام جیسے علیحدہ علیحدہ اقدامات ہمیشہ سطحی اور نمائشی ثابت ہوئے ہیں۔ ان کی وجہ سے عام غریب شہریوں کو معمولی فائدہ بھی پہنچنے کے بجائے متعلقہ حکام اور افسروں نے حسب حیثیت خوب لوٹ کھسوٹ کی ہے۔
کسی ملک کو اس طرح کے عارضی فیصلوں اور اقدامات سے شاہراہ ترقی پر کبھی گامزن نہیں کیا جا سکتا۔ لٹیروں کے لیے لوٹ کے مواقع ختم اور عام شہریوں کے لیے مربوط اقتصادی نظام رائج کئے بغیر تمام وعدے اور دعوے بے بنیاد اور جھوٹے ثابت ہوں گے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے وزیراعظم عمران خان کو مخلصانہ مشورہ دیا ہے کہ ان کی حکومت یوٹرن لینے اور یوٹرن کا جواز پیدا کرنے کی فضول مشق چھوڑ کر رائٹ ٹرن لے اور اپنے وعدوں کی تکمیل پر توجہ دے۔ ایک سرسری جائزے کے مطابق وفاق اور جن صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے، وہاں اب تک اچھی حکمرانی جیسی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ آج بھی لوگوں کو اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر ملازمتیں فراہم کرنے کے بجائے زیادہ تر متنازعہ شخصیات اور قریبی دوستوں کو نوازا جا رہا ہے۔ پولیس کو پہلے سے زیادہ سیاسی بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ خاتون اول کے گھر اور دفتر سے احکام جاری کر کے سفارش کے ذریعے کام کرائے جا رہے ہیں۔ احتساب کے عمل میں حکومت کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی، جبکہ اقتصادی زبوں حالی میں کمی کے بجائے اضافہ ساری قوم اور پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ لبرل یا آزاد خیال جماعتوں کی عام طور پر کھل کر حمایت کرنے والے کراچی کے ایک انگریزی معاصر نے پیر کو ایک اسپیشل رپورٹ میں تحریک انصاف کے سو دنوں کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ مئی میں مجموعی قومی پیداوار کی شرح چھ اعشاریہ دو فیصد مقرر کی گئی تھی، لیکن نومبر (موجودہ حکومت کے دور) میں یہ صرف چار فیصد رہی۔ افراط زر اگست کے پانچ اعشاریہ آٹھ سے بڑھ کر اکتوبر میں چھ اعشاریہ آٹھ فیصد تک پہنچ گیا۔ اس سال سترہ اگست کو جو ڈالر ایک سو چوبیس روپے کا تھا، وہ وزیراعظم عمران خان کے دور میں بائیس نومبر کو ایک سو چونتیس روپے رہا۔ محصولات میں بھی اگست کے برعکس اکتوبر میں چار کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔ قومی معیشت کی بدترین ناکامی میں درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی اس لحاظ سے بھی اس کے دعوئوں کے برعکس مایوس کن رہی۔ رواں سال اگست میں درآمدات کا ہدف چار ارب چھیالیس کروڑ ڈالر تھا، جو اکتوبر میں بڑھ کر چار ارب بہتر کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا، جبکہ اسی عرصے میں برآمدات میں چھ کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوئی۔ دس اگست میں دس ارب پندرہ کروڑ ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر میں سولہ نومبر کو زبردست کمی نظر آئی اور یہ ذخائر صرف سات ارب انتیس کروڑ ڈالر رہ گئے۔ معیشت کے اس آئینے میں وزیراعظم عمران خان کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو ان کے آئندہ وعدوں اور دعوئوں پر یقین کرنے کی کیا بنیاد باقی رہ جاتی ہے۔ عمران خان اگر ملک و قوم سے واقعی مخلص ہیں تو انہیں سب سے پہلے اپنے اردگرد جمع ہونے والے خوشامدیوں، مفاد پرست اور ناتجربہ کار افراد کے ٹولے پر نظر ڈالنی ہوگی۔ ان کی موجودگی میں وہ پاکستان کی ترقی و خوش حالی کا خواب کبھی پورا نہ کر سکیں گے، کجا یہ کہ وہ اسے مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے میں معمولی کامیابی بھی حاصل کر دکھائیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment