قسط نمبر: 184
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
میں اپنی جگہ دبکا، کانوں کو ہاتھوں سے ڈھانپے انتظار کرتا رہا، لیکن امر دیپ نے دوسری گولی نہ چلائی۔ نہ ہی الکھ سنگھ کی طرف سے فائر آیا۔ چند لمحوں کی تناؤ آمیز خاموشی کے بعد امر دیپ نے تھکے تھکے لہجے میں مجھے کہا۔ ’’بہادر بھائیا بیٹھ جاؤ،کام ہوگیا!‘‘۔
میں نے اس کی بات غور سے سنی اور مطلب سمجھنے کے باوجود آہستہ آہستہ، احتیاط سے سر اٹھاکر درختوں میں اس طرف نظر ڈالی، جہاں سے مجھ پر پچھلا فائر ہوا تھا۔ دل کے کسی گوشے میں پوشیدہ اندیشے کے برخلاف مجھ پر فائر نہیں ہوا۔ پہلی نظر میں تو مجھے وہاں کچھ نظر نہ آیا۔ پھر غور سے دیکھنے پر ایک درخت کی آڑ سے الکھ سنگھ کے پیر جھانکتے نظر آئے۔ دونوں ایڑھیاں وقفے وقفے سے کچی زمین سے رگڑیں کھا رہی تھیں۔ پھر مجھے درخت کے دوسری طرف الکھ سنگھ کے جسم کی جھلک بھی دکھائی دی۔
شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ امر دیپ کے کہنے کے عین مطابق اس کے پھپھڑ پر نزاع کی کیفیت طاری تھی اور اس کی کہانی اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب تھی۔
میں جیپ سے اتر آیا۔ چند ہی لمحوں میں امر دیپ بھی میرے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا۔ ہم دونوں کی نظریں بری طرح گھائل الکھ سنگھ کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ میں نے امر دیپ کے چہرے پر نظر ڈالی تو وہاں گہری افسردگی نظر آئی۔ اس نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’چلو بھائی، جیپ میں بیٹھو، اب یہاں رکنے کا کوئی فائدہ نہیں!‘‘۔
اس کی بات سن کر مجھے حیرانی ہوئی۔ ’’کیا مطلب امر دیپ بھائی؟ ابھی تو ہمیں اپنے اندازوں کی تصدیق کرنا ہے!‘‘۔
اس نے بدستور پژمردہ لہجے میں کہا۔ ’’اب کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ تو اپنے انجام کو پہنچ گیا‘‘۔
میں نے مضبوط لہجے میں کہا۔ ’’آپ کو نہ سہی، مجھے فرق پڑتا ہے۔ میں ثابت کیے بغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا کہ میرے اندازے درست تھے‘‘۔
امر دیپ نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’اچھا بھائی، جیسے تمہاری مرضی، چلو!‘‘۔
میں نے تلاش میں نظریں دوڑائیں تو لگ بھگ تیس گز کے فاصلے پر درختوں کے درمیان الکھ سنگھ کا چتکبرا گھوڑا صبر و قناعت کی تصویر بنا دکھائی دیا۔ اسے وقتی طور پر نظر انداز کر کے میں الکھ سنگھ کی طرف بڑھا۔ امر دیپ بھی میرے پیچھے پیچھے تھا۔ میرا ریوالور اس نے مجھے تھمادیا تھا۔
ہم پہنچے تو الکھ سنگھ دم توڑ چکا تھا۔ اس کی زندگی سے عاری آنکھیں فضا میں جانے کیا تلاش کر رہی تھیں۔گولی اس کے سینے میں دل کے قریب لگی تھی، جس نے اسے ٹھکانے لگانے میں دیر نہیں لگائی تھی۔ اس کا پستول بھی قریب ہی پڑا تھا۔ امر دیپ نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ اس کی توجہ نہ پاکر میں نے خود ہی الکھ سنگھ کے لہو میں لتھڑی موٹی بنڈی (واسکٹ) کے بٹن کھولے۔ اس کا اندر کا لباس محفوظ تھا۔ میں نے پہلے بنڈی کی اندرونی جیبیں ٹٹولیں اور پھر کرتے کو کھنگالا۔ لیکن معمولی رقم کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔ لیکن میں نے ہمت نہ ہماری۔ بالآخر اس کی کمری (کپڑے کا بنیان نما زیر جامہ) کی جیب میں ہاتھ ڈالنے پر مجھے نوٹوں کی خاصی موٹی گڈی جیسی کسی چیز کا لمس محسوس ہوا۔
میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ ہاتھ باہر نکالا تو واقعی بڑے نوٹوں کی گڈی میرے سامنے تھی۔ میں نے آواز دے کر امر دیپ کو متوجہ کیا۔ ’’بھائیا جی، یہ دیکھو، پھپھڑ جی کی کمری سے کیا نکلا ہے‘‘۔
اس نے میری ہتھیلی پر رکھی نوٹوں کی گڈی پر نظر ڈالی تو بری طرح چونک پڑا۔ میں نے رقم اسے تھما دی۔ اس نے نوٹوں پر چڑھی ربڑ ہٹائی اور ماہرانہ انداز میں نوٹ گننے لگا۔ فارغ ہونے کے بعد اس نے گہری سانس بھری اور میری طرف دیکھ کر کہا۔ ’’اکیس ہزار روپیہ!‘‘۔
مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ یہ گڈی ساڑھے تین ہزار روپیے کی متوقع رقم سے زیادہ ہے۔ لیکن اتنے بھاری مال کی موجودگی میرے لیے بھی حیران کن تھی۔ میں نے قیاس ظاہر کیا۔ ’’لگتا ہے ان دونوں ڈاکو بھائیوں کا پہلے سے جمع کیا ہوا سارا مال بھی بابے کے ہاتھ لگ گیا تھا‘‘۔
امر دیپ نے میری تائید میں گردن ہلاتے ہوئے اضافہ کیا۔ ’’شاید ان کا دوسرا گھوڑا بھی بیچ کر آیا تھا پھپھڑ۔ اسی لیے اتنا خوش اور مطمئن تھا۔ یہ گھوڑا بھی کافی مالیت کا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’پستول اور بندوق بھی ہاتھ لگے تھے۔ چلیں دیکھتے ہیں‘‘۔
ہمیں ٹٹولنے سے ہی گھوڑے کی کاٹھی سے بندھے بنڈل میں موجود شاٹ گن اور پستول کا پتا چل گیا۔ لہٰذا امر دیپ کی تجویز پر میں نے بنڈل کھولنے پر اصرار نہیں کیا۔ میں نے پوچھا۔ ’’اب کیا ارادہ ہے بھائی جی؟‘‘۔
اس نے بھاری لہجے میں کہا۔ ’’ارادہ کیا ہونا ہے؟ میں اس گھوڑے پر سوار ہوکر حویلی واپس جاتا ہوں۔ تم جیپ لے کر پٹیالے نکل جاؤ‘‘۔
میں نے ایک نظر الکھ سنگھ کی لاش پر ڈالی۔ ’’میرا مطلب ہے اس کا کیا کرنا ہے؟‘‘۔
اس نے بے نیازی سے کہا۔ ’’کچھ نہیں، کسی نہ کسی کی نظر پڑ ہی جائے گی۔ پھر پولیس جانے اور الکھ سنگھ کے گھر والے جانیں۔ ہاں، تعزیت کرنے اور خرچہ دینے ہم ضرور جائیں گے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اور یہ رقم؟ میری مانیں تو اسے الکھ سنگھ کے گھر والوں کے حوالے کر دیں‘‘۔
امر دیپ نے جواب میں قدرے سخت لہجے میں کہا۔ ’’پھپھڑ جی کے بعد ان لوگوں سے ہمارا رہا سہا تعلق بھی ختم ہوگیا ہے۔ انہیں پالنا ہماری ذمہ داری نہیں۔ یہ رقم اب تمہاری ہے، جیسے جی چاہے خرچ کرو۔ میرا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے‘‘۔
میں نے امر دیپ کی اس پیار بھری ہٹ دھرمی پر کافی احتجاج کیا، لیکن اس نے میری ایک نہ سنی۔ تھک ہار کر میں نے کہا۔ ’’اچھا بھائی، جیسے تمہاری مرضی۔ لیکن یہ گھوڑا حویلی لے جانے کی ضرورت نہیں۔ حویلی کے ملازم اسے الکھ سنگھ کی ملکیت سمجھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے راستے میں بھی لوگ الکھ سنگھ کو اس پر سوار ہوکر جاتے دیکھ چکے ہوں‘‘۔
امر دیپ نے میری بات مان لی اور گھوڑے پر سے بندوق والا بنڈل اتار کر اسے الکھ سنگھ کی لاش کے قریب ایک درخت سے باندھ کر وہیں چھوڑ دیا۔ ہم دونوں ایک بار پھر پکی سڑک پر پہنچے۔ میں نے امر دیپ کو واپس حویلی پہنچایا اور کچھ دیر رکنے کے بعد دوبارہ پٹیالے جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ (جاری ہے)