سبک رفتار آرام دہ کار پہاڑ کے گرد بل کھاتے ہموار راستے پر دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ یہ ہموار سڑک بلند سر سبز پہاڑ کے گرد یوں گھوم رہی تھی، جیسے کوئی لٹو کے گرد ڈوری لپیٹتا ہے۔ سیلانی کی بائیں جانب وہ گہرائیاں کہ بندہ دیکھے تو دل اچھل کر حلق میں آجائے اور دوسری جانب وہ اونچائیاں کہ انسان دیکھنے کے لئے سر اٹھائے تو دستار گر پڑے۔ مری سے کشمیر جاتے ہوئے پہاڑی سلسلے پر دو دو سو فٹ کے چنار ایسے لگتے ہیں، جیسے کسی نے پہاڑوں میں سبز میخیں ٹھونک رکھی ہوں۔ ان پہاڑوں کا عجیب ہی حسن ہے۔ بندہ مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے۔ سیلانی بھی توصیفی نظروں سے قدرت کی صناعی دیکھ رہا تھا اور ساتھ بیٹھے مفتی عبد القیوم، پچھلی نشست پر بیٹھے مولانا مراد اور ان کے دوست سے گپ شپ کر رہا تھا۔ جاپانی کار چاروں مسافروں کو ساتھ لئے آگے بڑھ رہی تھی اور ساتھ ہی کار میں گرما گرم گفتگو بھی چل رہی تھی۔ چاروں مسافر امت امسلمہ پر مسلط کی گئی دہشت گردی پر بات کر رہے تھے۔ کراچی سے لے کر کشمیر، کشمیرسے لے کر کابل اور کابل سے لے کر حلب تک دنیا میں جہاں کہیں دہشت گردی کی آگ بھڑک رہی ہے، وہ مسلمانوں کے ملک اور شہر ہی ہیں۔ افسوس کہ اس سارے معاملے میں مسلمان ہی استعمال ہو رہے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ مارنے والے کو علم نہیں کہ وہ کیوں قتل کر رہا ہے اور مرنے والے کو خبر نہیں کہ اسے کیوں قتل کیا جا رہا ہے۔ ہادیٔ برحقؐ نے ایسی ہی صورت حال کی نشاندہی چودہ سو سال پہلے فرما دی تھی۔
’’اب دیکھیں ناں کابل میں بیس نومبر کو سیرت النبیؐ کے جلسے کو نشانہ بنایا گیا۔ بھلا کوئی مسلمان ایسی حرکت کر سکتا ہے؟ کون اتنی مبارک محفل میں بم باندھ کر موت بانٹتا ہے، لیکن افسوس ایسا ہوا۔‘‘ سیلانی نے افسردگی سے کہا۔ اس کے لہجے میں یاسیت واضح تھی۔
’’طالبان نے اس کی مذمت کی ہے اور سب سے اہم بات اس کی ٹائمنگ ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ طالبان ماسکو میں امن بات چیت میں مصروف ہیں اور یہاں اتنی بڑی واردات ہوتی ہے۔‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے مفتی عبد القیوم صاحب نے موڑ موڑنے کے لئے کار کی رفتار کم کرتے ہوئے کہا۔ وہ انصار الامہ کے مرکزی ذمہ دار ہیں۔ اسلام آباد میں رہتے ہیں اور وہ اس وقت آزاد کشمیر کے شہر باغ کی جانب جا رہے تھے، جہاں شب بسری کے بعد انہیں راولا کوٹ کے علاقے مجاہد آباد میں سیرت کانفرنس سے خطاب کرنا تھا۔ ان کے ساتھ مولانا مراد بھی تھے، جن سے سیلانی کی برسوں پرانی یاد اللہ ہے۔ مولانا مراد نے ہی سیلانی کو بھی ساتھ چلنے کی پیشکش کی تھی۔ اب بھلا سیلانی کیسے انکارکرتا اور وہ بھی کشمیر جانے سے؟ کشمیر تو ویسے ہی اس کی کمزوری ہے۔
اسی طرح کی گپ شپ میں کسی چمکدار کھال والے اژدھے کی طرح بل کھاتے دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے وہ جب باغ پہنچے تو شام کا ملگجا اندھیرا رات میں بدل چکا تھا۔ باغ بازار کے قریب ان کا میزبان انہیں لینے پہنچ گیا۔ محبت بھرے معانقوں کے بعد وہ سیشن کورٹ باغ کے پیچھے ایک فولادی گھر میں داخل ہوگئے۔ یہ کنٹینر میں بنا ہوا دو کمروں کا مکان تھا، جس میں باورچی خانہ، بیت الخلاء اور چھوٹا سا برآمدہ بھی تھا۔ ایسے بہت سے گھر سعودی عرب کی جانب سے زلزلے میں بے گھر ہونے والے کشمیریوں کو تحفے میں دیئے گئے تھے۔ باغ میں ابھی وہ ٹھٹھرتی ٹھنڈ نہیں تھی، جو کشمیر کا خاصہ ہے۔ لیکن ایسی سردی بھی نہ تھی کہ سوئٹر سے قابو آجاتی۔ ایسے میں کنٹینر والے گھر میں ٹھنڈ کچھ زیادہ لگ رہی تھی۔ یہاںکمروں میں قالین پر روئی کے گدے پڑے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی رضائیاں بھی تھیں۔ سیلانی نے تکئے سے ٹیک لگائی اور پیروں پر رضائی پھیلا لی۔ مفتی عبد القیوم اور مراد خان نے بھی سیلانی کی تقلید کی، لیکن چوتھا ہم سفر بنا رضائی کے تکئے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا، جس پر سیلانی نے ان سے کہا:
’’ندیم بھائی! کافی سردی ہے رضائی لے لیں۔‘‘
وہ مسکرا کر کہنے لگے: ’’اسے کون سردی کہتا ہے، سردی تو وادی میں پڑتی ہے۔‘‘
ان کی اس بات پر سیلانی چونک گیا: ’’آپ وادی میں رہے ہیں؟‘‘ وادی سے مراد مقبوضہ کشمیر لی جاتی ہے۔
’’جی الحمد للہ پورا سال رہا ہوں۔‘‘
’’آپ وہاں کیا کرتے تھے؟‘‘
’’جو حریت پسند اور غیرت مند کشمیری کرتے ہیں۔‘‘ ان کے لبوں پر مسکراہٹ تھی، لیکن عجیب بات یہ کہ ان کی ایک آنکھ اس مسکراہٹ کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ ہم جب ہنستے ہیں یا غمزدہ ہوتے ہیں تو ہماری آنکھیں بھی ہنستی ہیں اور روتی ہیں، لیکن وہاں ایسا کچھ نہ تھا، کچھ عجیب سا تھا۔
سیلانی کی دلچسپی دیکھتے ہوئے مولانا مراد کہنے لگے: ’’سیلانی بھائی! ہمارے یہ دوست غازی ہیں، مقبوضہ کشمیر میں قابض فوجیوں سے لڑتے ہوئے ان کی ایک آنکھ بھی شہید ہو چکی ہے۔‘‘
مراد کے تعارف کرانے کے بعد حریت پسند مجاہد سیلانی پر کھل گیا۔ میزبان رات کے کھانے کے انتظام میں مصروف ہوگئے اور سیلانی ندیم سے مقبوضہ وادی کا حال احوال جاننے کے لئے بے چین ہو گیا۔ وہ اسی متعلق سوالات کرتا رہا۔ کھانے پر بھی یہی باتیں ہوتی رہیں۔ سیلانی جاننا چاہتا تھا کہ کشمیری حریت پسند وہاں کیسے رہتے ہیں، کہاں رہتے ہیں، کیا مشکلات پیش آتی ہیں، لوگ ان سے کیسے ملتے ہیں اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ معرکوں میں کیا صورت حال ہوتی ہے؟ سیلانی کے پے در پے سوالات کے جواب میں وہ بتانے لگا:
’’وہاں کی زندگی عجیب اطمینان والی زندگی تھی، وہ جو کہتے ہیں ناں کہ جان ہتھیلی پر لے کر پھرنا… تو وہاں مجاہدوں کی ایسے ہی زندگی ہوتی ہے، ہم بستیوں کے آس پاس جنگلوں میں اور زیادہ تر ٹولیوں میں رہتے ہیں، رائفل اور ایمونیشن ہمارے پاس ہوتا ہے، راشن بھی مختلف جگہوں پر چھپا کر رکھتے ہیں، وہاں سارا سارا دن پیدل مارچ ہوتی ہے، پلٹنے اور جھپٹنے کا معمول ہوتا ہے اور بس یہی زندگی ہوتی ہے۔‘‘
’’میرا مطلب ہے کہ زندہ رہنے کے لئے کھانا پینا چاہئے، سردی گرمی کا لباس، دوا دارو بھی چاہئے ہوتا ہے، یہ سب کہاں سے آتا ہے؟‘‘
’’وہاں سب کچھ بہت ہے، ہم جنگلوں میں چھپ کر رہتے تھے اور اکثر شام کو نیچے گاؤں میں اتر جاتے تھے، ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ ہم کس گھر میں محفوظ رہ سکتے ہیں اور کہاں ہم سکون سے رات گزار سکتے ہیں، ہم گاؤں پہنچتے اور جس گھر میں بھی جاتے، وہ ہمیں سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ گرم گرم دودھ کے پیالے بھرکر لاتے، کھانا کھلاتے اور بستر لگاتے، صبح ہونے سے پہلے ہم وہاں سے نکل جاتے تھے‘‘۔
’’کبھی انڈین آرمی سے بھی سے بھی سامنا ہوا؟‘‘
’’سترہ بار…‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’اوہ اچھا… اور یہ آنکھ کیسے…‘‘ سیلانی نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’یہ راجواڑ میں شہید ہوئی تھی، ہم وہاں چھپے ہوئے تھے کہ آرمی کو مخبری ہوگئی۔ اس نے پورا علاقہ گھیر لیا۔ ہم بھی ان کے استقبال کے لئے تیار ہو گئے۔ ہم نے طے کیا کہ فائرنگ کرتے ہوئے گاؤں سے نکل کر فصلوں کی طرف بڑھیں گے اور یہاں سے محاصرہ توڑکر جنگل میں پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ آرمی کو اندازہ ہو گیا۔ اس نے گھیرا ڈال لیا۔ فائرنگ شروع کر دی۔ ہم نے بھی برابر جواب دیا۔ وہاں سے جی ٹو کا فائر آرہا تھا۔ ہم کلاشن سے جواب دے رہے تھے۔ ہمارے پاس کلاشن کوف، گرنیڈ اور کلاشن کوف سے فائر کئے جانے والے شیل تھے۔ مقابلہ شروع ہوا۔ ہم آٹھ ساتھی تھے۔ ہم نے پوزیشن لے لی اور حکمت عملی کے تحت پوزیشن بدل بدل کر فائرنگ کرنے لگے۔ اسی دوران میرے ساتھی مجاہد کو پسلیوں میں گولیاں لگیں۔ میں اسے اٹھانے گیا تو میری آنکھ میں کوئی چیز آکر لگی۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے۔ اس وقت پتہ بھی نہیں چلتا کہ کہاں کہاں گولی لگ رہی ہے یا زخم آرہے ہیں۔ یہ تو بعد میں جا کر پتہ چلتا ہے کہ ہوا کیا ہے۔ مجھے بھی اس وقت پتہ نہیں چلا۔ بس اتنا یاد ہے کہ میرے حلق میں خون گر رہا تھا۔ دراصل گولی میرے کان کے پیچھے لگی اور آنکھ میں سے ہوتی ہوئی یہاں سے باہر نکل گئی تھی۔‘‘ انہوں نے دونوں بھنوؤں کے درمیان ایک جگہ انگشت شہادت رکھ دی اور سیلانی جھرجھری لے کر رہ گیا۔
وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے: ’’فائر کرتے کرتے ہم کسی نہ کسی طرح کھیتوں میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور اوندھے لیٹ کر پوزیشن لے لی۔ نہیں پتہ کہ کتنی دیر تک فائرنگ ہوتی رہی، یہاں تک کہ شام ہو گئی۔ وہاں شام ہوتے ہی آرمی واپس کیمپوں میں چلی جاتی ہے۔ وہ شام کے بعد نہیں لڑتے۔ وہ چلے گئے تو ایک بوڑھی کشمیری عورت میرے پاس بھاگتی ہوئی آئی اور آتے ہی میرے سر کو چومنے لگ گئی۔ وہ روٹی اور مکھن بھی کھانے کو لائی تھی۔ وہ مجھے حوصلہ دے رہی تھی اور بتا رہی تھی کہ آرمی چلی گئی ہے، لیکن مجھے زیادہ ہوش نہیں تھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا پیٹ میرے ہی خون سے بھر گیا ہے۔ میرے ساتھی مجھے اٹھا کر وہاں سے لے گئے اور درد ختم کرنے والے انجکشن لگا کر میری تکلیف کم کرنے لگے۔ میں کبھی بے ہوش ہو جاتا اور کبھی ہوش میں آجاتا۔ مجھے کچھ ہوش نہ تھا۔ ہم جنگل میں تھے اور سچی بات ہے میرے ساتھی میری شہادت کا انتظار کر رہے تھے۔ میرے بچنے کے امکانات بیس فیصد بھی نہ تھے۔ جنگل میں تیسرے دن گاؤں سے ایک بوڑھی عورت میرا پوچھتے پوچھتے وہاں پہنچی کہ وہ جو زخمی ہوا تھا، کہاں ہے؟ ساتھیوں نے بتایا کہ وہ سامنے درخت کے نیچے پڑا ہے۔ شاید کسی بھی وقت دم دے دے، حالت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ میرے پاس آگئی اور میرا سر اٹھا کر گود میں رکھ کر دودھ کا پیالہ میرے منہ سے لگا دیا۔ میں نے وہ دودھ پینا شروع کر دیا اور پھر مجھے متلی ہوئی اور بڑی سی قے کر دی۔ قے کے ساتھ ہی میرے پیٹ میں جمع خون کے لوتھڑے میرے منہ سے نکلنے لگے۔ میرے پیٹ میں جمع خون نکلا تو میری آنکھیں بھی کھل گئیں اور آنکھوں میں روشنی بھی آگئی، پھر ساتھیوں کا ایک ڈاکٹر سے بھی رابطہ ہو گیا۔ آپ یقین کرو گے کہ میں اس زخمی حالت میں بیس دن پڑا رہا۔ بیس دن بعد ڈاکٹر نے میرا زخم دیکھا۔ وہ بھی حیران تھا کہ میں زندہ کیسے بچ گیا ہوں۔ میرا علاج ہوا تو مجھے ٹھیک سے ہوش آیا اور پھر مجھے پتہ چلا کہ میری آنکھ نہیں رہی الحمد للہ‘‘
’’الحمد للہ…‘‘ سیلانی چونک گیا۔
’’جی بھائی الحمد للہ… مجاہد کی تو خواہش ہی شہادت کی ہوتی ہے، ہم وہاں اللہ کے حکم پر اپنے حق کے لئے لڑ رہے ہیں، اس لڑائی میں جان چلی جائے تو سبحان اللہ اور جسم کا کوئی حصہ کٹ جائے تو بھی الحمد للہ… جو مالک کی رضا۔‘‘
سیلانی ہکا بکا ندیم کا منہ دیکھنے لگا۔ ان کے چہرے پر ایسا اطمینان اور ایسا سکون تھا، جو گنوانے والوں کے نہیں، پانے والوں کے چہروں پر ہوتا ہے۔ ندیم نے بتایا کہ جہاد کی راہ میں اللہ کی نصرت ایسے دیکھی، جیسے ہتھیلی پر رکھا سکہ۔ وہ کہنے لگے: ’’ایک بار اسی طرح محاصرے میں پھنس گئے، خیر مقابلہ ہوا اور محاصرہ توڑ کر بھاگ نکلے۔ ایک جگہ رات گزار لی۔ صبح آگے بڑھنے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شیر سامنے کھڑا ہے اور ہم جیسے ہی آگے بڑھتے ہیں تو وہ منہ کھول کر ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں آگے نہیں آنے دیتا۔ دوسری طرف جاتے ہیں تو کچھ نہیں کہتا۔ ہم سمجھ گئے کہ کوئی نہ کوئی بات ہے۔ ہم دوسری طرف نکل گئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ جہاں ہم جانا چاہ رہے تھے اور شیر نہیں جانے دے رہا تھا، وہاں آگے آرمی موجود تھی۔‘‘
غازی ندیم سے کھانے کے بعد بھی دیر تک گفتگو جاری رہی، یہاں تک کہ نیند پلکیں بھاری کرنے لگی۔ سب نے تکیوں پر سر رکھ لئے۔ غازی ندیم بھی تیاری کرنے لگے اور یہ تیاری یہ تھی کہ انہوں نے اپنی انگشت شہادت سے مصنوعی آنکھ کا گوشہ دبایا اور پوری پور اندر ڈال کر آنکھ نکال کر ایک طرف رکھ دی اور مزے سے تکئے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔ قریب ہی لیٹا ہوا سیلانی یہ سب حیرت سے یہ دیکھ رہا تھا اور پھر حیرت کی جگہ رشک نے لے لی اور وہ رشک بھری نظروں سے غازی ندیم کو دیکھنے لگا اور دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭٭٭٭٭