ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
معبود حقیقی نے جو قوانین نافذ کئے، ان کو بستیوں پر لاگو کیا۔ اس نے انسان کیلئے بستیاں بسائیں۔ ہر انسانی بستی اور آبادی میں تین قسم کے لوگ آباد کئے۔ پہلی قسم نافرمان لوگوں کی بستی ہوتی ہے، جو کھلم کھلا بلاجھجھک پوری سرکشی کے ساتھ خدا کی نافرمانی کرتی ہے اور اس پر کوئی شرمندگی بھی محسوس نہیں کرتی۔ دوسری قسم ان بزدل لوگوں کی ہوتی ہے، جو خود خدا کے احکامات سے روگردانی نہیں کرتے، مگر دوسرے نافرمان لوگوں کو غلط کام سے نہیں روکتے اور خاموشی سے تماش بین بنے رہتے ہیں۔ نصیحت کرنے والوں کو بھی منع کرتے ہیں کہ ان نافرمان لوگوں کو روکنا ٹوکنا بیکار ہے، یہ اپنی سرکشی سے باز نہیں آئیں گے۔ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے، جن کی غیرت ایمانی احکام الٰہیہ کی اس کھلم کھلا نافرمانی اور حدود کی بے حرمتی کو برداشت نہیں کرتی اور نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ خواہ اس کیلئے انہیں کتنی ہی مخالفت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ ان نافرمانوں کو راہ راست پر لانے کی بھرپور کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ راہ راست پر نہ بھی آئے، تب بھی وہ اپنا فرض پورا کرتے رہیں گے اور خدا کے سامنے اپنے عمل کے لیے سرخرو ہو جائیں گے۔
گناہوں کو دیکھنا اور طاقت کے باوجود اس کو نہ روکنا جرم ہے، جس پر خدا کی گرفت ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہر دور میں صالحین نے اپنا فرض پورا کیا ہے اور نافرمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انہیں وعظ و تبلیغ سے راہ راست پر لانے کی حتی الامکان کوشش کی ہے، مگر وہ ہٹ دھرم اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر اپنی روش بدلنے پر تیار نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ ہلاکت اور عذاب ہمارا مقدر ہے تو پھر ہمیں وعظ و نصیحت کیوں کرتے ہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہونے والی جماعت انہیں برائیوں سے اس لیے روکتی ہے تاکہ اپنے خدا کے سامنے سرخرو ہو سکے۔ حقیقت یہی ہے کہ قانون قدرت کے تحت جب خدا کا عذاب اس بستی پر آتا ہے تو اس کے عذاب سے صرف وہی لوگ بچالئے جاتے ہیں جن کو اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ باقی دونوں گروہ ظالموں میں شامل ہوتے ہیں اور اپنے جرم کی حد تک عذاب میں مبتلا کر دیئے جاتے ہیں۔ دین میں الحاد اختیار کرنا، کج روی اور گمراہی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ ’’خدا تعالیٰ ظالم کو مہلت دیئے جاتا ہے، حتیٰ کہ جب اس کو پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’دنیا کا عذاب آخرت سے بہت ہلکا ہے، دنیا کا عذاب عارضی اور فانی ہے اور آخرت کا عذاب دائمی ہے، اس کا زوال و فنا نہیں، جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے اناسی (79) گنا زیادہ ہے۔‘‘
قرآن مجید میں سورۃ رعد کی آیت نمبر 102 میں ارشاد ربانی ہے: ’’اس طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کی مرتکب بستیوں کو پکڑتا ہے۔ یقینا اس کی پکڑ بہت ہی سخت اور المناک ہے۔‘‘ اسی مضمون کے تحت سورۃ رعد میں آیت34 میں ظالموں کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’ان کیلئے دنیا کی زندگی میں بھی عذاب ہے اور آخرت کا عذاب تو بہت ہی زیادہ سخت ہے۔ انہیں خدا کے غضب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔‘‘ ظالموں کی بستیوں کے بارے میں سورۃ الاعراف میں ارشاد خداوندی ہوا: ’’اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتیں ان پر کھول دیتے، لیکن انہوں نے تکذیب کی، ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔ کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہو گئے ہیں کہ ان پر عذاب شب کے وقت آپڑے جس وقت وہ سوتے ہوں اور کیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکر ہو گئے کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے آپڑے، جس وقت وہ اپنے کھیلوں میں مشغول ہوں۔ پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس بات سے بے خبر ہوگئے کہ ہماری گرفت اچانک ان پر رات کے وقت آجائے، جبکہ وہ سوئے پڑے ہوں یا انہیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی ان پر دن
کے وقت نہ پڑے گا، جبکہ وہ کھیل رہے ہوں۔ کیا یہ لوگ خدا کی چال سے بے خبر اور بے خوف ہیں، حالانکہ خدا کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ (سورۃ الاعراف: 95 تا 100)
اسی سورت کی 178 آیت میں ارشاد ہوا: ’’جسے خدا ہدایت بخشے بس وہی راہ راست پاتا ہے اور جس کو خدا اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم کیلئے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں، مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں ہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے، ہم انہیں بتدریج ایسے طریقے سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔ میں تو انہیں ڈھیل دے رہا ہوں، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے۔‘‘
سورۃ الانفال میں خدا کا نافرمان ان بندوں کو قرار دیا ہے جو ’’خدا کے نزدیک بدترین قسم کے بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے‘‘ (سورۃ الانفال: 22) سورۃ الاعراف کی آیت 175 میں خواہش نفس کے پیچھے چلنے والے انسان کو ایسے کتے کی مانند کہا گیا ہے کہ ’’تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔‘‘ قرآن پاک میں بار بار اس فتنے سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعیت پر ضرب لگاتا ہے اور وبائے عام کی طرح معاشرے میں پھیل کر ایسی شامت لاتا ہے جس میں صرف گناہ گار ہی گرفتار نہیں ہوتے، بلکہ وہ لوگ بھی عتاب کا نشانہ بنتے ہیں جو اس گناہ گار معاشرے میں گناہوں سے روکنے کیلئے عملی اقدام نہیں کرتے اور زبان اور کان بند کئے رہتے ہیں اور ’’جب ان کو ہماری آیات سنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ہاں سن لیا ہم نے۔ ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں یہ تو وہی پرانی کہانیاں ہیں جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آئے ہیں اور ہاں وہ بات بھی یاد ہے جو انہوں نے کہی تھی کہ خدایا اگر یہ واقعی حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔‘‘ سورۃ توبہ میں آیات 34 اور 35 میں اس دردناک عذاب کا تذکرہ ہے۔ ’’دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کو پیشانیوں، پہلوئوں اور پٹھوں کو داغا جائے گا، یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔‘‘ سورۂ یونس میں 22 تا 24 آیات میں خدا کی پکڑ اور عذاب کا تذکرہ ہے۔ ’’دنیا کی زندگی کے چند روزہ مزے ہیں (لوٹ لو) پھر ہماری ہی طرف تم کو پلٹ کر آنا ہے، اس وقت ہم تم کو بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔ دنیا کی یہ زندگی (جس کے نشے میں مست ہو کر تم ہماری نشانیوں سے غفلت برت رہے ہو) اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں خوب گھنی ہوگئی۔ پھر عین اس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں اور کھلیان بنی سنوری کھڑی تھیں اور ان کے مالک یہ سمجھ رہے تھے کہ اب ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں، یکایک رات کو ہمارا حکم آگیا اور ہم نے اسے ایسا غارت کر کے رکھ دیا کہ گویا کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ اسی طرح ہم نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں۔‘‘ اسی مضمون کو اور وضاحت سے آیت نمبر 50 میں بیان کیا گیا۔ ’’ہر امت کیلئے مہلت کی ایک مدت ہے، جب یہ مدت پوری ہو جاتی ہے تو گھڑی بھر کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ ان سے کہو کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر خدا کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آجائے تو (تم کیا کر سکتے ہو؟) آخر یہ ایسی کون سی چیز ہے جس کیلئے مجرم جلدی مچائیں یا جب وہ تم پر آپڑے اس وقت تم اس کو مانو گے۔ اب بچنا چاہتے ہو؟ حالانکہ تم خود ہی اس کے جلدی آنے کا تقاضا کر رہے تھے، پھر ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کیلئے عذاب کا مزہ چکھو جو کچھ تم کماتے رہے ہو اس کی پاداش کے سوا اور کیا بدلہ تم کو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
خدا کے قوانین ہمیشہ سے اٹل ہیں، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ سورۃ ہود میں آیات نمبر 102 سے 106 تک خدا کے نافرمان بندوں اور ان پر عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ ’’تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے، فی الواقع اس کی پکڑ بڑی سخت اور دردناک ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک نشانی ہے کہ ہر اس شخص کے لیے جو عذاب آخرت کا خوف کرے۔‘‘
سورۃ یوسف میں ارشاد ربانی ہوا: ’’کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ہی ان پر نہ آجائے گی۔‘‘ (108-107) حقیقت یہ ہے کہ خدا کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف تبدیل نہیں کرتی اور جب خدا کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی اور نہ خدا کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہو سکتا ہے۔ وہی ہے جو تمہارے سامنے بجلیاں چمکاتا ہے، جنہیں دیکھ کر تمہیں اندیشے بھی لاحق ہوتے ہیں اور امیدیں بھی بندھتی ہیں، وہی ہے جو پانی سے لدے بادل اٹھاتا ہے۔ بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اس کی تسبیح کرتے ہیں، وہ کڑکتی ہوئی بجلیاں بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) انہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے، جبکہ لوگ خدا کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ فی الواقع اس کی چال زبردست ہے۔ (سورۃ رعد۔ 108-107) جن لوگوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کرلی ہے ان کے لیے بھلائی ہے اور جنہوں نے اسے قبول نہ کیا وہ اگر زمین کی ساری دولت کے بھی مالک ہوں اور اتنی ہی فراہم کر لیں تو وہ خدا کی پکڑ سے بچنے کے لیے ان سب کو فدیہ میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے بری طرح حساب لیا جائے گا اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے، بہت ہی برا ٹھکانہ۔ (سورۃ رعد 18) قرآن انسان کو صراط مستقیم پر چلنے کی تاکید کرتا ہے اس کیلئے بار بار ہدایت کرتا ہے۔ ’’پھر کیا وہ لوگ جو (پیغمبر کی مخالفت میں) بد سے بدتر چالیں چل رہے ہیں، اس بات سے بالکل ہی بے خوف ہو گئے ہیں کہ خدا ان کو زمین میں دھنسا دے یا ایسے گوشے سے ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا وہم و گمان تک نہ ہو یا اچانک چلتے پھرتے ان کو پکڑ لے یا ایسی حالت میں انہیں پکڑے جبکہ انہیں خود آنے والی مصیبت کا کھٹکا لگا ہوا ہو اور وہ اس سے بچنے کی فکر میں چوکنے ہوں۔‘‘ (سورۃ نحل 45) اسی سورۃ کی 76 ویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’اچھا تو کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ خدا کبھی خشکی پر ہی تم کو زمین میں دھنسا دے یا پھر پتھرائو کرنے والی آندھی تم پر بھیج دے اور تم اس سے بچانے والا کوئی حمایتی نہ پائو اور تمہیں اس کا اندیشہ نہیں کہ خدا پھر کسی وقت سمندر میں تم کو لے جائے اور تمہاری ناشکری کے بدلے تم پر سخت طوفانی ہوا بھیج کر تمہیں غرق کر دے اور تم کو ایسا کوئی نہ ملے جو اس سے تمہارے اس انجام کی پوچھ گچھ کر سکے۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل 68)
’’اور فکر اس دن کی ہونی چاہئے جبکہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو بالکل برہنہ پائو گے اور ہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیر کر جمع کریں گے کہ (اگلے پچھلے میں سے) ایک بھی نہ چھوٹے گا اور تیرا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے اور رحیم ہے وہ ان کے کرتوتوں پر انہیں پکڑنا چاہتا تو جلد ہی ان پر عذاب بھیج دیتا، مگر ان کے لیے وعدے کا ایک دن مقرر ہے اور اس سے بچ کر نکلنے کی یہ کوئی راہ نہ پائیں گے یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں۔ (سورۃ کہف، 58-47)
عذاب الٰہی کافروں کا حتمی انجام ہے اور یہی قانون قدرت ہے کہ ظالم کو ظلم کی سزا ملے۔ سورۃ اعراف 171 ویں آیت میں ارشاد ہوا۔ ’’کچھ یاد ہے ہم نے پہاڑ کو ہلا کر ان پر اس طرح چھا دیا تھا گویا وہ چھتری ہے اور یہ گمان کررہے تھے کہ وہ ان پر آن پڑے گا اور اس وقت ہم نے ان سے کہا تھا کہ جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں، اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو۔ توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے۔‘‘ سورۃ ہود میں اسی قانون قدرت اور خدا کے عذاب کا تذکرہ ان الفاظ میں ہوا۔ ’’اور تیرا رب جب کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے بڑی سخت اور دردناک۔‘‘
خدا کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بچنے کے لیے تقویٰ اختیار کرنا ضروری ہے۔ ’’تقویٰ کا مطلب خدا کی اطاعت اس کی دی ہوئی روشنی کے مطابق کرنا اور پھر اسی معبود حقیقی سے ثواب کی امید رکھنا اور اس کی معصیت اس کی دی ہوئی روشنی کے مطابق اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے ترک دینا ہے۔‘‘ متقی اور پرہیزگار خدا کے نزدیک وہی لوگ ہیں کہ جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو وہ فوراً خدا کا ذکر کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ یعنی جب ان سے کسی غلطی کا ارتکاب ہو جاتا ہے تو وہ فوراً توبہ اور استغفار کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ خدا کے سوا کوئی گناہوں کو معاف کرنے والا نہیں ہے اور باوجود علم رکھنے کے کسی برے کام پر انہیں ضد نہیں ہو جاتی۔ ہٹ دھرمی نہیں کرتے اور جب ان کے سامنے خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل تھرا جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پائوں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں، تمام کاموں کا انجام خدا کے اختیار میں ہے۔ (سورۃ حج۔ 41) یہی حق کے پیروکار، معزز اور اشراف ہیں۔ یہ مؤمن بندے خدا کی نافرمانیوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ ہر لمحہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہوئے ظلم سے بچتے ہیں۔‘‘
ہر لمحہ عافیت اور رحمت الٰہی کی توقع کرنا ضروری ہے۔ خدا کی پکڑ بہت سخت اور عذاب الٰہی اٹل ہے۔ اس کی قدرت کاملہ میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ظالموں کو ان کے انجام تک پہنچاتا ہے۔ خواہ انسان اپنے غرور و تکبر میں اس سے کتنا ہی بھاگے۔ خدا کی پکڑ اس کو اچانک انجام سے دوچار کر دیتی ہے۔اس سے ڈرنا، اس سے اپنے گناہوں کی توبہ کرنا اور سنت نبویؐ کی پیروی کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے، جو اپنے فرائض سے روگردانی کرتے ہیں، وہ ہمیشہ انجام بد سے آشنا ہوتے ہیں یہی قانون قدرت ہے۔
٭٭٭٭٭