مسعود ابدالی
مغرب میں اظہار رائے کی آزادی بڑی مقدس سمجھی جاتی ہے اور اس حق کے لئے وہ ہمیں اپنے پیارے نبیؐ کی شان میں گستاخی کو برداشت کرنے کی تلقین کرتے ہیں، لیکن اپنی برداشت کا یہ عالم کہ گزشتہ دنوں سی این این (CNN) نے ایک ممتاز دانشور، محقق، پروفیسر اور تبصرہ نگار ڈاکٹر مارک لمونٹ ہل (Marc Lamont Hill) کو اس بات پر نوکری سے نکال دیا کہ ڈاکٹر صاحب نے اقوام متحدہ سے اپنے خطاب میں فلسطینی ریاست کو 1967ء کے نقشے کے مطابق بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اقوام متحدہ نے گزشتہ ہفتہ دنیا بھر سے سول سوسائٹی کے رہنمائوں کو عالمی امور پر گفتگو کرنے کی دعوت دی تھی۔ جس میں ڈاکٹر لمونٹ ہل بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر صاحب جامعہ ٹیمپل (Temple University) فلاڈیلفیا میں Media Studies and Urban Education کے پروفیسر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف جامعات، بار کونسل اور مراکزِ دانش میں سیاسی امور پر لیکچر دیتے ہیں۔ انہیں سی این این CNN نے بطور سیاسی مبصر اپنے پینل پر ر کھا ہوا تھا۔
اقوام متحدہ سے اپنے خطاب میں ڈاکٹر لمونٹ نے کہا ’’ہمارے لئے ایک موقع ہے کہ ہم آزاد فلسطین کے لئے زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر سیاسی، عوامی اور بین الاقوامی سطح پر فلسطینیوں کو ان کا حق دلائیں، یعنی دریائے اردن سے بحر روم تک آزاد فلسطین۔ ہمیں امن کو ترجیح دینی چاہئے، لیکن اسے خود پر مسلط (Romanticize or Fetishize) کرنے کی ضروت نہیں۔ ہمیں ہر پر امن موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے، لیکن اصل ضرورت غلام بنائے گئے لوگوں کے حقوق کی بحالی ہے، جو ریاستی تشدد اور نسل کشی کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔‘‘
اسرائیل نے امریکی پروفیسر کی تقریر پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ From River to Sea, Palestine will be فلسطینی دہشت گردوں کا نعرہ ہے، جو اسرائیل ریاست کو تسلیم نہیں کرتے اور یہودیوں کو خلیج عقبہ میں غرق کرنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ امریکہ کی انتہا پسند یہودی تنظیموں نے سی این این اور ٹیمپل یونیورسٹی سے ڈاکٹر لمونٹ ہل کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق 1967ء کی جنگ سے پہلے کے سیاسی جغرافیے کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جو ساری مہذب دنیا کا مؤقف ہے۔
لیکن اس دور میں منطق، انصاف اور دلیل و برہان کا کوئی گزر نہیں۔ چنانچہ سی این این نے اعلان کیا ہے کہ وہ بطور سیاسی مبصر ڈاکٹر مارک لمونٹ ہل سے معاہدہ ختم کر رہا ہے۔ ٹیمپل یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ جامعہ اظہار رائے کی آزادی کی علمبرار ہے۔ چنانچہ تقریر کی بنا پر کسی ملازم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
دوسری جانب ٹرمپ کی سی این این سے کھلی جنگ چل رہی ہے۔ صدر ٹرمپ ہیں تو دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت کے منتخب نمائندے، لیکن ان کے سوچنے کا انداز تیسری دنیا کے آمروں جیسا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے مردان و زنان کو اپنے مخالفین، ریاست اور ملت کے مخالف نظر آتے ہیں اور بیچارے صحافی سب سے پہلے ان کا تختہ مشق بنتے ہیں۔ جناب ٹرمپ کا ہدف بھی امریکہ کا پریس ہے، جس کے خلاف وہ روزِ اول سے سنگ باری کر رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے انہوں نے وہائٹ ہائوس میں سی این این کا داخلہ بند کرنے کی کوشش کی، لیکن عدلیہ نے ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔ اب انہوں نے سی این این کے خلاف ایک نئی حکمت عملی کا اعلان کیا
ہے۔ اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے فرمایا:
امریکہ میں تو CNNریٹنگ کے اعتبار سے بہت زیادہ کامیاب نہیں، لیکن ساری دنیا میں CNN ایک توانا آواز ہے، جو امریکہ کے بارے میں جھوٹ پھیلا کر منفی تاثر پیدا کر رہا ہے۔ (اس کے سدِباب کیلئے) کچھ کرنا ضروری ہے۔ ہمیں (ابلاغ عامہ کے) ایک بین الاقوامی نیٹ ورک بنانے کے بارے میں سوچنا چاہئے تاکہ دنیا کو حقیقت سے آگاہ کیا جا سکے کہ ہم حقیقت میں کیا ہیں: عظیم (قوم)۔
معلوم نہیں اپنے نیٹ ورک سے ان کی مراد کیا ہے۔ ٹرمپ کارپوریشن کا نیٹ ورک، ریپبلکن پارٹی کا بین الاوقوامی ٹیلی ویژن یا وائس آف امریکہ (VOA) کا اپنی تشہیر کیلئے استعمال؟
سیاہ فاموں کا مقتل:
امریکہ میں فصل کی کٹائی پر اظہار تشکر کے طور پر نومبر کی چوتھی جمعرات کو Thanksgiving کا تہوار منایا جاتا ہے۔ تاجروں کیلئے Thanksgiving موسم گرما و بہار کا اختتام اور زمانہ کرسمس کا آغاز ہے۔ چنانچہ جمعہ کو کرسمس اور موسم سرما کے سامان کیلئے جگہ بنانے کی غرض سے موجود اسٹاک کو انتہائی پرکشش قیمتوں پر فروخت کیلئے پیش کیا جاتا ہے اور اسی مناسبت سے یہ جمعہ Black Friday کہلاتا ہے۔ اب چونکہ آن لائن خریدرای کا زمانہ ہے، اس لئے پیر کو Cyber Monday کے عنوان سے مزید رعایت پیش کی جاتی ہے۔ بہرحال یہ تو تھا اس دردناک واقعے کا پس منظر، جس کی تفصیل اگلی سطور میں۔
جمعرات کی شب دوسرے مقامات کی طرح امریکی ریاست الاباما Alabama کے ایک مال میں بھی خریدراوں کا رش تھا کہ اسی دوران دو افراد میں جھگڑا ہوگیا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کسی تحریر میں عرض کیا تھا کہ امریکہ میں شہریوں کے پاس موجود لائسنس یافتہ اسلحے کی تعداد امریکی کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے، لہٰذا زبانی جنگ فائرنگ میں تبدیل ہوگئی اور ایک بچے سمیت 2 افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ صدر دروازے پر تعینات پولیس کے دو افسران فائرنگ کی آواز سن کر اندر آئے اور ایک سیاہ فام حملہ آور کو گولی مارکر ہلاک کردیا۔ پولیس کی دلیری پر خوب واہ واہ ہوئی اور تمغوں کی بات ہونے لگی۔ دوسری طرف مارے جانے والے حملہ آور کی شناخت 21 سالہ EJ Bradford کے طور پر کر لی گئی اور اس کے دہشت گردوں سے ممکنہ رابطوں کی تحقیق شروع ہوئی۔ سیاہ فام ہونے کی بنا پر یہ امکان بھی کھنگھالا گیا کہ یہ نوجوان کہیں مسلمان تو نہیں۔
تاہم تحقیقات سے پتہ چلا کہ 21 سالہ بریڈ فورڈ امریکی فوج کا افسر ہے، جو تعطیلات پر گھر آیا ہوا تھا اور بلیک فرائیڈے کی خریدرای کیلئے موت اسے شاپنگ مال لے آئی۔ مزید تحقیقات پر معلوم ہوا کہ بریڈ فورڈ اپنا لائسنس یافتہ پستول نکال کر حملہ آور کا تعاقب کر رہا تھا کہ پولیس نے اس سے کچھ پوچھے بغیر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ جس معاشرے میں سیاہ فاموں کو دوسرے درجے کا
شہری اور جرائم پیشہ سمجھا جاتا ہو، وہاں موقع واردات پر ایک مسلح سیاہ فام کو دیکھتے ہی گولی مار دینا عام سی بات ہے۔ اب الاباما کی سیاہ فام برادری پولیس کے نسل پرست رویئے کی مذمت کر رہی ہے، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا۔ امریکی معاشرے میں سفید فام ’’بلڈی سویلین‘‘ Bloody Civilian بھی ایک سیاہ فام فوجی افسر سے افضل ہے۔
یہ صرف مقامی سیاہ فاموں کے ساتھ ہی نہیں ہورہا۔ بلکہ نسل پرست ٹرمپ کے دور حکومت میں دیگر نسل کے لوگوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اکتوبر 2001ء میں صدر بش نے دنیا کی سب سے مضبوط فوج کو غریب ترین ملک افغانستان فتح کرنے کیلئے بھیجا تھا اور اب 17 سال بعد اسی ریپبلکن پارٹی کے صدر ٹرمپ نے کیل کانٹے سے لیس مسلح افواج کو میکسیکو کی سرحد پر خانہ جنگی، کرپشن، بیروزگاری اور بھوک سے پریشان ہوکر امن و خوشحالی کی تلاش میں امریکہ کا رخ کرنے والے نہتے بلکہ بھوکے اور ننگے ہسپانیویوں کو روکنے کیلئے تعینات کر دیا ہے۔ کولمبیا، ونیزویلا، ہنڈوراس، پیرو، کوسٹا ریکا، ایلسلواڈور، نکاراگوا اور دوسرے لاطینی امریکہ کے پریشان حال، مواقع اور امکانات کی سرزمین ( Land of Opportunities) کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ یہ کئی ہزار میل پیدل چل کر میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر پہنچے ہیں۔ ان لٹے پٹے لوگوں کی خواہش ہے کہ انہیں امریکہ میں سیاسی پناہ دیدی جائے۔
رنگدار غیر ملکی تارکین وطن کے نام سے الرجک صدر ٹرمپ اس تصور ہی سے آگ بگولا ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایمیگریشن پولیس اور سرحدی رینجرز کے ساتھ مسلح افواج کو سرحدوں کی نگرانی کیلئے بھیج دیا۔ اس پر بھی دل ٹھنڈا نہ ہوا تو صدارتی حکم کے ذریعے امریکی مسلح افواج کو ان نہتے پناہ گزینوں کے خلاف ہلاکت خیز قوت یا Lethal Force استعمال کرنے کا اختیار بلکہ حکم دے دیا۔ امریکی صدر نے اس غیر انسانی رویئے کے حق میں عذرِ لنگ یہ تراشہ کہ پناہ گزینوں کے قافلوں میں سینکڑوں دہشت گرد اور مجرم پیشہ افراد بھی شامل ہیں، جس کی وجہ سے امریکہ کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ایک صدارتی حکم کے تحت میکسیکو اور امریکہ کی سرحد بھی بند کردی گئی، یعنی اب آدمی اور اسباب دونوں کی نقل و حرکت بند ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق اتوار کی دوپہر 500 پناہ گزینوں نے کیلی فورنیا کے سرحدی شہر سان ڈیاگو Diego San اور میکسیکو کے شہر Tijuana کے مقام سے امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے ننگے پیر خواتین اور بچوں کے خلاف آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔
کیا غضب ہے کہ امریکہ کے بانیوں نے نیویارک کے ساحل پر جو مجسمہ آزادی نصب کیا ہے، وہاں امریکی شاعرہ اور دانشور ایما لزارس (Emma Lazarus)کے یہ الفاظ ثبت ہیں:
’’اے اقوام عالم! مجھے اپنے خراب حال دے دو۔ آزادی کی سانس کے لئے ترستے ڈرے، سہمے، رنجیدہ و غمگین، بے گھر، ٹھکرائے و چوٹ کھائے اور مسترد کئے گئے لو گ یہاں آجائیں۔ دیکھو میں نے (تمہاری رہنمائی کیلئے آزادی کے) سنہرے دروازے پر مشعل روشن کر دی ہے۔‘‘
یہ امریکی ریاست کا کلیدی بیانیہ ہے، لیکن غریب ہسپانیویوں کو کون سمجھائے کہ امریکہ کے بانیوں نے سرحد پر جو مشعلِ آزادی روشن کی تھی، وہ اب روشنی کے بجائے غریب حالوں پر آنسو گیس اگلتی ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭