سرفروش

قسط نمبر: 191
عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
صبح ہونے پر میں جان بوجھ کر دیر سے بیدار ہوا اور جاگنے کے بعد بھی کافی دیر تک بستر میں دبکا رہا۔ مجھے باہر سے کسی قسم کی آواز سنائی نہ دی۔ پورا مسافر خانہ گویا شہر خموشاں کا سا منظر پیش کر رہا تھا۔ بالآخر میں نے اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے منہ دھویا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ مسافر خانے کے زیادہ تر کمروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور بند دکھائی دینے والے کمروں میں بھی مجھے زندگی کے کوئی آثار محسوس نہیں ہوئے۔
میں نے مسافر خانے کے دفتر کا رخ کیا تو وہاں دروازے پر تالا جڑا نظر آیا اور رندھیر کہیں دکھائی نہ دیا۔ مانک کے بتائے ہوئے وقت کے مطابق میں نے مسافر خانے کی گھڑی میں ٹھیک گیارہ بجتے ہی اپنی شاٹ گن اور باقی دونوں ہتھیار سنبھالے اور سیدھا اپنی جیپ میں آ بیٹھا۔ مقررہ مقام پر مجھے ظہیر کا زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ میری طرح وہ بھی ابھی تک خالی پیٹ تھا۔ ہم نے ایک ڈھابے پر ناشتہ کیا اور ناری نکیتن کی طرف چل پڑے۔
ظہیر اپنے معمول کے عین مطابق تمام راستے عقابی نظروں سے گاڑی کے اردگرد اور عقب میں کسی خطرے کی کھوج میں لگا رہا۔ منزل کے قریب پہنچنے پر میں نے شاٹ گن اور اپنا ریوالور اور پستول بھی ظہیر کو سونپ دیئے، کیونکہ مجھے پختہ یقین تھا کہ مجھے مسلح حالت میں عمارت کے اندرونی حصے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور میں ابتدائی مرحلے پر ہی اس حویلی کے کارندوں کو چوکنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں کسی جنگجو کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک بگڑے دل عیاش نوجوان کے روپ میں وہاں جارہا تھا۔
آخری موڑ مڑنے سے پہلے میں نے ظہیر کو ہتھیاروں سمیت جیپ کے پچھلے حصے میں بھیج دیا، جہاں سے اسے شفاف پلاسٹک سے ڈھکے روشن دان سے ناری نکیتن پر نظر رکھنی تھی اور کسی گڑبڑ کا احساس ہونے یا واپس لوٹنے میں غیر معمولی تاخیر ہونے پر حرکت میں آنا تھا۔
میں نے جیپ ناری نکیتن کے سامنے سڑک کے دوسری طرف کھڑی کی اور پُر اعتماد قدموں سے حویلی کی طرف بڑھا۔ بڑا پھاٹک اس وقت بھی بند نظر آرہا تھا، البتہ پہلو والا چھوٹا دروازہ میرے پہنچتے ہی کھل گیا اور بڑی بڑی مونچھوں اور لگ بھگ پانچ فٹ قد والے بھاری بھرکم گورکھے نے باہر جھانکا۔ شاید وہ کسی کونے کھدرے سے باہر کا جائزہ لیتا رہتا ہوگا، یا شاید جیپ کے رکنے کی آواز نے اسے متوجہ کیا ہوگا۔ اس نے مشکوک نظروں سے گھورتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی ہندی میں مجھ سے سوال کیا۔ ’’کون ہے؟ کیا کام ہے؟‘‘۔
میں نے پُراعتماد اور تحکم سے بھرپور لہجے میں کہا۔ ’’مانک کو کہو رائے تیغ بہادر سنگھ ساندھو آئے ہیں‘‘۔
میری بات سن کر وہ کچھ کسمسایا اور دو نالی شاٹ گن کو دائیں کاندھے سے اتار کر بائیں کاندھے پر لٹکاتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا نام بتایا؟‘‘۔
میں نے جھنجلاکر کہا۔ ’’تم مانک سنگھ کو کہو بہادر سنگھ آیا ہے۔ وہ میرا انتظار کر رہاہے‘‘۔
بالآخر اس نے پیچھے ہٹ کر مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ وہ ایک بڑا سا کمرا تھا، جو بیک وقت دفتر اور مہمان خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہوگا۔ گورکھے نے مجھے ایک سیٹھی پر بٹھایا اور خود اندرکی طرف جانے والے دروازے سے نکل گیا۔ وہ عقب میں دروازہ بند کرنا نہیں بھولا تھا۔
مجھے لگ بھگ پانچ منٹ انتظار کرنا پڑا۔ اس اضطراب بھرے وقفے کے دوران میں اپنی اضافی احتیاط پسندی کو کوستا رہا۔ مجھے کم ازکم ایک ریوالور تو ساتھ لانا چاہیے تھا۔ میں نے خود کو سرزنش کی کہ اگر یہاں کے لوگوں کی ہتھیار کی موجودگی پر اعتراض بھی کیا جاتا تو اسے ان کی تحویل میں دے کر مطمئن کیا جا سکتا تھا۔ ریوالور کی موجودگی میں کسی بھی بگڑتے معاملے کو سنبھالنا میرے لیے آسان ہوجاتا۔ لیکن اب تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔
بالآخر اندرونی دروازے کی کنڈی اتارے جانے کی آواز سنائی دی۔ اندر آنے والا پہلا شخص وہی گورکھا تھا، تاہم مانک بھی اس کے پیچھے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہوا۔ میں نے اس کے استقبال کے لیے نشست چھوڑ کر کھڑے ہونے کی زحمت نہیں کی ۔ وہ خود ہی میرے پاس آیا اور نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ ’’آپ خیریت سے تو ہیں ناں بہادر سنگھ جی؟ ناری نکیتن تلاش کرنے میں کوئی دشواری تو نہیں ہوئی ؟‘‘۔
میں نے اپنا لہجہ حتی الامکان بارعب بناتے ہوئے کہا۔ ’’ہمیں اپنی منزل تلاش کرنا بہت اچھی طرح آتا ہے مسٹر مانک۔ لیکن لگتا ہے تمہیں بات غور سے سننا اور سمجھنا نہیں آتا!‘‘۔ آخری الفاظ ادا کرتے ہوئے میرے لہجے میں طنز اور تنبیہ کی آمیزش ہوگئی تھی۔
میری بات سن کر وہ چونکا۔ ’’یہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں سردار جی؟ کیا اس گورکھے نے کوئی گستاخی کر دی؟‘‘۔
میں نے سرد لہجے میں کہا۔ ’’اگر یہ کوئی گستاخی کرتا تو میں اس کی بندوق چھین کر اسی کی کھوپڑی اڑا دیتا، اور اس کی موت کے ذمہ دار تم ہوتے‘‘۔
گورکھا ہندی زبان میں خواہ کتنا بھی کورا ہوتا، اپنے بارے میں میری توہین، بلکہ تضحیک سے بھرپور گفتگو کا لب لباب سمجھنا اس کے لیے کچھ زیادہ مشکل نہیں تھا۔ میں نے اس کے چہرے کے نقوش مسخ ہوتے دیکھے، لیکن میرے الفاظ سنتے ہی مانک کی نظریں اس کے بدلتے تاثرات پر جم گئی تھیں۔ اس نے اس کی مشتعل جذباتی کیفیت بھانپتے ہوئے اسے اس کی کوٹھری میں جاکر باہر کے ماحول کا جائزہ لینے کا حکم دیا۔ وہ مجھے گھورتا ہوا خاموشی سے اندرونی دروازے سے نکل گیا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment