امت رپورٹ
ملک خوفناک معاشی بحران کی زد میں ہے اور وزیر اعظم بہتری کی ڈفلی بجا رہے ہیں۔ بے خبر نیرو کا جدید ورژن۔ حالت یہ ہے کہ ایف بی آر نے غیر اعلانیہ کام چھوڑ رکھا ہے اور اس کے افسران کہتے ہیں کہ حکومت اب ٹیکسوں کا ہدف پورا کرکے دکھا دے۔ ملک بھر میں اقتصادی سرگرمیوں کو جاری رکھنے والا سرمایہ غائب ہو چکا ہے۔ اس سرمائے کا بہت بڑا حصہ گرے اور بلیک اکنامی سے آتا تھا، لیکن یہی سرمایہ قومی معیشت کو سہارا دینے والا سب سے بڑا ستون تھا۔ عجلت میں لئے گئے اقدامات نے وائٹ اکنامی کے بھی پرخچے اڑا دیئے ہیں اور انکم ٹیکس دینے والے بھی اس عذاب کی گرفت میں ہیں۔ مثلاً ملک بھر میں چودہ لاکھ کے قریب ٹیکس دینے والے لوگ ہیں۔ ان میں سے دس لاکھ کے قریب لوگوں کو ان کے ٹیکس آڈٹ کے لیٹر جاری کر دیئے گئے ہیں۔ مطلب جو قانون کا احترام کرکے ٹیکس دے، اسے آخری بوند تک نچوڑا جائے۔ قطع نظر اس بات سے کہ ایف بی آر ایک ملین سے زائد نوٹسز کے جوابات پڑھنے اور ان پر فیصلے دینے کیلئے ضروری عملہ اور تیکنیکی مہارت رکھتا ہے یا نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان ٹیکس گزاروں کے کاروباری اوقات کا نصف اب انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اور انکم ٹیکس آڈٹ کے دفاتر کا چکر لگاتے ہوئے گزرے گا، جہاں پہلے سے جوڑ توڑ کے بادشاہ بیٹھے ہیں اور نیچے سے اوپر تک سب نے چھریاں تیز کر لی ہیں، پھر وہ غیر اعلانیہ ہڑتال پر کیوں ہیں؟ اس لئے کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹیکس آڈٹ کا شعبہ ایف بی آر سے علیحدہ کرکے ایک آزاد محکمہ بنا دیا جائے، جس میں ایف بی آر سے باہر کے لوگ بھرتی کئے جائیں۔ ایف بی آر کا کام صرف اتنا ہوگا کہ وہ جن ٹیکس گزاروں کا آڈٹ ضروری سمجھتا ہے، ان کا کیس نئے محکمے کو بھیج دے۔ پھر روڈ جانے اور فورڈ جانے۔ ٹیکس گزار جانے اور نیا محکمہ جانے۔ ایف بی آر کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اب لوچا یہ ہے کہ ایف بی آر اور انکم ٹیکس کی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ ٹیکس آڈٹ سے آتا ہے۔ اسی سے سرکاری ریونیو کا ہدف بھی پورا ہوتا ہے اور متعلقہ افسران کی ضروریات بھی۔ اب سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ایف بی آر سے چھین لی گئی تو اس کا کام ہی کیا رہ جائے گا؟ محض ایک آفس کلرک کا، جو ٹیکس ریٹرن وصول کرے اور چیک کرکے الماری میں ڈال دے۔ کھانے پینے کی ساری موجیں تو آڈٹ محکمے کے پاس چلی جائیں گی اور ایف بی آر دفاتر کے باہر آلو چھولے والے ٹھیلے بھی نئے محکمے کے باہر کھڑے ہو جائیں گے۔ سو اس بات پر چراغ پا ایف بی آر کے افسران نے ایک طرح سے قلم چھوڑ ہڑتال کر رکھی ہے۔ جواب میں حکومت ایف بی آر کے پانچ میں سے چار ممبرز کا تبادلہ کر دیا ہے اور سربراہ کے بارے میں بھی خبریں چل رہی ہیں۔ خیر آمدم برسر مطلب۔ اصل بات یہ ہے کہ ضیاء الحق کے زمانے سے تب کے بڑوں نے پاکستان میں دو معاشی نظام تخلیق کر لئے تھے۔ ایک سفید یعنی وائٹ اکنامی سسٹم، جو پہلے سے چلا آرہا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس سے اتنے ٹیکسز نہیں مل رہے تھے کہ حکومت کے اخراجات بھی پورے ہو سکیں، صوبوں کو حصہ بھی دیا جائے، قرضے کی قسطیں بھی دی جائیں، ترقیاتی منصوبے بھی چلائے جائیں اور افغانستان میں شروع ہونے والی صدی کی سب سے بڑی تحریک مزاحمت یعنی افغان جہاد کو جاری رکھنے کیلئے ناگزیر سرمایہ بھی میسر ہو۔ چنانچہ بڑوں کے اتفاق سے ایک متبادل اکنامک سسٹم تخلیق کیا گیا، جسے گرے یا بلیک اکنامی کا نام دیا گیا۔ اس سسٹم کے تین مقاصد تھے۔ ایک تو یہ کہ افغان جہاد کی ضروریات پوری کی جائیں۔ دوسرا یہ کہ عوامی معیشت کے لیے درکار سرمائے کا بوجھ حکومت سے کم کیا جائے اور تیسرے یہ کہ امریکہ اگر دھوکہ دے دے اور افغان جہاد کی امداد روک لے تو جہاد کے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں سرمائے کی کمی کوئی رکاوٹ نہ بنے۔ یہ واضح رہے کہ تب بلیک اکنامی میں کرپشن کا پیسہ شامل نہ تھا، یا یوں کہہ لیں کہ آٹے میں نمک کے برابر تھا۔ اصل پیسہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی حکومتوں اور امیر ترین شخصیات کی جانب سے افغان مجاہدین کو دیئے جانے والے وہ کروڑوں ڈالر کے عطیات تھے، جن سے مجاہدین اپنی ضرورت کا سامان پاکستان کے نجی شعبے سے خریدتے تھے۔ مثلاً دوائیں، جوتے، آٹا، چاول، دالیں، مویشی، ڈیزل، پیٹرول، گاڑیاں، کپڑے اور ایسی ہی بے شمار چیزیں جو جہاد کیلئے بہت ضروری تھیں۔
یہ کیش پیسہ ہوتا تھا اور براہ راست نجی شعبے کو منتقل ہوجاتا تھا۔ بلیک اکنامی کا دوسرا ذریعہ بیرون ملک کام کرنے والے وہ خوشحال افغان باشندے تھے، جو اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ حوالے کے ذریعے پاکستان بھیجتے تھے، کیونکہ ان کے گھر والے پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں پڑے تھے، یا مختلف شہروں میں آباد ہوگئے تھے۔ ان خاندانوں کے ہزاروں نوجوان مشرق وسطیٰ، یورپ خاص طور پر جرمنی، بلجیم اور امریکہ میں جا بسے تھے اور وہاں محنت کرکے اچھے خاصے پیسے کما رہے تھے۔ مہاجرین کے یہ بچے نہ صرف اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے تھے، بلکہ مجاہدین تنظیموں کو چندے بھی دیتے ہیں۔ ان بچوں کے بھیجے گئے پیسے پاکستانی اکنامی کا حصہ بن کر اسے توانا کر رہے تھے۔ آمدنی کا ایک اور ذریعہ چالیس سے زائد ملکوں میں پھیلے افغان مجاہدین تنظیموں کے دفاتر تھے، جو مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکہ تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان دفاتر کا سب سے بڑا کام وہاں کے اعلیٰ حکام سے رابطہ رکھنا، انہیں جہاد کے تازہ ترین حالات سے باخبر کرنا، وہاں مقیم مہاجرین کے مسائل حل کرنا اور سرکاری اور غیر سرکاری مخیر حلقوں سے چندہ جمع کرکے پاکستان میں قائم مجاہدین تنظیموں کے ہیڈ کوارٹرز کو بھیجنا تھا۔ بسا اوقات یہ رقوم سالانہ سو ملین ڈالر پہنچ جاتی تھیں۔ بلیک اکنامی کا ایک اور ذریعہ ان ہتھیاروں کی فروخت سے آتا تھا، جو مجاہدین روسیوں سے چھینے تھے۔ ان میں انفنٹری سے لے کر آرٹلری تک اور آرمرڈ سے لے کر ٹرانسپورٹ اور سپلائی تک کے ہتھیار، ایمونیشن، ٹرکس، جیپیں اور دیگر ٹرانسپورٹ شامل تھی۔ اسی طرح مار گرائے جانے والے روسی جنگی ہیلی کاپٹر MI-24 ہائنڈ ڈی کے پرزے، آرمرڈ پلیٹیں اور کاک پٹ بھی شامل تھے۔ روسی ہتھیاروں کے خریداروں میں پاکستان کے علاوہ امریکہ اور یورپی ممالک بھی شامل تھے۔ بلیک اکنامی میں ہیروئن کا پیسہ سب سے پہلے حاجی ایوب آفریدی کے توسط سے داخل ہوا، جو پاکستان میں ہیروئن کا سب سے بڑا سمگلر تھا اور خیبر ایجنسی کا رہنے والا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے کاروباری شراکت داروں میں اس وقت کے بعض بڑے بھی شامل تھے، جن میں صوبہ سرحد کے گورنر اور ضیاء الحق کے قریبی ساتھی جنرل فضل حق کا نام سب سے اوپر تھا۔ ہو سکتا ہے فضل حق اس کے کاروباری شراکت دار نہ ہوں، لیکن یہ تو طے تھا کہ ایوب آفریدی کو ان کی سرپرستی ضرور حاصل تھی۔ ایوب آفریدی کی کمائی کا ایک بڑا حصہ بلیک اکنامی میں شامل ہونے کا آغاز اس وقت ہوا، جب افغان جہاد اپنے آخری برسوں میں داخل ہوچکا تھا۔ یعنی 1985ء کے لگ بھگ۔ تب تک مجاہدین تنظیموں کی فتح کے واضح آثار نظر آنے شروع ہوگئے تھے۔ ہیروئن کے اس پیسے سے عوامی معیشت کا پہیہ تیز تو ہوا، لیکن اس نے کرپشن کے پیسے کا راستہ بھی کھول دیا۔ یہ پیسہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور سے بلیک اکنامی کا حصہ بنتا شروع ہوا اور پھر اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ حکومت کے پاس اتنے فنڈز نہیں تھے کہ وہ عوامی ضروریات کو پورا کر سکے، اس لئے متبادل غیر سرکاری معاشی نظام اپنے پوری طاقت سے چلتا رہا اور اس نے سرکاری معاشی نظام کے مقابلے میں اپنا حجم، طاقت اور اثر کئی گنا بڑھا لیا۔ ضیاء الحق کے دور میں اگرچہ یہ نظام بھی ان دیکھے سرکاری کنٹرول میں تھا، لیکن ان کے بعد یہ کنٹرول سے باہر ہوگیا۔ آنے والی تمام حکومتیں اس سے واقف تھیں، لیکن انہوں نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ ہے کہ ملک کی اقتصادی حالت کمزور تھی اور بلیک اکنامی ہی عوامی ضروریات پوری کرکے معیشت کلا پہیہ چلا رہی تھی۔ اب اگر اسے بند کر دیا جاتا یا اس پر گرفت کی جاتی تو یہ سارا پیسہ ملک سے باہر چلا جاتا یا منجمد ہو جاتا اور معیشت بیٹھ جاتی۔ بلیک اکنامی کے اس متبادل نظام سے مغربی طاقتیں اور عالمی مالیاتی ادارے بھی خوب واقف تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پاکستانی معیشت کی اصل طاقت یہی نظام ہے، اس لئے پاکستان کا بازو جتنا بھی مروڑا جائے، اس کی معاشی حالت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ متبادل معاشی نظام کام چلا رہا ہے اور وہ سرکاری کنٹرول سے باہر ہے۔ پاکستان کو ناکوں چنے چبوانے کیلئے عالمی مالیاتی ادارے خاص طور پر اس نظام کے خلاف صف آرا تھے۔ ان کا مقصد پاکستان کو ایک شفاف اقتصادی نظام دینا نہیں تھا، بلکہ معیشت کے ٹخنے توڑنا تھا، تاکہ پاکستان مجبور ہو کر ان کے مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ ہو جائے۔ اس لئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے قرضہ دینے سے پہلے ہمیشہ ایسے مطالبات رکھے، جن کا ہدف بلیک اکنامی تھی۔ پہلے کی تمام حکومتیں اس چال کو اچھی طرح سمجھتی ہیں، لیکن عمران خان کی حکومت پہلی بار اس عالمی چال میں پھنسی ہے اور کرپشن دور کرنے کے نام پر اس نے بلیک اور گرے اکنامی کے اسکرو کسنے شروع کر دیئے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ہر طرح کی مارکیٹ بیٹھ گئی، ڈالر آسمان پر چلا گیا، مہنگائی کا طوفان آگیا، سرمایہ کار غائب ہوگئے، خریدار چھپ کر بیٹھ گئے اور ملک شدید مندی کی لپیٹ میں آگیا۔ بات یہ ہے کہ کرپشن کے حق میں بات کرنے والا کوئی نہیں۔ ہونا بھی نہیں چاہیے اور کرپشن کے خلاف پوری طاقت سے صف آرا بھی ہونا چاہیے، لیکن اس سے لڑنے میں حکمت اور دانائی کی جتنی ضرورت ہے، طاقت کی نہیں۔ حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے نہایت بھونڈے اور نتائج نہ دینے والے اقدامات کا سہارا لیا گیا، جس سے سفید اکنامی کو بھی نقصان پہنچا، حالانکہ سب سے پہلے ضرورت یہ تھی کہ بلیک اکنامی کا پیسہ حکمت اور نرمی کے ساتھ وائٹ اکنامی میں شامل کیا جائے، تاکہ وائٹ اکنامی کو طاقت ملے اور وہ چل سکے۔ ایک بار وائٹ اکنامی کھڑی ہو جاتی تو بلیک اکنامی پر سخت ہاتھ ڈالنا آسان ہو جاتا، لیکن ہوا یہ کہ وائٹ اکنامی کیلئے عالمی قرضوں سے مدد لینے کی کوشش کی گئی اور بلیک اکنامی کو ڈرا دھمکا کر سارا پیسہ چھپانے یا منجمد کرنے پر مجبور کر دیا۔ بلیک سے وائٹ بنانے کا سب سے کامیاب تجربہ ضیاء الحق کے زمانے میں کیا گیا۔ اس وقت کے وزیر خرانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے فارن ایکسچینج بیئرر سرٹیفکیٹ جیسی کئی کامیاب اسکیمیں متعارف کرائیں اور ان کی مدد سے کئی ارب ڈالر پاکستان کے خزانے میں جمع کئے۔ ایف ای بی سی ایسے سرٹیفکیٹ تھے جو ملک کے اندر اور باہر کوئی بھی ڈالر میں خرید سکتا تھا۔ خریدنے والے سے کچھ نہیں پوچھا جاتا تھا۔ نام، شناخت، ذریعہ آمدنی، رہائش، کچھ بھی نہیں۔ ان سرٹیفکیٹ پر حکومت سالانہ چودہ فیصد منافع دیتی تھی اور ہر بینک ان کی فروخت اور خریداری کا مجاز تھا۔ یہ اپنے وقت کی کامیاب ترین اسکیم تھی۔ شاید اب تک جاری ہے۔ محبوب الحق کا کہنا تھا کہ بلیک منی کو وائٹ کرنے کا موقع ہر ایک کو ملنا چاہیے۔ کیونکہ یہ پیسہ اصل میں وائٹ اکنامی کا ہی ہے، جو چور راستے سے فرار ہو کر بلیک اکنامی میں چلا گیا ہے۔ اس لئے اسے واپسی کا راستہ دے کر ہم درحقیقت وائٹ اکنامی کو اس کا پیسہ اور طاقت لوٹا رہے ہیں۔ آج عمران خان کرپشن کے خلاف لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں، لیکن انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پہلے بلیک منی کو وائٹ ایریا میں لانے کیلئے ایسی ترغیبات دیتے، جس سے پیسہ خود بخود واپس آنے لگتا۔ اس کیلئے بلیک منی ہولڈر کا اعتماد حاصل کرنا ضروری تھا۔ اسے یہ بتانا تھا کہ پاکستان ان کی سرمایہ کاری کیلئے بہترین، محفوظ اور منافع بخش جگہ ہے۔ آپ دیکھیں برطانیہ، سوئٹزر لینڈ اور دبئی میں ساری دنیا کا بلیک پیسہ کیوں جمع ہوا؟ کیونکہ یہ ملک اس پیسے کو تحفظ دیتے ہیں۔ دوسروں کی بلیک منی سے یہ ملک بن گئے ہیں، جبکہ اب بلیک منی کا رخ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کی طرف ہے۔ ہزاروں پاکستانی اور دیگر ملکوں کے باشندے وہاں بلیک منی لاکر انوسٹ کر رہے ہیں، کیونکہ قوانین نرم ہیں، حکومت مدد کرتی ہے اور بینک تعاون کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وہ ملک تو دوسرے ممالک کا بلیک منی اپنے ہاں لانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے تحفظ دیتے ہیں۔ ہم کیا اپنے ہی ملک کا بلیک منی واپس لانے کیلئے کوئی اسکیم نہیں دے سکتے؟ ایک بار بلیک منی وائٹ اکنامی میں شامل ہونے کا سلسلہ شروع ہو جائے اور بلیک منی ہولڈر کا اعتماد بحال ہو جائے تو ملک میں ڈالروں کی ریل پہل ہو سکتی ہے۔ پھر وائٹ اکنامی تگڑی ہو جائے تو آپ بلیک اکنامی پر سخت ہاتھ ڈالنے کی تیاری کرکے اس کا گھیراؤ کر سکتے ہیں، لیکن آپ نے تو پہلے ہی اسے ہشکار دیا۔ یوں بلیک کے ساتھ ساتھ وائٹ اکنامی کا پیسہ بھی ڈر کر زیر زمین چلا گیا۔ ٭