وزیراعظم عمران خان نے پیر کو ٹی وی اینکرز اور سینئر صحافیوں سے ملاقات کے دوران کہا کہ ملک میں قبل ازوقت (وسط مدتی) انتخابات ہو سکتے ہیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ اگر جنوبی پنجاب الگ صوبہ بنتا ہے تو کیا وسطی پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو جائے گی؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ ہو سکتا ہے یہ مرحلہ آنے سے پہلے ہی الیکشن ہو جائے۔ ملک میں حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے سے پہلے انتخابات کے اشارے اور کابینہ میں دس روز کے اندر تبدیلی کے امکان پر وزیراعظم کے بیان سے وفاقی کابینہ میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ کابینہ کے جو ارکان اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے، ان کی پریشانی تو بجا اور متوقع ہے، لیکن جو وزیر اور مشیر وزیراعظم عمران خان کے چہیتے اور مرضی کے مطابق اپنی وزارتیں چلا رہے ہیں، ان میں بھی بے چینی پیدا ہونے لگی ہے۔ اس صورت حال میں سیاسی مبصرین کو یہ فکر لاحق ہوگئی ہے سو دنوں سے زیادہ حکومت کرنے والی تحریک انصاف کا ملک و قوم کے مفاد میں کوئی ایک فیصلہ بھی اب تک سامنے نہیں آسکا ہے تو کابینہ میں تبدیلی کے حوالے سے پھیلنے والی مایوسی کے نتیجے میں عمران خان کے قریبی وزیر اور مشیر پوری دل جمعی کے ساتھ کام نہ کر سکیں گے، جس سے حکومت کی کارکردگی مزید متاثر ہوگی۔ ٹی وی چینلز کے اینکرز اور سینئر صحافیوں سے وزیراعظم کی ملاقات میں اس امر کی کوئی یقین دہانی اور متعینہ مدت سامنے نہیں آئی کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور اشتہاری ایجنسیوں نے قومی اخبارات کے جو اربوں روپے کے واجبات روک رکھے ہیں اور جس کی بنا پر ہزاروں صحافی ملازمتوں اور تنخواہوں سے محروم ہو چکے ہیں تو اس سلسلے میں کیا فیصلہ کن گفتگو ہوئی اور اس اہم مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے میں وزیراعظم عمران خان نے کیا وعدہ کیا تاکہ اخباری کارکنوں کے اہل و عیال فاقوں سے نجات پاسکیں۔ اگر اس سلسلے میں کوئی قابل اطمینان بات چیت نہیں ہوئی تو وزیراعظم سے ملاقات کا اہم موقع ضائع ہو گیا۔ یہ ایک جانب ملاقات کرنے والے افراد کی ناکامی ہے تو دوسری جانب غریب صحافیوں کے خاندانوں کو مشکلات سے بچانے میں وزیراعظم کی عدم دلچسپی اور لاتعلقی کا اظہار۔ اس سے حکومت اور عامل صحافیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران کا وسط مدتی انتخابات کا اشارہ اگرچہ واضح نہیں، مبہم تھا لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ عمران خان کو اپنی حکومت کی مایوس کن کارکردگی کا اندازہ ہو چکا ہے۔ وہ بخوبی جان گئے ہیں کہ عوام ان کے فیصلوں اور اقدامات سے خوش تو کیا، مطمئن بھی نہیں ہیں۔ کم و بیش ساڑھے تین ماہ کی مدت میں ملک میں کرنسی سمیت انہیں ہر شعبے میں گراوٹ اور زوال ہی زوال نظر آتا ہے۔ انتخابات سے قبل پلک جھپکنے میں تبدیلی کا دعویٰ کرنے والے وزیراعظم عمران خان اب کہتے ہیں کہ سو روز میں تو ایک پل بھی نہیں بنتا، صرف حکومت کی سمت طے ہوتی ہے۔ عوام کا اصل رونا یہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اس عرصے میں سمت کا تعین بھی نہیں کر سکی۔ پارٹی کے سربراہ جو خیر سے ملک کے وزیراعظم کا منصب بھی سنبھال چکے ہیں، کسی سمت کا تعین کرنے کے بجائے اب بھی یہی رٹ لگا رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی لیڈر ایسا نہیں آیا جس نے مقصد تک پہنچنے کے لیے یوٹرن نہ لیا ہو۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ مقصد پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوتا۔ عمران خان نے کسی ایک مقصد کو سامنے رکھ کر ایک مرتبہ یوٹرن لیا ہوتا تو شاید وہ قابل قبول ہوتا، لیکن ان کے قدم قدم پر یوٹرن لینے کی وجہ سے تو ایک بل کھاتی ہوئی (زگ زیگ) لکیر بن گئی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ موصوف کی کوئی سمت ہے، نہ کوئی واضح مقصد۔
یہ کہنا بھی غلط ہے کہ دنیا کے ہر لیڈر نے مقصد کے تحت یوٹرن لیا۔ عمران خان نے اپنی حکومت کا خود جو مقصد بیان کیا، وہ یہ تھا کہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنایا جائے گا۔ علاوہ ازیں وہ قائداعظم محمد علی جناح کے نقش قدم پر چلنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ مدینہ منورہ کی ریاست جس مقدس ہستی یعنی نبی اکرمؐ کے پاک ہاتھوں سے قائم ہوئی، ان کی ساری زندگی احکام خداوندی اور وحی الٰہی کے تابع تھی، جس کا رخ اور سمت ایک ہی تھی، یعنی صراط مستقیم۔ اس میں حضورؐ نے کوئی یوٹرن لیا، نہ اس کی کبھی ضرورت پیش آئی۔ اب جو شخص پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ کرے اور یوٹرن لینے کو اپنی پالیسی کا بنیادی جز قرار دے کر راست گو اور راست رو رہنمائوں کو بھی یوٹرن لینے والوں میں شمار کرے تو اس کی بصارت پر شک کیا جائے یا اس کی بصیرت کا ماتم کیا جائے؟ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی فکری و عملی سلامت روی کی ساری دنیا معترف و مداح ہے۔ وزیراعظم عمران خان انہیں بھی یوٹرن لینے والوں کی صف میں شامل کرکے ایک عظیم رہنما کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے، البتہ خود اپنی کج روی کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ حل ہوئے بغیر بھارت کے ساتھ تجارتی پینگیں بڑھانے کا نقصان بھی کئی رخوں سے پاکستان ہی کو ہوگا۔ وزیراعظم کے اس بیان کو فکر و فہم اور دانشمندی کا مظہر قرار نہیں دیا جاسکتا کہ دونوں ممالک چاہیں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ عمران خان کو اگر خود نہیں معلوم تو شاہ محمود قریشی جیسا کوئی جہاندیدہ سیاستدان انہیں بتا دے کہ اول تو یہ دونوں ممالک یعنی پاکستان اور بھارت کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کے اصل فریق کشمیری باشندے ہیں، جن کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں یہ فیصلہ دے چکی ہیں کہ ان کی آزاد مرضی سے مسئلہ کشمیر حل ہونا چاہئے۔ دوم یہ کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا، بلکہ اگر بھارت کبھی مذاکرات کی میز پر آیا بھی تو اس کی ہی رٹ برقرار رہی کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور اس کے کسی حصے پر پاکستان کا حق تسلیم نہیں کیا جاسکتا، جبکہ پاکستان کا ہمیشہ سے ایک ہی مؤقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے طے ہونا چاہئے۔ دوطرفہ مذاکرات فی الواقع کسی مسئلے کو حل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، لیکن تحریک انصاف میں عقل و دانش رکھنے والا کوئی رہنما یا کارکن اپنے لیڈر کے علم میں اضافہ کرتے ہوئے انہیں آگاہ کرے کہ ’’دوطرفہ‘‘ میں سے ایک طرف یعنی پاکستان بھی یہی چاہتا ہے، لیکن دوسری طرف یعنی بھارت نہیں چاہتا تو وزیراعظم عمران خان اسے کیسے آمادہ کریں گے؟ ڈالر کی قیمت میں دو بار اضافے اور پاکستانی کرنسی کی بے قدری سے وزیراعظم کی لاعلمی پر انہیں داد دی جائے۔ اسٹیٹ بینک سے شکایت کی جائے یا فواد چوہدری کو توجہ دلائی جائے کہ وہ پل پل میں قوم کو تو نت نئی خبریں اور اعلانات سناتے رہے ہیں، کبھی اپنے لیڈر کے علم میں اضافہ کرنے پر بھی توجہ دے لیا کریں۔