’’بھئی! آپ سے مل کر سچ میں خوشی ہوئی، کم از کم کوئی تو ملا، جس کے ساتھ سلیقے سے کافی پی جا سکتی ہے، یہاں پر تو لوگوں کو کافی کی تمیز ہی نہیں، بلکہ تمیز تو تب ہوگی جب انہیں کافی کا پتہ ہوگا، انہیں پتہ ہی نہیں، یہ کیا نعمت ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے برقی کیتلی سے کافی مگ میں بھاپ اڑاتا کھولتا پانی ڈالتے ہوئے شیلف میں سجی کافی کی چھوٹی بڑی ڈیڑھ درجن بوتلوں میں سے ایک بوتل اٹھالی اور سیلانی سے پوچھنے لگے ’’کبھی ایتھوپین کافی ٹیسٹ کی ہے؟‘‘
ظاہر ہے سیلانی کا جواب نفی میں ہونا تھا۔
’’اچھا آسٹریلیا کی flat white پینے کا اتفاق ہوا؟‘‘
اس بار بھی سیلانی کا جواب نفی میں ہی تھا ’’کوئی بات نہیں، یہاں آتے جاتے رہو گے، تو سب ٹیسٹ کر لینا، میں یہ تو نہیں کہتا کہ میرے پاس دنیا کا بہترین کافی کلیکشن ہے، لیکن جو اسٹاک میرے پاس ہے، اسلام آباد میں کسی دوسرے کے پاس نہیں ہوگا۔‘‘
’’جی وہ تو مجھے اندازہ ہو گیا۔‘‘ سیلانی نے ان کے کمرے میں شیلف پر سجی کافی کی شیشیوں، بوتلوں، جاروں کی جانب تکتے ہوئے ستائشی لہجے میں کہا۔ جواب میں ڈاکٹر صاحب یوں خوش ہوئے جیسے کوئی مالی باغیچے کی تعریف پر کھل اٹھتا ہے۔ وہ بتانے لگے ’’تم چار دن پہلے آتے تو میں black ivory پلاتا، اس کا کمال کا اپنا ہی ٹیسٹ ہے، دنیا کی مہنگی ترین کافی ہے، یہاں تو شاید کہیں نہیں ملتی، باہر بھی اس کا کپ پچاس پاؤنڈ سے کم کا نہیں۔‘‘
’’پپ پچاس پاؤنڈ… یعنی کہ 8900 روپے کا ایک کپ؟‘‘ سیلانی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’جی پاکستانی کرنسی میں اتنے کا ہی پڑے گا اور میرا خیال ہے کہ اس نالائق حکومت کے ہاتھوں جس تیزی سے روپیہ کی قدر کم ہو رہی ہے، اس حساب سے ہم جب دوبارہ مل رہے ہوں گے تو اس ایک کپ کی قیمت بارہ ہزار روپے ہو چکی ہوگی۔‘‘
’’سر! مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ کافی اتنی مہنگی بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ارے بھئی، اس پر لاگت بھی تو بہت آتی ہے، ہاتھی پالنے پڑتے ہیں، خاص قسم کی کافی کے بیج کھلائے جاتے ہیں، یہ بیج اس کے پیٹ میں پندرہ سے ستر گھنٹے تک رہتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے کافی کا مگ سیلانی کی طرف بڑھا دیا اور اپنی بات ادھوری چھوڑ کر سیلانی کا تجسس نظر انداز کرتے ہوئے کہنے لگے ’’کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ کپتان کے ٹیلی ویژن پر آنا بند کر دیا جائے؟‘‘
’’میں سمجھا نہیں سر۔‘‘ سیلانی واقعی الجھ گیا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کافی کیلئے ہاتھیوں کی ضرورت کہاں سے پڑ گئی؟ پھر ضرورت پڑ ہی گئی تو انہیں کافی کے بیج کھلانے کی ضرورت کیوں ہونے لگی۔ وہ اسی الجھن میںتھا تو ڈاکٹر صاحب وزیر اعظم پر آگئے۔ اب سیلانی کیا خاک سمجھتا، اس نے یہی تو کہنا تھا، سیلانی کی بات ڈاکٹر صاحب کو ناگوار لگ گئی تو کہنے لگے ’’میں نے اسپینش میں تو نہیں کہا، اردو میں کہا ہے کہ کپتان کو میڈیا سے دور رہنا چاہئے۔‘‘
’’جی، جی، دراصل وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا فطری اسٹائل ہے۔‘‘
’’صحیح کہتے ہیں، احمقانہ گفتگو کا فطری اسٹائل۔‘‘ ڈاکٹر انصر نے کافی کا مگ ہونٹوں سے لگا لیا۔ وہ عجیب شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی کسی یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشن میں ایم اے کر رکھا ہے۔ مسلم دنیا کے باہمی تنازعات پر پی ایچ ڈی کر رہے تھے کہ ان کا یونیورسٹی کے پروفیسر سے جھگڑا ہو گیا۔ پروفیسر نے نسلی تعصب کا کوئی جملہ کسا اور انہوں نے مکا جڑ دیا، جس کے بعد انہیں نہایت عزت سے نکال دیا گیا۔ اپنی گرفتاری اور ڈی پورٹ ہونے
کا قصہ خود مزے لے لے کر سناتے ہیں۔ بعد میں انہوں نے جرمنی سے پی ایچ ڈی کیا تھا۔ سیلانی سے ان کی ملاقات ایک محفل میں ہوئی تھی۔ سیلانی کو بلیک کافی پیتے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور اس کی پشت تھپتھپاتے ہوئے اپنے گھر آکر کافی پینے کی دعوت دے ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا کی شاید ہی کوئی کافی کا برانڈ ایسا ہو، جو انہوں نے نہ چکھ رکھا ہو۔ تیسرے دن سیلانی ان کے گھر پہنچ گیا۔ وہ اسلام آباد کے ایک متمول علاقے میں مجرد زندگی گزار رہے ہیں، بلکہ مجرد زندگی کے تھوڑے سے دن یہاں گزارتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت ملک سے باہر گزرتا ہے۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کا ملازم نیاز حسین اس بڑے سے گھر کی اس طرح دیکھ بھال کرتا ہے کہ اسے ڈاکٹر صاحب کی خواب گاہ اور کمرئہ مطالعہ میں داخل ہونے اور صفائی ستھرائی کی بالکل بھی اجازت نہیں۔
’’یہ دو کمرے میرے سامنے کھلتے اور بند ہوتے ہیں۔ میں نے نیاز حسین سے کہہ رکھا ہے اگر خدا نخواستہ آگ لگ جائے تو اسے ان کمروں میں آنے کی اجازت ہے، ورنہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
سیلانی نے کافی کی چسکی لیتے ہوئے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا اور ڈاکٹر صاحب کو ملکی حالات کی طرف لانے لگا ’’آپ کا کیا خیال ہے موجودہ حکومت ملک کو بحران سے نکال لے گی؟‘‘
سیلانی کے سوال پر انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں ’’بھئی‘‘ کہا اور پھر گویا ہوئے ’’پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ ہمارا میڈیا بالغ کب ہوگا؟ یہ کیا بچکانہ خبریں چلاتا رہتا ہے، یہ توڑ دیا، وہ گرا دیا، بھئی تمہیں ہزار پچاس دکانوں کی پڑی ہوئی ہے، یہاں تمہارا ملک توڑے جانے کی تیاری ہو رہی ہے اور کوئی اس بارے میں سوچنے کیلئے تیار نہیں ہے۔‘‘
’’سر! کیا آپ کے علم میں کوئی بات آئی ہے؟‘‘ سیلانی کے اندر کا صحافی فورا جاگ گیا۔
’’میں کسی انٹیلی جنس میں نہیں ہوں، پڑھنے لکھنے والا آدمی ہوں، بس آنکھیں اور کان کھلے رکھتا ہوں، جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیا ہونے جا رہا ہے… ہمارا پڑوسی ایک بار پھر بنگلہ دیش کا اسکرپٹ تھیٹر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے بھارت جس کی اپنی حالت پتلی ہے، حال یہ ہے کہ صرف پانچ فیصد آبادی ٹیکس دینے کے قابل ہیں اور ڈھائی فیصد لوگوں کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں، ایسا بدحال ملک افغانستان میں کس لئے سرمایہ کاری کر رہا ہے؟ مجھے تازہ ترین اعداد و شمار تو یاد نہیں، اتنا یاد ہے کہ 2012ء میں بھارت میں خط غربت سے بھی نیچے رہنے والوں کی تعداد ستائیس کروڑ تھی۔‘‘ ڈاکٹر نے اتنا کہہ کر کافی کا مگ ایک بار پھر اپنے ہونٹوں سے لگایا اور چسکی لینے کے بعد سیلانی سے پوچھنے لگے ’’بھئی وہ خط غربت کا تو پتہ ہی ہوگا ناں؟‘‘
’’جی جی، میں سوشل سائنسز کا طالب علم رہا ہوں۔‘‘
’’ویری گڈ، میرے خیال میں ہر صحافی کو سوشیالوجی لازمی پڑھنا چاہئے۔ خیر میں بتا رہا تھا کہ بھارت میں غربت کا حال یہ ہے اور یہ افغانستان میں تین بلین ڈالر کی
سرمایہ کاری کر رہا ہے، افغانستان کیلئے علاقے کا سب سے بڑا ڈونر یہی ہے، آخر کیوں؟ پچھلے ہی مہینے دس دن پہلے کابل میں افغانستان اور بھارت کے سیکورٹی اداروں کے اہم افسران مل کر بیٹھے۔ افغان انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹیڈیز میں ہونے والی میٹنگ میں وہ کرزئی کی افغان سیکورٹی کونسل کا صدر تھا ناں جس کا عجیب سا نام ہے… ابھی یاد بھی آجائے گا، خیر اس نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی صورتحال کو ہتھیار کے طور پر کابل اور نئی دہلی کے خلاف استعمال کر رہا ہے، ہاں یاد آگیا ران گین یا رنگین دادفر، پرانا سیاستدان ہے، اس نے خوب بکواس کی اور جواب میں بھارت نے کہا کہ اب افغان ہمارے اہم اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں، ہم دوست ہیں، ہمارے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں… بھئی غور کرو، یہ سب کچھ کیا ہے؟ ابھی حال ہی میں بھارت نے افغانستان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ زراعت، جنگلات کے شعبوں میں بھارت چھ سو افغان طلباء کو اسکالر شپ دے گا، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی افغان طلبہ کو ماہانہ پندرہ سے اٹھارہ ہزار روپے اسکالر شپ دے رہا ہے۔ یہ محبتیں بلا سبب نہیں ہیں۔ افغانستان کی نئی نسل پر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھو، اسی طرح بھارت نے بنگالیوں سے پینگیں بڑھائی تھیں۔ بنگلہ قومیت کی ہوا چلائی تھی، تنازعات ابھارے تھے، نفرتوں کو ہوا دی تھی، مکتی باہنی کو ہر طرح کی مدد دی تھی۔ یہی اب یہاں ہو رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ بھارت یہ کام افغانستان سے لینا چاہ رہا ہے، یہاں قبائلی علاقوں میں پشتون ازم کو ہوا دی جا رہی ہے، انہیں بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان ’’پنجاب‘‘ کا نام ہے اور پنجاب پشتونوں کو دبا رہا ہے، ان کے راستے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ جیسی تحریک چلائی جا رہی ہے، مسائل کو بڑھا چڑھا کر پشتونوں کو متنفر کیا جا رہا ہے، بالکل وہی اکہتر والی اسٹوری ہے، بس بنگالیوں کی جگہ پشتونوں کو رکھ لیا گیا ہے…‘‘
ڈاکٹر انصر کا کہنا ہے کہ ’’اس کام میں بھارت اکیلا نہیں ہے، اسے امریکہ کا پورا تعاون حاصل ہے، کیوںکہ پاکستان انرجی کوریڈرور ہے، ایران اور عراق سے تیل کی پائپ لائن پاکستان کی مدد سے ہمالیہ کے پار چین تک لے جائی جاسکتی ہے، جس سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس سب سے بچے رہنے کیلئے پاکستان کا اپنے اندر الجھے رہنا بہت ضروری ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے ایک استاد کی طرح سیلانی کو سمجھاتے ہوئے کہا ’’میڈیا کو اس پر کام کرنا چاہئے، اسے ہائی لائٹ کرنا چاہئے، تاکہ حکومت پر پریشر بنے، وہ اس بارے میں بھی سوچے اور اسے کاونٹر کرے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر کافی کا مگ خالی کیا اور زیریں لب دانتوں میں دبائے متفکر انداز میں کھڑے سیلانی کے پاس آکر دوستانہ انداز میں اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہنے لگے ’’صرف پریشان ہونے سے کام نہیں چلے گا، کافی کا مگ لے کر اپنے حصے کا کام کرو اور ہاں! پھر ملیں گے تو بلیک ایوری کافی ساتھ پئیں گے، ویسے جانتے ہو یہ کافی کیسے بنتی ہے؟‘‘ سیلانی کے نفی میں سر ہلانے پر وہ مسکرا دیئے ’’اس کافی کیلئے ہاتھیوں کو کافی کے بیج کھلانے پڑتے ہیں اور پھر ان کے waste سے اسے حاصل کیا جاتا ہے، یہ صرف تھائی لینڈ میں بن رہی ہے۔‘‘
سیلانی کا یہ سننا تھا کہ ایسے لگا جیسے اس کے پیٹ میں موجود کافی کا سیاہ سیال اوپر کی جانب اٹھتے ہوئے حلق کو آرہا ہے۔ اس نے ابکائی روکنے کیلئے لب بھینچ لئے۔ ڈاکٹر صاحب سیلانی کی حالت سے بے خبر اس انوکھی کافی کی شان بیان کرنے لگے اور ابکائی روکے سیلانی رحم طلب نظروں سے انہیں دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔٭
٭٭٭٭٭