تجاوزات کی بھرمار

عدالت عظمیٰ نے کراچی شہر کی روایتی خوبصورتی اور رونق بحال کرنے کے لئے تجاوزات ختم کرنے کی جو ہدایات جاری کیں، ان کی آڑ میں صوبائی و شہری انتظامیہ نے اندھا دھند عملدرآمد کرتے ہوئے شہر کے بیشتر علاقوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے، اس سے خوبصورتی اور رونق تو کیا بحال ہوتی، جگہ جگہ اشتہارات بینرز اور ہورڈنگز کے علاوہ دکانوں کے اضافی چھجوں کا ملبہ نظر آتا ہے، جس سے ایک طرف تجارتی و رہائشی علاقوں کا حسن برباد ہوکر رہ گیا ہے تو دوسری جانب چھوٹے پتھارے دار اور دکاندار بڑے پیمانے پر بے روزگار ہوگئے ہیں۔ بہت سے گھروں میں فاقوں تک نوبت جاپہنچی ہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں نے بھی قانونی و غیر قانونی کی تفریق کئے بغیر تجاوزات ہٹانے کے نام پر توڑ پھوڑ اور مالی نقصانات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کا ایک نہایت افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کراچی میں بیشتر تجاوزات کے ذمے دار پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے بااثر افراد ہیں، جنہیں اپنی قیادتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ کیونکہ بھتا خوری میں ان کا حصہ بقدر جثہ سب سے زیادہ رہا ہے۔ آج بھی دونوں سیاسی جماعتوں نے صوبے اور شہر میں اپنی حکومتوں کے ذریعے ان تجاوزات کو بچالیا ہے، جو ان کی نگرانی اور سرپرستی میں قائم کی گئی تھیں۔ اب اطلاع آئی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن رکوانے کے لئے عدالت عظمیٰ میں نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کی ہدایات دے دی ہیں۔ منگل کو گورنر سندھ عمران اسماعیل نے انہیں تجاوزات کے خلاف آپریشن پر مختلف طبقوں کی جانب سے شکایات اور تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ متعدد متاثرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے قانونی طور پر جو جگہیں حاصل کی تھیں، انہیں بھی مسمار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں مقتدر و بااختیار افراد اور اداروں کا کمال یہ ہے کہ وہ اچھے سے اچھے فیصلوں اور اقدامات میں بھی شرانگیزی اور فتنہ و فساد کے پہلو تلاش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کراچی کو خوبصورت شہر بنانے کے لئے غیر قانونی، بے ڈھب اور شہریوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والی تجاوزات کو ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ سب سے پہلے تو متعلقہ حکام کو یہ بتانا ضروری ہے کہ تجاوزات صرف غیر قانونی طور پر جگہ گھیرنے اور کچھ تعمیر کرنے کو کہا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ سپریم کورٹ کو حکم جاری کرنے کے بعد اس پر عملدرآمد کا مسلسل جائزہ لینا چاہئے کہ غریب لوگوں کو کس اذیت اور بے روزگاری سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر تجاوزات کے خلاف کارروائی میں پیش پیش رہ کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ اعلیٰ عدالتوں کی بڑی عزت کرتے اور ان کے احکام کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہوئے کچی پکی عمارتوں، جائز و ناجائز تعمیرات اور غریبوں کے پتھاروں پر ہتھوڑے چلوانے اور بلڈوزروں سے تباہی مچانے میں مصروف ہیں، لیکن واقفان حال بتا سکتے ہیں کہ وہ اپنی جماعت ایم کیو ایم کے گناہوں پر پردہ ڈالنے، دوسروں کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے اور اپنے چاہئے والوں کی قائم کردہ تجاوزات کو بچانے کی سعی و جدوجہد کررہے ہیں، جس کی شہادتیں ذرائع ابلاغ کی خبریں، تصویریں اور ویڈیوز سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔
اہل وطن منتظر ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کے علاقے بنی گالا سے تجاوزات کے خاتمے کا جو حکم دیا گیا ہے، اس پر کب اور کس طرح عملدرآمد ہوتا ہے؟ اس سے بھی آگے بڑھیں تو جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے تجاوزات اور ناجائز قبضوں کے حوالے سے حکم جاری کیا ہے کہ فوجی اراضی پر شادی ہالز اور تجارتی سرگرمیاں خلاف قانون ہیں، لہٰذا انہیں ختم کیا جائے۔ اسپتالوں کے لئے مختص زمینوں پر بنائے جانے والے شادی ہالز بھی ختم کئے جائیں۔ یاد رہے کہ جسٹس گلزار احمد سپریم کورٹ کی ہدایت پر انسداد تجاوزات مہم کی نگرانی کررہے ہیں۔ انہوں نے کراچی میں چار جھیلوں پر قائم غیر قانونی تعمیرات کو بھی ختم کرکے جھیلوں کو اصل شکل میں بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ صوبائی و شہری حکومتوں کنٹونمنٹ بورڈز اور واٹر بورڈ جیسے اداروں کی سرپرستی اور نگرانی میں کراچی شہر میں بے شمار تجاوزات اب بھی موجود ہیں، جن کے سہولت کاروں میں بڑے بڑے سیاسی رہنما اور اہم حکومتی عہدوں پر فائز لوگ شامل ہیں۔ کنٹونمنٹ کے علاقوں میں عام تجاوزات ہی نہیں، عظیم الشان شادی ہالز اور سنیما گھر قائم ہیں، جو ان علاقوں میں ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ایک اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہاں بنائے ہوئے سنیما گھروں میں دکھائی جانے والی فحش فلموں سے نوجوانوں کا اخلاق خراب ہو رہا ہے۔ پاکستان کے عوام و خواص کا عمومی تاثر یہی ہے کہ بعض ادارے قانون سے بالاتر ہیں، ان اداروں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کرسکتا۔ اس کی بہت بڑی مثال حاضر یا سابق فوجی افسروں کی سرپرستی میں چلنے والے نیشنل لاجسٹک سیل (NLC) کے ٹرک اور ٹرالرز ہیں، جن کی وجہ سے ایک طرف بڑی شاہراہوں پر ٹریفک کے ہجوم اور حادثات میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف ریلوے کو شدید مالی خسارہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ریلوے کی تباہی کے باعث ملک بھر کے شہری سستے ذریعہ آمدو رفت سے محروم ہوگئے ہیں اور اب وزیر ریلوے شیخ رشید بھی کرائے بڑھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ ریلوے کی زمینوں پر قابض لوگوں کو ہٹانا ان کے بس میں نہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ٹرانسپورٹ مافیا پر قابو پانے اور این ایل سی کے ٹرکوں اور ٹرالوں میں کمی لاکر ریلوے کی آمدنی بڑھانے کے لئے بھی کچھ کرسکتے ہیں یا نہیں؟ وطن عزیز میں رائج سیاسی و انتظامی اداروں کی سب سے بڑی کمزوری یا برائی یہ ہے کہ غریب شہری ہوں یا کم حیثیت دکاندار و تاجر، ان پر تو سب کا بس خوب چلتا ہے، لیکن بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے سے سب گھبرانے ہیں۔ کراچی میں قائم بے شمار تجاوزات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment