تجاوزات منہدم، قبضے برقرار (چوتھاحصہ)

اور اب یہ جو سندھ حکومت کے پیٹ میں انسداد تجاوزات کے ضمن میں انسانی ہمدردی کی مروڑ اٹھی ہے اور وہ تجاوزات کے سرخیلوں کے حق میں لنگوٹ باندھ کر میدان میں اتری ہے تو اس سے ہرگز یہ نہ سمجھا جائے کہ اسے غریبوں کا خیال ہے۔ اس کے پیچھے بھی مقاصد ہیں، سیاسی بھی اور ذاتی بھی، اگر غریب دکانداروں سے ہمدردی والی کوئی بات ہوتی تو آپریشن کے پہلے ہی روز توڑ پھوڑ پر اعتراض اٹھنا چاہئے تھا، دوسرے ہی دن کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کی جانی چاہئے تھی۔
گزشتہ لگ بھگ ایک ماہ سے توڑ پھوڑ کا جو سلسلہ جاری ہے، اس کے ابتدائی ہفتوں میں تو حکومت یا اس کے کسی ذمہ دار کو ایسی کوئی فکر لاحق نہ ہوئی جیسی تشویش کا اظہار اب کیا جا رہا ہے۔ غریبوں کے نقصان اور انسانی ہمدردی کا جذبہ اب اچانک انگڑائی لے کر کیوں جاگا؟ اصل میں گمان یہ تھا کہ اس مہم کے جال میں صرف غریب غرباء ہی پھنسیں گے، ماتحت اداروں کی کیا مجال کہ وہ ان بڑوں کی املاک کی جانب نظر بھی اٹھا کر دیکھیں، جن کے تعلق کی جڑیں ایوان اقتدار تک وسیع ہیں، مگر اب جب کہ معاملہ اس سوچ کے برخلاف ہوتا نظر آرہا ہے تو قبضہ مافیا حکومتی ذمہ داروں اور زمینوں پر قبضہ کرانے والے سرکاری افسران جو پیسے لے کر قبضہ مافیا کی سرپرستی کرتے رہے ہیں، ان کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور وہ اپنا مقدمہ لے کر اپنے بڑوں کے پاس پہنچ چکے ہیں اور اپنے احسانات بڑوں کو جتا رہے ہیں کہ انہوں نے ان کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔ حکومت اور اس کے ذمہ داروں کے بیانات اب عدلیہ کو اسی تناظر میں جانچنے کی ضرورت ہوگی، ورنہ تو سینکڑوں دکانیں اور مارکیٹیں گرتی رہیں، دکاندار اور غریب ملازمین بے روزگار ہوتے رہے، مگر وزیر اعلیٰ مونچھیں پھیلا کر مسکراتے اور وزیر بلدیات منہ چھپاتے رہے۔
خدا کے بندو! اپنے محلات اور قبضوں کی غیر قانونی وسعتیں بچانے کے لئے میدان میں اترے ہو تب بھی خدا کی غریب مخلوق کی آڑ لیتے ہو، اسی غریب مخلوق کی آڑ، جس کی حیثیت تمہاری نظر میں کیڑے مکوڑوں سے ہرگز بڑھ کر نہیں۔ جس کے حصے کا کروڑوں گیلن پانی تم روز ٹینکرز مافیا کو فروخت کرکے اپنا بینک بیلنس بھی تجاوزات کی طرح وسیع کرتے ہو۔ جس کے حصے کی گندم، گوداموں میں رکھ کر سڑا دیتے ہو، مگر حقیقی نرخ پر یہ گندم غریبوں کے بھوکے شکم تک پہنچنے نہیں دیتے، اسی غریب مخلوق کو تم بجلی، گیس، صحت اور سفر کی سہولیات بہم پہنچانے میں ڈنڈی مارکر اپنی توندیں وسیع کرتے ہو تو انسانی ہمدردی والی تمہاری رگ کبھی نہیں پھڑکتی، لیکن جونہی تمہارے مفادات پر چوٹ پڑتی ہے تو تم نیند سے پوری طرح بیدار ہوکر ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیتے ہو۔
صرف کراچی میں ہی نہیں، انسداد تجاوزات کی مہم تو کم و بیش پورے ملک میں ہی جاری وساری ہے۔ کراچی میں گرما گرمی شاید اس لئے زیادہ ہے کہ یہاں ماضی اور ماضیٔ قریب میں ہر سڑک اور ہر گلی کو ماما جی کی ملکیت سمجھ کر اس پر قبضہ کیا گیا، جس دکاندار نے بھی دکان کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا، دوسرے دکاندار سے دو تین فٹ باہر نکل کر تعمیر کی تاکہ اس کی دکان لوگوں کی نظر میں آئے۔ تجاوزات کی روک تھام کا کام اگرچہ متعلقہ اداروں اور پولیس کا تھا کہ انہیں ایسا کرنے سے باز رکھتے، مگر پارٹی بازی اور پیسے کی چمک گلی کوچوں کی بد رونقیوں میں اضافہ کرتی گئی اور اب جب کہ عدالتی ڈنڈا گھوما ہے تو سٹی میئر سمیت سب کی سٹی گم ہے۔ قبضہ کرنے والوں کے ہوش بھی اڑے ہوئے ہیں اور قبضے کرانے والے بھی تعویذ چلوں میں مصروف ہیں۔ بلاشبہ کراچی شہر کی حالت شہر ناپرساں کی سی ہوکر رہ گئی ہے، جدھر منہ اٹھائیے ایک ناگوار بے ہنگمی پاؤں پسارے حکومت، انتظامیہ اور متعلقہ بلدیاتی اداروں کی نالائقی پر نوحہ کناں نظر آتی ہے، جس کے تدارک کا فیصلہ بھی بہرحال اعلیٰ عدلیہ کو ہی کرنا پڑا۔
میئر کراچی بھی اب توکہہ رہے ہیں کہ جن مارکیٹوں اور دکانوں کو گرایا گیا ہے، ان کے لئے متبادل فراہمی کا آپشن ہے۔ حضور متبادل کا آپشن توتوڑ پھوڑ سے پہلے کا ہوتا ہے، آپ کو اس کا خیال اب آیا جب بات وہاں تک جاپہنچی ہے، جہاں سے آپ کے کھلائے ہوئے ’’گُل‘‘ کِھِلنے کو ہیں۔ سندھ حکومت کی طرح شاید میئر صاحب بھی غریبوں کی آڑ لے کر ان کو فوائد پہنچانے کی کوششوں میں ہیں، جو ان کو فائدے پہنچاتے رہے ہیں۔ میئر صاحب بتانا پسند کریں گے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ہونے والی غیر قانونی تعمیرات کی توڑ پھوڑ سے کراچی کے کچھ مخصوص اور پوش علاقے اب تک کیوں محفوظ و مامون ہیں؟ کیا ان علاقوں کی بے ہیئت ایکسز تجاوزات نہیں؟ پارکوں اور فلاحی اداروں کی زمینوں پر قائم ناجائز تعمیرات کا نمبر کب آئے گا؟ ایسی بیشتر تعمیرات نارتھ ناظم آباد، کلفٹن اور گلشن اقبال جیسے پوش علاقوں میں بھی تو قائم ہیں، کیا وہاں نظر دوڑانے کے لئے آپ کو کسی اور نمبر کی عینک درکار ہے؟
نارتھ ناظم آباد، کراچی کی وہ واحد بستی ہے، جو باقاعدہ نقشے پر منصوبہ بندی کرکے آباد کی گئی تھی، مگر ناہنجار قبضہ مافیا نے اس کا بھی نقشہ بگاڑ کر ستیاناس کر دیا ہے۔ بد قسمتی سے یہی وہ آبادی ہے، جو موجودہ میئر کی جماعت کے لئے ماضیٔ قریب میں ملائم چارہ رہی۔ سو اس کی خوبصورتی کو جی بھر کر برباد کیا گیا۔ زمینوں کی بندر بانٹ کے ذریعے اس پورے ٹاؤن کو بدصورتی کی مثال بنایا جاتا رہا۔ یہاں پارکس، اسکول اور طبی مراکز کے لئے مختص زمینیں ہی نہیں بیچی گئیں، بلکہ فٹ پاتھ اور سڑکیں بھی مرغی وسبزی فروشوں، نان بائیوں اور موٹر مکینکوں کو فروخت کرکے ایک کلچرڈ آبادی کو انکلچرڈ آبادی میں تبدیل کر دیا گیا۔ کراچی کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ نارتھ ناظم آباد میں کراچی کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا اور کلچرڈ طبقہ آباد تھا، مگر اب یہاں کی سڑکوں، فٹ پاتھوں پر قائم تجاوزات دیکھ کر اس بات پر یقین کرنے کو ہرگز دل نہیں کرتا۔ تجاوزات کی بھرمار دیکھ کر اب یہ اندازہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہم نارتھ ناظم آباد میں کھڑے ہیں یا لیاری، اورنگی یا ملیر ٹاؤن میں۔
کے ایم سی ذرائع کے مطابق نارتھ ناظم آباد کے مختلف بلاکس میں کے ڈی اے اورخود کے ایم سی کے اعلیٰ افسران نے خطیر رقوم کے عوض قبضے کرائے، پارکوں اور طبی مراکز کے لئے مختص زمینوں کو قبضوں کے بعد من پسند بلڈرز کو فروخت کیا، جنہوں نے سیاسی اور لسانی آشیرباد پر بڑے بڑے پلازے تعمیر کرکے فروخت کئے۔ صرف نارتھ ناظم آباد کے بلاک بی، ڈی اور آئی میں ایسے کئی ناجائز منصوبے سر اٹھائے، سینہ پھلائے کھڑے ہیں، جن کی مالیت اربوں روپے ہے۔ کون بتائے گا کہ ان ناجائز تعمیرات سے نظریں کیوں چرائی جا رہی ہیں؟ صرف یہی نہیں، کلفٹن اور گلشن کی پوش جگہیں بھی ناجائز تعمیرات سے مبرا نہیں، جنہیں مقدس گائے کی حیثیت دی جا چکی ہے۔ سوشل میڈیا سمیت ہر تیسرے شہری کی زبان پر بھی ان تعمیرات کا بڑا تذکرہ ہے، جنہیں مقدس گائے کا درجہ دیا جا چکا ہے۔ کوئی ان عمارتوں کو نعوذ باللہ اپنا قبلہ قرار دیتا رہا ہے تو کسی نے ان کی طرف آنکھ اٹھانے والوں کو آنکھیں نکالنے تک کی دھمکیاں دیں۔ گلشن اقبال ٹاؤن میں نیشنل اسٹیڈیم کے ساتھ بنی جنرلز کالونی نیشنل اسٹیڈیم کے پارکنگ لاٹ پر تعمیر کی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ زمین اسپورٹس بورڈ کی ملکیت ہے، جسے جنرل توقیر ضیاء نے اپنے دور چیئرمینی میں، جنرل پرویز مشرف کی آشیرباد حاصل کرنے کے لئے تعمیر کی اجازت دی۔ اسی طرح مڈایسٹ اسپتال اور اوشیئن شاپنگ مال بھی فلاحی پلاٹس پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ کے ڈی اے ہاؤسنگ سوسائٹی میں بنا امریکن انٹرنیشنل اسکول بھی پارک کی زمیں پر قائم ہے، جس میں وزیر، مشیر، بیوروکریٹ، ملز مالکان اور فوج کے اعلیٰ افسران کے بچے مہنگی ترین تعلیم سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ کلفٹن کے علاقے میں بحریہ آئیکون ٹاور مچھلی گھر اور قاسم پارک کی زمین پرتعمیرکیا گیا ہے، ان سب سے بڑھ کر شرمناک بات یہ ہے کہ حکمراں جماعت کی قیادت کا اپنا محل بلاول ہاؤس بھی تعمیراتی اصولوں کے خلاف ہی بنایا گیا ہے، جسے اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی شاہی قلعے جیسی حیثیت حاصل ہے، غریب شہریوں کے وہاں سے گزرنے پر پابندی ہے، اس محل کی حفاظت کے لئے جو آہنی دیواریں اس کے اطراف تعمیر کی گئی ہیں، وہ بھی تجاوزات کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment