مطالعہ میرا شوق ہی نہیں ہے، میرا نشہ ہے، جب تک رات کو سونے سے پہلے مطالعہ نہ کر لوں، نیند نہیں آتی اور چونکہ میرا تعلق ایک دینی خاندان سے ہے، یہ شوق مجھے وراثت میں ملا ہے۔ کسی زمانے میں میرے مطالعے کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ اردو ادب اور فارسی ادب میں بہت انہماک رہا۔ لوگ چونکہ مجھے دین کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جانتے ہیں، اس لیے اب میرے مطالعے کا دائرہ دینی کتابوں ہی کی حد تک محدود ہے۔
مطالعے کے دوران جب مجھے دلچسپ اور سبق آموز واقعات نظر آتے ہیں، تو دل چاہتا ہے کہ میں دوسروں کو بھی اس میں شریک کروں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان واقعات کو لکھا جائے اور کہیں شائع کیا جائے۔ میں روزنامہ امت کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری یہ تمنا یا ضرورت پوری کر دی۔ اگر یہ سہولت نہ ہوتی تو یہ مطالعہ میرے ساتھ قبر میں چلا جاتا۔ اس لیے انشاء اللہ ’’امت‘‘ کے بانی مدیر برادرم جناب رفیق افغان صاحب کو بھی اس کا اجر ملے گا۔ ان واقعات میں کوئی موضوعاتی، تاریخی اور شخصیات کے مرتبے اور مقام کی ترتیب نہیں ہوتی، جو واقعہ پہلے آگیا، وہ پہلے لکھ دیا جاتا ہے۔
طوائفوں کا ایمان
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ایک عجیب واقعہ نقل فرمایا ہے۔ تسہیل کے لیے اپنی زبان میں نقل کرتا ہوں۔ فرمایا: سندیلہ ہندوستان میں ایک مقام ہے، وہاں کا واقعہ ہے۔ وہاں ایک مرتبہ امساک باراں ہوا، بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط پڑ گیا، مخلوق پریشان ہو گئی۔ کئی روز تک استسقاء کی نماز پڑھی گئی، مگر بارش نہیں ہوئی۔ آخر مقامی طوائفوں کا ایک گروہ وہاں کے مالدار لوگوں سے آکر ملا اور عرض کیا کہ بارش نہ ہونے کی وجہ ہماری بداعمالی، سیاہ کاری اور ہماری نحوست ہے۔ استسقاء کی نمازیں بھی پڑھی گئیں، مگر بارش نہیں ہوئی۔ آپ ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم بھی میدان میں جمع ہو کر توبہ کریں۔
لیکن ہماری درخواست ہے کہ جب ہم میدان میں جمع ہوں تو یہ انتظام کر دیجئے کہ وہاں ہمارے پاس کوئی شخص نہ آئے۔ ایسا نہ ہو کہ اللہ کی رحمت کے بجائے اللہ کا غضب نازل ہو۔ لوگوں نے ان کے اس جذبے کو سراہا اور اس مقام کو چاروں طرف سے گھیر دیا۔ وہ سب وہاں پہنچیں اور سجدے میں پڑ کر رونا شروع کر دیا اور ندامت کے ساتھ کہا: کہ اے اللہ! یہ ہماری نحوست ہے، ہم بہت گناہ گار اور سیاہ کار ہیں، ہماری وجہ سے مخلوق کو پریشان نہ کیجئے اور کافی آہ و زاری کے بعد دعا کی کہ یا اللہ! بارش نازل فرما دے۔ جنہوں نے یہ واقعہ حضرتؒ کو سنایا، ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے سجدے سے سر نہ اٹھایا تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔ سبحان اللہ! ان عورتوں کا ایمان تو دیکھئے کہ اپنی سیاہ کاریوں کے باوجود اللہ تعالیٰ پر توکل تھا کہ وہ ہماری دعا بھی ضرور سنیں گے۔
راقم عرض کرتا ہے کہ ان کی دعا سے بارش بھی ہوئی اور غالباً ہدایت کی بارش بھی ہوئی ہوگی، وہ ہدایت سے محروم نہ رہی ہوں گی۔ یہاں ممکن ہے کوئی شبہ کرے کہ اماموں کی نماز استسقاء تو شریعت نے بارش کے لیے ہی تعلیم کی ہے، ان کی نمازوں سے بارش کیوں نہ ہوئی اور بازاری عورتوں کے رونے سے بارش ہو گئی؟ اس کے جواب میں حضرت تھانویؒ نے یہ شعر فارسی کا پڑھ دیا۔
ما بروں را ننگریم و قال را
ما دروں را بنگریم وحال را
’’یعنی ہم ظاہر اور الفاظ کو نہیں دیکھتے۔ ہم تو دل کو اور دل کے خشوع کو دیکھتے ہیں۔ جس دل میں خشوع اور خضوع نہ ہو۔ خشک تقویٰ ہمارے دربار میں قابل قدر نہیں ہے۔‘‘
ایسا ہی ایک اور واقعہ لوہاری کا نقل فرمایا کہ اسی طرح وہاں بھی امساک باراں کی وجہ سے عام لوگ پریشان تھے۔ مسلمانوں نے استسقاء کی نماز کی تیاریاں شروع کر دیں۔ بنیے دیکھ کر کہتے تھے کہ اب کے تو بارش ہے ہی نہیں، یہ فضول کوشش کر رہے ہیں۔ مسلمانوں نے نماز کے بعد دعا کی کہ یااللہ! ہم کو ان بنیوں کے سامنے ذلیل نہ کر۔ ابھی دعا میں ہی مشغول تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔ وہی بنیے کہنے لگے کہ یہ مسلے (مسلمان) تو رام جی کو بہت جلدی راجی (راضی) کر لیتے ہیں۔
حضرت تھانویؒ نے بڑے وثوق سے فرمایا ہے کہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ نماز استسقاء للٰہیت کے ساتھ پڑھی جائے اور بارش نہ ہو اور کئی واقعات مختلف جگہوں پر نقل کئے ہیں۔ سندھ میں بھی اس وقت امساک باراں ہے۔ اس کے لیے عاجزی اور تواضع کے ساتھ نماز و دعا کی ضرورت ہے۔
ایک رئیس کی قوت ایمانی
جلال آباد میں ایک رئیس کے بارے میں سنا ہے کہ وہ جب بھی بیمار ہوتے تو کوئی دوا نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کا معمول تھا کہ وہ حکیم صاحب کو گھر بلاتے۔ ان کی فیس ادا کرتے اور ان سے کہتے کہ حکیم جی! آپ بلاتکلف نسخہ لکھئے۔ وہ چاہے دس روپے کا ہو، یا بیس کا یا پچاس کا۔ حکیم صاحب نسخہ لکھ کر دے دیتے۔ ملازم کو بلا کر نسخہ اس کو دیتے اور کہتے جائو! عطار کو نسخہ دکھا کر دوائوں کی قیمت معلوم کر کے آئو۔ مثلاً اس نے آکر بتایا کہ پچیس روپے کا نسخہ ہے، تو ملازم کو پچیس روپے گن کر دیتے اور کہتے جائو یہ سب مساکین کو خیرات کر دو، میری یہی دوا ہے۔ چنانچہ اس عمل کے فوراً اچھے ہو جاتے۔
غور فرمایئے! یہ وعظ حضرت تھانویؒ نے ایک سو آٹھ سال پہلے سہارن پور میں کیا تھا۔ اس وقت خود حضرتؒ کی تنخواہ شاید بیس تیس روپے ہوگی، پچیس روپے کا مطلب ہزاروں روپے ہوگا۔
ایک صحابیؓ کا عجیب واقعہ
ان رئیس صاحب کا یہ واقعہ توکل کا عجیب واقعہ ہے۔ عام طور سے مالدار لوگوں میں ایسا توکل شاذونادر ہی ہوتا ہے، یہ واقعات تو ایمانی قوت کے نمونے تھے۔ اب عقیدت و محبت کا ایک عجیب واقعہ سنئے!
حضرات صحابہ کرامؓ کی آنحضرتؐ سے عقیدت و محبت ایسی تھی کہ وہ آپؐ کے اشارئہ ابرو پر اپنی جانیں نثار کرنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ یہ واقعہ ایسے ہی ایک صحابی کا ہے جو ان کے ایمان اور عقیدت و محبت کا نادر نمونہ ہے۔
ایک صحابیؓ نے کسی مصلحت سے پختہ مکان ڈاٹ دار بنا لیا۔ اتفاق سے ایک مرتبہ آنحضرتؐ کا گزر اس طرف سے ہوا۔ اس مکان کو دیکھ کر آنحضرتؐ نے دریافت فرمایا یہ کس کا مکان ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! فلاں شخص کا ہے۔ آپؐ نے کچھ نہیں فرمایا اور واپس تشریف لے آئے۔ جب یہ صاحب مکان حضورؐ کی خدمت میں آئے اور سلام عرض کیا تو آپؐ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ پھر وہ دوسری طرف سے آئے تو آپؐ نے ادھر سے بھی منہ پھیر لیا، اب تو ان کو بڑی فکر ہوئی۔ انہوں نے صحابہؓ سے دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی خاص بات تو معلوم نہیں۔ ہاں! ایک مرتبہ آپؐ ادھر سے گزرے تھے تو آپؐ نے پوچھا تھا: یہ کس کا مکان ہے؟
آپؐ نے زبان سے تو کچھ ارشاد نہیں فرمایا تھا، البتہ اس کے بعد سے خاموش ہیں۔ بس یہ سننا تھا، وہ صحابیؓ واپس گھر آئے اور پورا مکان زمین بوس کر دیا۔ حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ شاید آج کل کے عقلاء اس عمل کو خلاف عقل بتائیں، لیکن اگر خلاف عقل ہوتا تو آپؐ اس کے گرنے پر خوش نہ ہوتے۔
اس عمل پر ذرا سوچئے۔ ان صحابیؓ کو یقین سے معلوم نہیں تھا کہ آپؐ کی ناراضگی کس وجہ سے ہے؟ آنحضرتؐ سے ناراضگی کی وجہ معلوم کرنے کی بھی بے ادبی سمجھا۔ بس اللہ پر بھروسہ کر کے خاموش بیٹھ گئے اور مکان گرانے کی اطلاع بھی آپؐ کو نہیں کی۔ جانتے تھے کہ اطلاع تو جب کروں جب حضورؐ پر مکان گرانے کا احسان ہو۔ بس اپنی تقدیر پر بھروسہ کر کے بیٹھ گئے کہ جب اللہ کو منظور ہو گا، وہ آپؐ کو اطلاع کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ چند روز بعد آنحضرتؐ کا گزر ادھر سے ہوا تو دریافت کیا وہ مکان کا کیا ہوا؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان صاحب نے اپنا مکان اسی دن گرا دیا تھا۔ اس پر آپؐ نے اپنی خوشی کا اظہار فرمایا۔ (مواعظ اشرفیہ: ج 8)
ایسے ہی اللہ کے دیوانوں کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
آزمودم عقل دور اندیش را
بعد ازیں دیوانہ سازم خویش را
یعنی: ’’ہم نے دور اندیش عقل کو بہت آزمایا، اس کے بعد ہی ہم اپنے آپ کو دیوانہ بناتے ہیں۔‘‘
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
٭٭٭٭٭