سرفروش

عباس ثاقب
مانک نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموشی سے وہاں رکنے کا اشارہ کیا اور خود سامنے دیوار سے لگی سات آٹھ فٹ اونچی ایک سیڑھی اٹھاکر لے آیا اور روشن دان کے عین نیچے دیوار سے لگا کر کھڑی کر دی۔ میں نے سوالیہ نظروں سے مانک کو دیکھا تو اس نے مجھے سیڑھی پر چڑھ کر روشن دان سے کمرے میں جھانکنے کا اشارہ کیا۔
میں اپنی جذباتی اتھل پتھل کو سنبھالتے ہوئے کوئی آواز پیدا کیے بغیر بانس کی سیڑھی چڑھنے لگا۔ آخری دو تین سیڑھیوں سے پہلے ہی روشن دان میرے سامنے آگیا۔ میں نے ایک نظر مانک پر ڈالی اور پھر احتیاط سے اندر جھانکا۔ وہ کشادہ کمرا یقیناً خواب گاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہوگا۔ وہاں تین پلنگ بچھے ہوئے دکھائی دیئے، تاہم اس وقت وہ پلنگ خالی تھے۔ البتہ ان کے درمیان خالی جگہ پر بچھے دو مصلوں پر جواں سال لڑکیاں نہایت خشوع و خضوع اور انہماک کے ساتھ نماز کی ادائیگی میں مصروف تھیں۔ انہوں نے دوپٹوں سے اپنے سر اچھی طرح ڈھانپ رکھے تھے۔ ان کے نکھرے نکھرے، پاکیزہ چہرے مجھے بخوبی دکھائی دے رہے تھے، لیکن مجھ میں انہیں دیکھنے کی تاب نہیں تھی۔
میں نے اپنی نظریں ان دونوں بہنوں پر سے ہٹالیں، لیکن چہرے کا رخ نہیں بدلا، تاکہ مانک یہی سمجھے کہ میں محویت سے ان دونوں کا جائزہ لے رہا ہوں۔
میں نے ان کا جو محدود جائزہ لیا تھا، اس کے مطابق ان میں سے بڑی بہن کی عمر بائیس کے لگ بھگ رہی ہوگی، جبکہ چھوٹی شاید اٹھارہ سال کی ہوگی۔ دونوں دراز قامت اور متناسب جسم کی مالک تھیں اور حسن کے ہر پیمانے پر پوری اترتی تھیں۔
میںکچھ ہی دیر وہاں ٹھہر سکا اور مانک کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سیڑھی سے نیچے اتر آیا۔ مانک نے قدرے حیرانی سے مجھے دیکھا اور پھر کچھ کہے بغیر سیڑھی کو اس کی سابقہ جگہ رکھ کر مجھے ساتھ لئے بے آواز قدموں سے واپسی کے راستے پر چل پڑا۔ راہ داری سے زینے کی طرف بڑھتے ہوئے مانک داد اور اشتیاق بھری، سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف سے کوئی بے ہودہ سوال پوچھے جانے سے پہلے، خود ہی اپنے تاثرات ظاہر کرنا بہتر سمجھا۔ ’’واقعی دونوں اپسرائیں ہیں… آسمانی حور … پریاں !… سترہ سال گوریوں کے بیچ گزارے ہیں، لیکن ایسی سندرتا پہلے کبھی نظر سے نہیں گزریں‘‘۔
سیڑھیاں اترتے ہوئے مانک نے خوشی سے چہکنے کے انداز میں کہا۔ ’’مٹھو سنگھ جی خوا مخواہ تو اتنے برسوں سے انہیں نہیں پال رہے ہیں۔ ایسی سندر کنیائیں لاکھوں، بلکہ کروڑوں میں سے کوئی ایک آدھ ہوتی ہیں۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ تینوں ایک سے بڑھ کر ایک…‘‘۔
اچانک اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ سب سے بڑی بہن کے ذکر سے وہ ہر ممکن گریز کرنا چاہتا تھا۔ مجھے اس تیسری لڑکی کے بارے میں سوال پوچھنے سے روکنے کے لیے اس نے جلدی سے پوچھا۔ ’’اب آپ یہ بتائیے کہ ان دونوں میں سے آپ کو کون سی زیادہ پسند آئی؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یار یہ سوال تو میں بھی اپنے آپ سے پوچھ رہا ہوں، لیکن جواب ڈھونڈنے میں سخت مشکل ہو رہی ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ مجھے فیصلہ کرنے میں سخت مشکل ہوگی‘‘۔
میری بات سن کر خوشی سے مانک کی بانچھیں کھل گئیں۔ اس دوران میں ہم صحن میں پہنچ چکے تھے۔ گورکھا ہمیں بیٹھک میں داخل ہوتے دیکھ کر اپنی کوٹھری کی طرف بڑھ گیا۔ مانک نے مجھے میری جگہ پر بٹھا کر ایک بار پھر دونوں بہنوں کے حسن کے قصیدے پڑھنا شروع کر دیئے۔ وہ ساتھ ساتھ ان کے سودے کے خواہش مند سابقہ امیدواروں کے اشتیاق و اضطراب کا احوال بھی چسکے لے لے کر سنا رہا تھا۔ میں نے اس نا خوشگوار بکواس کو روکنے کے لیے پوچھا۔ ’’یار، میں نے جب ان دونوں کے حسن کا اعتراف کرلیا تو پھر یہ سب لفاظیاں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اب صاف صاف بتاؤ کہ تمہارے باس نے ان کے لیے کیا کیا ڈیمانڈ رکھی ہے؟‘‘۔
میرے روکھے لہجے سے وہ چونکا اور سنجیدہ ہوتے ہوئے بولا۔ ’’آپ بتائیے کیا دیں گے؟ ویسے بتادوں، مٹھو سنگھ جی اس سے پہلے بڑی یعنی رخسانہ کے لیے تیس ہزار روپیہ اور جمیلہ کے لیے چالیس ہزار کی بولی ٹھکرا چکے ہیں۔ یہ دماغ میں رکھ کر بتانا‘‘۔
میں نے بگڑکر کہا۔ ’’پہلی بات تو یہ کہ کم ازکم میرے سامنے ان لڑکیوں کا بھیڑ بکریوں کی طرح ذکر نہ کرنا۔ یہ آج مجبور اور لاچار سہی، لیکن انسان تو ہیں؟ ان کے بھی ماں باپ اور بھائی بہن ہوں گے‘‘۔
مانک نے میری دلجوئی کی خاطر جھوٹ موٹ کی معذرت کی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی جتا دیا کہ ان دونوں بے چاریوں کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ میں نے اس تکلیف دہ ذکر سے دامن بچاتے ہوئے کہا۔ ’’جو رقم تم بتارہے ہو، وہ عقل سے باہر ہیں۔ میں کیسے مان لوں کہ کوئی اتنا پاگل ہو سکتا ہے کہ کسی لڑکی کو حاصل کرنے کے لیے چالیس ہزار روپے ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائے؟ یہ ٹھیک ہے کہ دونوں لڑکیاں حسن و جمال میں اپنی مثال آپ ہیں، لیکن کیا تمہیں پتا ہے میری بہترین کنڈیشن والی جیپ بازار میں زیادہ سے زیادہ پانچ سات ہزار روپے میں بکے گی، اور تم اس سے بھی آٹھ نو گنا رقم مانگ رہے ہو؟‘‘۔
میری بات سن کر مانک نے جوشیلے لہجے میں کہا۔ ’’میں بھگوان کی سوگند کھاکر کہتا ہوں مٹھوسنگھ جی یہ رقم ٹھکرا چکے ہیں۔ وہ اس سے کم میں بالکل نہیں مانیں گے‘‘۔
اچانک میں نے پوچھا۔ ’’تو پھر اس نے سب سے بڑی لڑکی کتنے میں بیچی تھی؟ ایک لاکھ میں؟‘‘۔
میرا یہ سوال اس کے لیے شاید بالکل غیر متوقع تھا۔ لہٰذا وہ گڑبڑا گیا اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ’’وہ بکی تھوڑی تھی، وہ تو…‘‘۔
اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور ہونقوں کی طرح میرا چہرہ تکنے لگا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس ادھورے جملے نے میرے ذہن میں اندیشے بھرے سوالات کا طوفان اٹھادیا تھا۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment