یہ تیرے پراسرار بندے (پہلا حصہ)

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
بارش تو صرف تین گھنٹے ہوئی، مگر پورے شہر کو تیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا کر گئی، اس طرح خدا کی یہ رحمت نااہل اور بے ایمان بندوں کے اپنے ناقص شہری نظام اور ’’سب اچھا ہے‘‘ اور ’’سب بہترین ہے‘‘ کے ہر دم راگ الاپنے والوں کا پول کھول گئی۔ بارش کے بعد کراچی کے اکثر و بیشتر علاقے بجلی کی محرومی، نکاسیٔ آب کے ناقص نظام کی وجہ سے لوگوں کے لیے تکلیف دہ بن گئے۔ نقل و حمل میں پریشانی، کرنٹ لگنے کے واقعات نے دل خراب کر کے رکھ دیا۔ ہم جیسے سفید پوش لوگ تو اپنا دکھ اپنے آپ سے کہتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں، مگر ’’ماسیوں‘‘ کے طبقے نے اس بے محل رحمت سے خوب فائدہ اٹھایا۔ کسی کے گھر کے آگے بنے ہوئے پل ٹوٹ گئے۔ جس سے ان کا شہری رابطہ منقطع ہو گیا۔ کوئی اپنے سامان کے ڈوبنے سے بے آسرا ہو گیا۔ کوئی دوسروں کے غم میں پریشان رہا کہ چار دن کام پر جانا ہی بھول گیا۔ میری ماسی بھی انہی لوگوں میں سے ہے، جو اپنے سے زیادہ دوسروں کے غم میں گھلتی ہے۔ بارش کسی شہر میں ہو، وہ دوسرے دن چھٹی ضرور کرتی ہے۔ کیونکہ بارش زدہ علاقے کے متاثرین میں اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار ضرور ہوتا ہے۔ وہ خود تو ماسی کم اور کالج کی طالبہ زیادہ لگتی ہے۔ ستائیس اٹھائیس سال کی دبلی پتلی، عمدہ لباس میں ملبوس بالوں کو مختلف رنگوں سے ڈائی کئے ہوئے، چہرے پر عجیب ملاحت ہے کہ انسان خودبخود اس کی صورت دیکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اٹھارہ جولائی کی بارش نے اس کو چار دن کی چھٹی پر مجبور کر دیا۔ اس کے پڑوس میں رہنے والی ماسی میرے برابر کے فلیٹ میں برابر کام پر آتی رہی۔ میں نے اس سے اپنی ماسی کے بارے میں استفسار کیا تو وہ جھجکتے ہوئے بولی ’’باجی آپ خود ہی پوچھ لیجئے گا اس سے۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’تمہارے ہاں بارش کا کیا ہوا؟‘‘ میرا مطلب ان تمام نقصانات سے تھا، جو غریب گوٹھوں کے مکین اٹھاتے ہیں۔ وہ سادگی سے بولی: ’’بس باجی خدا کا کرم ہے۔ گھر میں پانی بھر گیا تھا۔ بچوں کے ساتھ مل کر نکال دیا۔‘‘ میں صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئی۔ مجھے معلوم تھا کہ میری ماسی آتے ہی اس علاقے کو تشویش ناک اور آفت زدہ قرار دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑے گی۔ وہ جب بھی میرے پاس آتی، کوئی نہ کوئی داستان، ایک نہ ایک کہانی اس کے ساتھ ہوتی۔ میں بھی نہ چاہتے ہوئے اس کو رکھنے پر اس لیے مجبور تھی کہ ایک تو وہ پھرتیلی بہت تھی، منٹوں میں سارا کام کر کے گھر چمکا کر رکھ دیتی، دوسرے میں بھی دن بھر کی خاموشی اور سناٹے سے اکتائی ہوتی تھی۔ میرے کوئی اولاد نہ تھی۔ شوہر اپنی دفتری مصروفیات میں مگن اور مشغول۔ میں محلے میں ذرا کم آتی جاتی تھی۔ اس لیے ماسی کے ذریعے ہی سب کی خیر خبر ملتی رہتی تھی اور میں اس رابطے کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسے توڑنا نہیں چاہتی تھی۔ میں بارش کے بعد تین دن اس کے انتظار میں رہی۔ چوتھے دن خود ہی اٹھ کر صفائی کی۔ برتن اور کپڑوں کی دھلائی سے فارغ ہوئی تو وہ اچانک اتھلاتی بل کھاتی لہراتی آگئی۔ میرے شوہر دفتر جانے کی تیاری میں تھے۔ سیدھے ان کے کمرے میں جاکر بولی ’’میری خبر بھی نہ لی کہ مری کہ بچی۔‘‘ وہ اس افتاد پر اچانک بوکھلا گئے۔ انہیں ماسی سے اس رویئے کی توقع نہ تھی۔ گھبرا کر بولے ’’کیا ہوا؟ تم کہاں تھیں تین دن سے؟‘‘
’’ارے صاحب کیا نہیں ہوا؟‘‘ وہ دہلیز پر بیٹھ گئی۔ ’’بس میں اور بچے مرتے مرتے بچے۔ بہن کا پورا جہیز بہہ گیا۔ پڑوسیوں کا فریج اور ڈیپ فریزر پانی کے ریلے میں بہہ گیا۔ ماموں کی سمدھن کا بیٹا پل ٹوٹنے سے پانی میں بہہ گیا۔‘‘
’’مگر تمہارا ان سب سے کیا تعلق؟ بہن کا جہیز اس کے گھر میں بہا۔ ماموں کی سمدھن کے بیٹے سے تمہارا کیا رشتہ۔ پڑوسیوں کے فریج اور ڈیپ فریزر کو تم نے تو نہیں بہایا۔‘‘ انہوں نے ذرا سختی سے اس سے بازپرس کی۔ اس نے گھبرا کر کہا: ’’صاحب جی، بہن کا بڑا نقصان ہوا۔‘‘
’’پر تم کام پر کیوں نہیں آئیں؟‘‘ ان کی سوئی اب بھی اس کی غیر حاضری پر اٹکی ہوئی تھی۔ وہ بوکھلا کر کھڑی ہو گئی۔ میں نے مسکرا کر اسے بچا لیا۔ ’’چھوڑ دیں اب اس سے باز پرس۔ اس کی بہن کا نقصان بھی تو اس کا اپنا ذاتی نقصان ہے۔ آخر اسی نے تو مانگ تانگ کر اس کا جہیز بنایا تھا بہن کے لیے۔ اب پھر سے سب کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے گا۔‘‘
اس نے حیران ہو کر مجھے دیکھا اور تیزی سے کچن میں گھس گئی۔ یوں تو میرے شوہر ہمیشہ اس کی حمایت میں
پیش پیش رہتے تھے، مگر اس دفعہ انہوں نے مجھے ماسی کے نہ آنے اور خود کام کرتے دیکھا تو ان کو نہ جانے کیوں بہت برا لگا۔ مجھے ڈسٹنگ کرتے دیکھ کر بولے ’’جب سارا کام تمہیں ہی کرنا ہے تو ماسی کس کام کے لیے رکھی ہے؟‘‘ میں نے چڑ کر کہا ’’کیا مطلب ہے آپ کا۔ میں گھر کو اسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں۔‘‘ میں نے تلخی سے کہا ’’پھر آپ کے لاڈ نے اسے بگاڑا ہے۔‘‘ میں نے ان کو ٹٹولا۔ ’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ ’’مطلب یہ ہے کہ اگر ابھی وہ آکر اپنی جھوٹی سچی کہانی سنائے گی تو آپ ہی سب سے پہلے متاثرین کی مدد میں پیش پیش ہوں گے اور جیب میں جو کچھ ہو گا اس کی نذر کر دیں گے۔‘‘ ’’اب ایسا بھی بے وقوف نہیں ہوں میں۔‘‘ وہ چوری پکڑے جانے پر بوکھلا کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔
چوتھے دن جب وہ آئی تو دروازے پر بیل دیتے ہوئے ’’پردیسیوں سے نہ انکھیاں ملانا‘‘ گا رہی تھی۔ میں دروازہ کھولتے کھولتے رک کر گانا سننے لگی۔ آواز سریلی اور تال اور لے سب درست تھا۔ میں دروازہ کھولتے کھولتے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ دروازے پر جب زور سے دستک ہوئی تو میرے شوہر نے دروازہ کھولا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے۔ وہ اٹھلا کر بولی ’’ہماری خبر بھی نہ لی۔‘‘ میرے شوہر جو تیزی سے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے اس جملے پر بوکھلا گئے ’’کہاں تھیں تم چار دن سے؟‘‘ اور اس پر جو اس نے اپنی اور محلے کی غمناک داستان شروع کی۔ وہ میرے شوہر کو غصہ دلانے کے لیے کافی تھی۔
شعبان کے مہینے میں، میں نے گھر کی تفصیلی صفائی کی۔ رمضان سے پہلے میں نے ماسی کو ہزار روپے زکوٰۃ فنڈ میں سے دیئے کہ اپنے اور بچوں کے کپڑے بنا لینا۔ ہزار کا نوٹ ہاتھ میں لے کر وہ بے نیازی سے بولی ’’باجی ڈھنگ کا جوڑا تو اب اتنے پیسوں میں آتا نہیں۔ یہ تو آپ ہی رکھ لیں۔‘‘ اس نے میرے اوپر چوٹ کی۔ کیونکہ میں ہمیشہ کم قیمت، مگر آرام دہ کپڑوں کو ترجیح دیتی ہوں۔ درزیوں کے چکر سے بچنے کے لیے خود ہی اپنے کپڑے سینا پسند کرتی ہوں۔ یوں بھی آج کل درزی کپڑے کی قیمت سے زیادہ اس کی سلائی وصول کرتے ہیں۔ مجھے اس کا یہ طنز انتہائی ناگوار لگا۔ ایک لمحہ کے لیے سوچا کہ اس سے پیسے واپس لے کر کسی مستحق کو دے دوں۔ وہ آہستہ سے بولی۔ ’’انسان کھانے من بھاتا پر پہنے جگ بھاتا‘‘ یہ جملہ سن کر میرے آگ لگ گئی ’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘
’’کچھ نہیں باجی میں تو اپنے آپ سے باتیں کررہی تھی۔‘‘ میں نے چاہا کہ اس کی اس بدتمیزی پر اسے اسی لمحہ کام سے فارغ کر دوں۔ ،مگر آج کل ’’ماسی‘‘ ڈھونڈنا بہت مشکل کام ہے، مگر ان ماسیوں کا دماغ بھی تو ہم جیسے ناکارہ اور گھر میں بیٹھنے والے بگاڑتے ہیں۔ گھر میں کوئی مصروفیت نہ ہوتے ہوئے ’’ماسی‘‘ لگا رکھی ہے۔ حالانکہ میرے گھر میں صرف دو ہی افراد ہیں۔ فلیٹ میں جہاں ہماری رہائش ہے صرف تین کمرے ہیں۔ ان کمروں کی صفائی کوئی مشکل کام ہے کیا؟ مگر اپنے مزاج کی سستی اور کام کی نااہلی اور دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے ’’ماسیوں‘‘ کا روگ پال رکھا ہے۔ اگر ماسی کام نہ کرے تو ٹی وی کا ہر پروگرام دیکھنے، اس میں کال کرنے اور رسالوں کے پڑھنے کا وقت کہاں سے ملے۔ یہ تفریح بھی تو لازمۂ حیات ہے۔ نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن کے لیے وقت ملے نہ ملے ٹی وی دیکھنے اور رسالے پڑھنے کے لیے وقت نکالنا بہت ضروری ہے۔ میں بھی اسی جھوٹی شان اور ٹی وی دیکھنے کے عارضے میں مبتلا اس کی ناز برداری کر لیتی تھی۔ اس وقت بھی میں نے پانچ سو روپے کا ایک نوٹ اس کی طرف بڑھا دیا۔ ’’ہاں اب ڈھنگ کا جوڑا آجائے گا۔‘‘ اس نے احسان جتاتے ہوئے پیسے نیفے میں اڑس لیے۔
اگست کا مہینہ رمضان کا تھا۔ ابھی دو دن پہلے خوب بارش برسی، لیکن پچھلی دفعہ کی سرزنش کی وجہ سے ماسی نے چھٹی نہیں کی اور اپنے کسی بڑے نقصان کا ذکر بھی زور و شور سے نہیں کیا۔ میں عشاء اور تراویح سے فارغ ہو کر لیٹنے کا ارادہ کر
رہی تھی۔ میرے شوہر آفس کے کام سے دو دن کے لیے جامشورو گئے ہوئے تھے۔ عجیب سی اداسی تھی۔ رات کے تقریباً بارہ بج چکے تھے۔ یہ رمضان کا آخری عشرہ تھا۔ دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ میں نے پیپنگ ہول Peeping hole سے جھانکا، ماسی کھڑی تھی۔ میں نے دروازہ کھولا ’’خیریت اس وقت کیا کر رہی ہو؟‘‘ میں نے دیکھا، اس کے دائیں بائیں اس کی دونوں بیٹیاں کھڑی تھیں۔ ’’باجی میری بچیوں کو دو گھنٹے کے لیے رکھ لیں۔ میں ابھی ضروری کام سے جا رہی ہوں۔‘‘ وہ تیزی سے بچیوں کو اندر دھکیلتے ہوئے بولی۔ میں اس وقت صرف تھوڑی دیر کے لیے آرام کرنا چاہ رہی تھی، تاکہ تہجد اور عبادت کے لیے تازہ دم ہو سکوں۔ میں نے روکھے پن سے کہا مجھے یہ مداخلت بڑی ناگوار گزری۔ ’’بھئی اس وقت تو میں سونے جارہی ہوں، تم بچوں کو اپنے ساتھ لے جائو، جہاں بھی جانا ہے۔‘‘
’’آپ اگر سونے جارہی ہیں تو ان کو بھی یہیں لٹا لیں، میں صبح لے جائوں گی۔‘‘ اس نے میری بات ان سنی کرتے ہوئے بچیوں کو میرے کمرے میں قالین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’باجی کو تنگ نہیں کرنا۔ میں صبح لے جائوں گی۔‘‘
’’ارے واہ، زبردستی ہے۔‘‘ میں دل ہی دل میں اس کی ہٹ دھرمی پر کھول کر رہ گئی۔ بچیاں قالین پر پیر سکیڑ کر لیٹ گئیں۔ وہ جس تیزی سے آئی تھی، اسی تیزی سے واپس چلی گئی۔ میں نے آرام کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ بیڈ سوئچ آن کیا اور بچیوں سے پوچھا ’’تمہارا باپ کیا کرتا ہے؟‘‘ بڑی بچی نے برجستہ کہا: ’’نشہ کرتا ہے۔‘‘ میں چونک پڑی۔ ’’نشہ کرتا ہے، کس چیز کا نشہ؟‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی: ’’باجی وہ شراب پیتا ہے، ہیروئن پیتا ہے۔‘‘
’’تم جانتی ہو شراب اور ہیروئن کیا ہوتی ہے؟‘‘ میں اس کی معلومات پر حیران ہو کر بولی۔ ’’ہاں باجی۔ ہمارا باپ ہر روز شراب پیتا ہے۔ جس دن اس کے پاس بوتل نہیں ہوتی، اس دن ماں کو لکڑیوں سے مارتا ہے۔‘‘ وہ معصومیت سے اپنے گھر کے ان رازوں پر سے پردہ اٹھا رہی تھی۔ جن پر ان کی ماں نے اپنے دکھاوے، اپنی سج دھج سے چھپا رکھا تھا، میں اٹھ کر بیٹھ گئی، میری نیند اچاٹ ہو چکی تھی۔ جس دن بارش ہوئی تھی نا، اس دن اماں نے ابا کو شراب کے لیے پیسے نہیں دیئے۔ ابا نے وائپر سے اماں کو مارا کہ ان کا جسم نیلا ہو گیا تھا۔ پھر وہ چار دن تک کام پر نہیں گئی۔‘‘ میں چونک پڑی۔ ’’اف تو اس نے اپنے زخم چھپانے کے لیے چار دن چھٹی کی تھی۔‘‘ میں ان دونوں بچیوں کو حیرت سے دیکھ رہی تھی، جو اپنی معصومیت کی عمر کو نہ جانے کب پھلانگ کر ہر دکھ سکھ سہنے کی عادی ہوگئی تھیں۔
میں نے انہیں غور سے دیکھا۔ تو مجھے ان پر بے پناہ ترس آیا۔ میں نے اپنی تسلی کے لیے ان سے پوچھا ’’تمہارا باپ کوئی کام نہیں کرتا؟‘‘
’’نہیں باجی، وہ تو گھر سے ہی نہیں نکلتا۔ بہت سے گندے گندے لوگ اس کے پاس آتے رہتے ہیں۔‘‘ بڑی بچی بولی۔ مجھے نہ جانے کیوں اچانک ان بچیوں کی طرف سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ ’’تم دونوں دن بھر باپ کے پاس رہتی ہو؟‘‘ میں نے ان دونوں کو اپنے بیڈ پر بٹھا لیا۔ ’’نہیں جی اماں اس کے پاس ہمیں نہیں چھوڑتی۔‘‘ اب چھوٹی کی باری تھی۔
’’کیوں؟‘‘ میں نے دل میں پہلی بار ماسی کی سمجھداری پر اس کو سراہا۔ ’’وہ کہتی ہے یہ نشہ باز تم کو نشہ کے چکر میں کسی کے ہاتھ بیچ دے گا، اس لیے ہمیں اپنے ساتھ ہی لاتی ہے۔‘‘ تو میرا اندیشہ صحیح ثابت ہوا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment