یہ ضروری نہیں ہے کہ عظیم انسان بہت بڑے ممالک میں پیدا ہوں۔ کبھی کبھی چھوٹے ممالک بہت بڑے انسانوں کو جنم دیتے ہیں۔ سیاہ جسم اور سرخ روح والا عظیم انقلابی فرانز فینن بھی ایک ایسا انسان تھا، جس نے مارٹینی نامی اس جزیرے پر جنم لیا جو کل تک فرانسیسی کالونی تھا اور آج فرانس کا قانونی حصہ ہے۔ فرانز فینن ایک ماہر نفسیات، ایک مفکر، ایک انقلابی اور ایک ادیب تھا۔ وہ پانچ کتابوں کا مصنف تھا۔ اس کی کتاب ’’مرتی ہوئی نو آبادیات‘‘ بھی بہت اچھی ہے۔ اس کی کتاب ’’بیگانگی اور آزادی‘‘ بھی بہتر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اور کوئی کتاب نہ لکھتا تو اس کی شہرئہ آفاق تصنیف The wretched of the earth ’’افتادگان خاک‘‘ اس کو تاریخ میں ناقابل فراموش حیثیت دینے کے لیے کافی تھی۔ وہ کتاب جس کا دیباچہ فرانس کے انقلابی فلسفی زان پال سارتر نے لکھا تھا۔ سارتر نے اس دیباچے کی ابتدا میں لکھا تھا کہ ’’یورپ کے اعلیٰ طبقے نے مقامی لوگوں کو اپنی طرز پر تیار کرنا شروع کیا۔ ان کو مخصوص برانڈ بنانے کے لیے انہیں آگ سے نکلی ہوئی سرخ سلاخوں سے داغا۔ انہوں نے ان کے منہ میں بڑے فقرے اور ایسے چپچپے الفاظ بھر دیئے، جو ان کے تالو اور ان کے دانتوں سے چپک گئے۔ ان کے ذہنوں کو مکمل طور پر دھو دیا گیا۔ کچھ عرصے کے بعد جب ان مقامی افراد کو اپنے مقبوضہ ممالک کی طرف بھیج دیا گیا تو ان چلتے پھرتے جھوٹوں کے پاس اپنے بھائیوں کے لیے کوئی پیغام نہیں تھا۔ وہ پیرس، لندن اور ایمسٹرڈم کی بازگشت تھے۔ وہاں ’’پارتھینن اور بھائی چارے‘‘ کے الفاظ بولے جاتے تھے تو ایشیا اور افریقہ میں کچھ ہونٹ ہلتے اور آواز پیدا ہوتی: ’’پارتھی… بھائی چا‘‘
سرد جنگ کی یہ گرم یادیں اس وقت ذہن پر دستک دینے لگیں، جب ہمارے میڈیا میں ایک نئی بحث چل نکلی ہے کہ اب ہمیں ’’ففتھ جنریشن وار فیئر‘‘ کا سامنا ہے۔ پھر کسی نے سوال اٹھایا کہ ’’یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کیا ہے؟‘‘ تو اس کو بتایا گیا کہ ’’ففتھ جنریشن وار فیئر کو سمجھنے کے لیے آپ کو فورتھ جنریشن وار فیئر کو سمجھنا ہوگا اور فورتھ جنریشن وار فیئر کو سمجھنے کے لیے آپ کو تھرڈ جنریشن وار فیئر کو سمجھنا پڑے گا۔ اس طرح سے سیکنڈ جنریشن وار فیئر اور اس سے پہلے فرسٹ جنریشن وار فیئر…!!‘‘ پھر بات یہ درمیان سے اس طرح شروع کی جاتی ہے کہ ’’سیکنڈ جنریشن وار فیئر کا محاورہ امریکی فوج کی ایجاد ہے!!‘‘ جس طرح مغربی طاقتیں اپنے مفادات کے مطابق ہمارے ہاتھوں میں اپنے ایجاد کیے ہوئے ہتھیار تھماتی ہیں۔ اسی طرح ہمارے منہ میں مغرب وہ محاورے ٹھونس دیتا ہے جو وہ اپنے مفادات کے مطابق ایجاد کرتا ہے۔ یہ ’’جنریشنز آف وار فیئر‘‘ کا تصور بھی کچھ ایسا تصور ہے، جس کے مطابق مغرب ہمارے ذہنوں میں اپنی مرضی کی تاریخ بٹھانا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ ہمارا حال ان کے ہاتھ میں ہو اور مستقبل پر ان کی مالکی قائم رہے۔
کیا یہ ضروری ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے عسکری دانشور بھی جنگ کی حقیقت کو اس افسانوی صورت میں قبول کریں، جو مغرب کے عسکری دانشور ہم پر مسلط کر رہے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ فرسٹ جنریشن وار فیئر کا تصور اس دور کا تصور ہے، جب مقابلہ صرف فوجی سپاہیوں میں ہوتا تھا۔ جب فوج میدان جنگ میں قطار در قطار آگے بڑھتی تھی اور اس جنگ میں جیتنے کے امکانات اس ملک کے ہوتے تھے، جس کی فوج زیادہ بڑی ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد سیکنڈ جنریشن وار فیئر یعنی جنگ کی دوسری نسل اس وقت پیدا ہوئی، جب ہتھیار ایجاد ہوئے۔ جب بارود بندوقوں میں استعمال ہونے لگا۔ جنگ کی تیسری نسل ہتھیاروں کے جدید ہونے سے وجود میں آئی۔ چوتھی کا بھی تعلق ان ہتھیاروں سے ہے، جو میدان جنگ سے دور استعمال کیے جاتے ہیں۔ جن کے بارے میں معلوم نہیں ہو پاتا کہ وہ کہاں سے آئے؟ یعنی وہ جنگ جس میں میزائل استعمال ہوتے ہیں۔ اس طرح پانچویں یعنی ففتھ جنریشن وار فیئر کا تعلق اس جنگ سے ہے، جس میں حملوں کے بہانے تلاش کیے جاتے ہیں۔ امریکہ کے عسکری تھنک ٹینکس اس قسم کے تصورات کو پوری دنیا میں پھیلاتے ہیں۔ حالانکہ یہ تصورات درست نہیں ہیں۔ یہ تصورات غلط ہیں۔ مگر غلط تصورات کو پیش کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ امریکی جاہل ہیں۔ امریکی بہت عیار ہیں۔ وہ اس قسم کے تصورات اس لیے پیش کرتے ہیں کہ پوری دنیا ان کے سکھائے ہوئے اسباق کو دوہراتی رہے۔ وہ اسباق جن میں سچائی کم اور کمائی کے مفادات زیادہ ہیں۔ امریکہ عسکری تاریخ کو اس طرح سے پیش کرتا ہے کہ اس میں ان کے ہتھیاروں کی بھرپور مارکیٹنگ ہو۔ آج امریکی ہمیں بتا رہے ہیں کہ دنیا ففتھ جنریشن وار فیئر میں داخل ہے اور کل وہ ہمیں یہ اطلاع دیں گے کہ اب ففتھ جنریشن وار فیئر کا دور ختم ہو گیا اور اب دنیا جنگ کی چھٹی جنریشن میں داخل ہو چکی ہے۔ وہ چار پانچ برس کے بعد اپنے مفاد کی کتاب کا نیا صفحہ پلٹیں گے تو کیا ہم ان احکامات پر تاریخ کے ادوار گنتے رہیں؟
امریکہ کا مؤقف کچھ بھی ہو، حقیقت صرف اتنی ہے دنیا میں جنگوں کے صرف دو دور رہے ہیں۔ تیکنیکی حوالے سے بھی اور صحیح اور غلط کے حوالے سے بھی! دنیا کی جنگی تاریخ کے دو ادوار ہیں۔ ایک دور وہ تھا کہ جب وہ میدان میں وہ افراد دو بہ دو لڑتے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں ایسا کوئی ہتھیار نہیں ہوتا تھا، جو دور سے مار کر سکے۔ خالی ہاتھوں والی جنگ سے لے کر تلوار تھام کر لڑی جانے والی جنگ تک، اصل میں جنگ ایک ہی تھی۔ اس جنگ میں فن جنگ سے زیادہ جوانمردی کا عمل دخل ہوا کرتا تھا۔ اس جنگ کی شان کچھ اور تھی، جس جنگ میں دو پہلوان اس طرح لڑتے تھے، جس طرح دو بیل ایک دوسرے کے ساتھ سینگ لڑاتے ہیں۔ اس جنگ کے قصے آج بھی آنکھوں کی نیند لوٹ لیتے ہیں۔ اس جنگ میں صرف اتنی تبدیلی آئی کہ خالی ہاتھوں میں فولادی تلوار آئی اور اس کا جادو بھی بہت پرکشش تھا۔ اس جنگ کے مناظر جس طرح قدیم قصوں میں بیان کیے گئے ہیں، ان قصوں کا مقابلہ سائنس فکشن کی کہانیاں نہیں کر سکتیں۔ جب میدان تماش بینوں کے شور سے بھر جاتا تھا اور جب ایک ہاتھ کا لوہا دوسرے ہاتھ کے لوہے سے ٹکراتا تھا، تب مقابلے کا منظر ہی کچھ اور ہوتا تھا۔ اس کے بعد جب بندوق بنی، تب جنگ دوسرے دور میں داخل ہوئی۔ اس دور میں کون بہادر ہے اور کون بزدل یا کون مضبوط ہے اور کون کمزور؟ اس جنگ میں ان سوالات کی اہمیت نہیں رہی۔ اس دور میں اہم بات یہ تھی کہ کس کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے؟ ایک بچے کے ہاتھ میں بھی پستول ہو، تو وہ دور سے ایک بہت بڑے پہلوان کو ڈھیر کر سکتا ہے۔ ایک عورت کے ہاتھ میں کلاشنکوف ہو تو وہ ایک درجن سے زیادہ مردوں کو پلک جھپکتے موت کی آغوش میں پہنچا سکتی ہے۔ دنیا کی پہلی قدیم بندوق سے لے کر آج کے جدید ترین ہتھیار کی ایجاد تک جنگ کا وہ دوسرا دور ختم نہیں ہوا، جس میں مقابلہ زور بازو کا نہیں، بلکہ ہتھیاروں کا ہے۔ یہ جنگ کا دوسرا دور ہے، جو ابھی تک چل رہا ہے۔ اس وقت عسکری سائنس نے ایسے ہتھیار ایجاد کیے ہیں، جن کو مارکیٹ میں پیش نہیں کیا گیا، مگر وہ ہیں ہتھیار اور ایسے ہتھیار، جو دشمن کو دور سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ہتھیاروں کے حوالے سے دنیا میں جنگ کے دو دور ہیں اور صرف ہتھیاروں کے حوالے سے نہیں، بلکہ غلط اور صحیح کے حوالے سے یعنی سچ اور حق کے تصورات کی روشنی میں بھی جنگ کی دو ہی اقسام ہیں۔ ایک جنگ وہ جس کو جارحیت کہتے ہیں اور دوسری جنگ وہ جو مزاحمت سمجھی جاتی ہے۔ جارحیت والی جنگ منفی اور مزاحمت والی جنگ اکثر اوقات مثبت سمجھی جاتی ہے۔ ایک جنگ وہ ہے، جو مظلوم لوگوں پر اس طرح مسلط کی جاتی ہے جس طرح مغربی قوتوں نے تاریخ کے تاریک دور میں ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک پر مسلط کی۔ اس دور میں ان مغربی ممالک نے اسلحہ، عسکری سائنس اور اس کے ساتھ مکمل طور بے حسی اور بے رحمی سے آزاد ممالک کو غلام بنایا۔ برسوں تک ان کے وسائل کو لوٹا اور انہیں ہر طرح سے استحصال کا نشانہ بنایا۔ مغربی ممالک کی وہ وحشت دوسری جنگ عظیم کے تابوت میں دفن ہونے کے بجائے آج بھی دنیا کے مظلوم براعظموں کے سروں پر منڈلاتی ہے۔ آج بھی جب عراق اور افغانستان پر بہانے بنا کر میزائلوں کی بارش کی جاتی ہے اور ان مظلوم ممالک کو محکوم بنانے کے لیے ان پر جس طرح کارپیٹ بمباری کی جاتی ہے۔ وحشت اور دہشت کا وہ عمل ثابت کرتا ہے کہ تاریخ میں جنگ کی تاریخ ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی۔ آج بھی حق اور باطل کے درمیان جنگ جاری ہے۔ وہ جنگ جو پچھلی صدی میں لڑی گئی، وہ جنگ جو اس سے بھی پچھلی صدی میں لڑی گئی۔ وہ جنگ جو تاریخ کے اس دور میں بھی لڑی گئی، جب مؤرخ موجود نہیں تھے۔ وہ جنگ آج بھی جاری ہے۔ اس جدید ترین دور میں وہ جنگ جاری ہے، جو ہاتھوں کے بجائے ہتھیار سے لڑی جاتی ہے اور جو جنگ یا تو کسی کو غلام بنانے کے لیے لڑی جاتی ہے یا اپنی آزادی حاصل کرنے یا اپنی آزادی کا تحفظ کرنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ دو ادوار کی دو اقسام والی جنگ کی اصل حقیقت اتنی سی ہے۔ مگر اس حقیقت کو چھپانے کے لیے افسانے بہت ہیں!! ٭
٭٭٭٭٭