ذہن سازی اور میڈیا کی ذمہ داری

ایک تیر سے دو شکار شاید پرانے زمانے کی بات ہے۔ اب جدید دور ہے، اس لئے تیر چلائے بغیر ہی کئی کامیاب شکار کھیلے جاتے ہیں۔ ابلیسی قوتوں نے داعش نامی جس تنظیم کی مشرق وسطیٰ میں بنیاد رکھی تھی، اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ جن مقاصد کیلئے سی آئی اے کی نرسری میں یہ زہریلا اور بدبودار پودا لگایا تھا، وہ پورے ہو چکے۔ اب یہ عفریت بھی آخری سانس لے رہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں ان دنوں داعش کی شکست کے بعد اس کے گرفتار جنگجوئوں کے انجام کی بحث چل رہی ہے۔ کینیڈا کے وزیر دفاع ہرجیت سنگھ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شام کی جیلوں میں قید سات سو غیر ملکی جنگجوئوں کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں اور نہ ہی ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی بات کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو چلی میں دہشت گردی کے خلاف منعقد ایک پریس کانفرنس سے تیرہ ممالک کے دفاعی شعبے کے عہدیداروں سے خطاب میں کیا۔ الجزیرہ کے مطابق شام کے شمالی علاقوں میں کرد ملیشیا ڈیموکریٹک فورس نے 46 ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجوئوں کو گرفتار کر رکھا ہے، جن میں 795 مرد، 548 عورتیں اور 1248 بچے شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر امریکہ، برطانیہ، روس اور کینیڈا سمیت چھیالیس ممالک کے وہ نو مسلم نوجوان ہیں، جنہیں گمراہ کرکے ہلاکت و فلاکت کے راستے پر ڈال دیا گیا۔ ہمارے یہاں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے بھی بہت سے نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے اسی راستے پر لگا دیا تھا۔ ہمارے یہاں چونکہ تعلیم و شعور کی کمی ہے، لیکن حیرت ہے کہ یورپ کے باشعور لوگ کس طرح ان شیاطین کے دھوکے میں آگئے؟ ان میں سے بیشتر نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، جو اسلام کی خدمت اور نشر و اشاعت میں ممد و معاون ہو سکتے تھے۔ مگر افسوس! داعش کے دہشت گردوں نے انہیں نام نہاد اسلامی خلافت کے جھانسے میں پھنسا کر آگ کا ایندھن بنا دیا۔ یہ تعداد صرف ان جنگجوئوں اور ان کے اہل خانہ کی ہے، جنہیں کرد ملیشیا نے گرفتار کیا ہے، جو ہزاروں جنگجو ہلاک ہوگئے یا جن سات سو جنگجوئوں کو شامی سرکاری فوج کی حراست میں لیا ہے، وہ اس کے علاوہ ہیں۔ جن ممالک سے ان کا ہے، وہ انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کرد ملیشیا انہیں زیادہ عرصے رکھنے کو رسک سمجھتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ انہیں اجتماعی موت کی نیند سلا دیا جائے۔ 2014ء میں جنگ زدہ شام کے ایک وسیع علاقے پر دولت اسلامیہ ’’داعش‘‘ کے جنگجوئوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ امریکا اور مغربی ممالک کی قیادت میں ڈیموکریٹک فورس نے شام میں داعش کے خلاف آپریشن کیا اور تنظیم کے سینکڑوں جنگجوئوں کو حراست میں لے لیا تھا۔ یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ داعش کو امریکا نے اپنے خاص مقاصد و مفادات کی خاطر داعش کو وجود بخشا تھا۔ اس تنظیم نے طوفان کی طرح پیش قدمی کرکے نہ صرف عراق بلکہ شام کے بھی کئی علاقوں پر قابض ہو کر خود ساختہ اسلامی خلافت کی بنیاد ڈالی۔ اس دوران پروپیگنڈہ مہم کے ذریعے دنیا بھر کے نوجوانوں خصوصاً نو مسلموں کو اپنا گرویدہ بنایا۔ جہاد کے نام پر یہ نوجوان جوق در جوق داعش کی صف میں شامل ہوتے رہے۔ اس شدت پسند نے ظلم و ستم اور بریریت کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ معمولی باتوں پر لوگوں کی گردن اڑانا اور زندہ جلانا ان کا وتیرہ بن گیا تھا۔ تکفیری ذہن کے ان شدت پسندوں نے انبیائے کرامؑ کی قبور تک کو نہیں بخشا، بلکہ مسجد نبویؐ پر بھی خود کش حملہ کیا اور مسجد حرام کو نشانہ بنانے کا ان کا منصوبہ ناکام بنایا گیا۔ داعش کے ذریعے طاغوتی قوتوں نے کئی کامیاب شکار کھیلے۔ مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں۔ بستیوں کی بستیاں اور شہروں کے شہر اجڑ گئے۔کچھ عرصہ عراق کے شہر موصل سے نو مہینے بعد داعش کا قبضہ چھڑایا گیا۔ اس دوران بیس ہزار شہری لقمہ اجل بنے۔ اب ملبے کے نیچے سے چار ہزار چھ سو ستاون افراد کی باقیات ملی ہیں۔ قبضے کے دوران جنگجو یرغمالی بچوں کو چار سو ڈالر میں فروخت کر تے رہے۔ داعش کے ذریعے خلافت اسلامیہ کا نام ایسے بدنام کیا گیا کہ اب شیطان بھی سن کر پناہ مانگے۔ فرقہ واریت کا زہر خوب پھیلا گیا۔ مغرب کے امن پسند مسلمانوں کو بھی مشکوک بنا دیا۔ مغربی میڈیا میں انہیں جہادی کا نام دے کر جہاد کو مزید بدنام کر دیا گیا۔ ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ اسلام جو مغرب میں تیزی سے پھیل رہا تھا، اس کی اشاعت کافی حد تک رک گئی۔ ظاہر ہے جو نو مسلم بھی اس راستے پر چلا اس کے علاقے کا کوئی بھی شخص اب اسلام قبول کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ مشرق وسطیٰ میں داعش کی تخلیق کا مقصد مکمل ہونے کے بعد اب امریکا افغانستان میں اس فتنے کو پروان چڑھا رہا ہے۔ بارہ ربیع الاول کے روز میلاد رسول جیسے مقدس عنوان سے کابل میں ہونے والی علماء کی کانفرنس پر خودکش حملہ کیا گیا، جبکہ یہ گمراہ لوگ وہاں کئی مساجد کو بھی نشانہ بنا چکے ہیں۔ اگرچہ ہمارے حکام ملک میں داعش کے وجود کی ہمیشہ نفی کرتے ہیں، لیکن گزشتہ دنوں اورکزئی ایجنسی میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری اس دہشت گرد تنظیم نے قبول کی ہے، جو خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس لئے ہمیں چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ عسکری مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان سے جنگ ہارنے کے بعد امریکا کو داعش کے ذریعے کامیابی کی کافی امید ہے اور یہی جنگجو اب طالبان کیلئے امریکی افواج سے زیادہ درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے علمائے کرام اور دینی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کی درست نہج پر رہنمائی اور ذہن سازی کریں، تاکہ وہ ہلاکت و فلاکت اور تباہی کے اس راستے پر جانے سے بچ جائیں۔ عوام کی ذہن سازی میں میڈیا بنیادی کردار کرتا ہے، مگر ہمارے الیکٹرونک میڈیا کو بھارتی فلمی اداکاروں کی خبروں سے ہی فرصت نہیں کہ عوام کی کیا خاک ذہن سازی کرے گا۔ میڈیا کو ملک کے مفاد سے کوئی سروکار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاک فوج کے ترجمان کو بھی کہنا پڑا کہ میڈیا صرف چھ ماہ تو اچھی خبریں دکھائے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ داعش سے وابستہ ہونے والے ان نوجوانوں کے انجام پر تفصیلی رپورٹیں نشر کی جائیں تاکہ ہمارے نوجوان بھی عبرت حاصل کریں اور دشمنوں کے جال اور چال سے خود کو بچالیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment