سرفروش

عباس ثاقب
اس سے پہلے کہ مانک اپنی زبان سے پھسل جانے والے الفاظ کو باتوں میں گھما پھرا کر ٹال دیتا، میں نے گمبھیر لہجے میں پوچھ لیا ’’تم نے بات ادھوری کیوں چھوڑ دی مانک؟ بتاؤ ناں، اگر شازیہ کو فروخت نہیں کیا گیا تو اس کا کیا بنا؟ کیا اسے تحفے کے طور پر مفت کسی حوالے کردیا گیا تھا؟‘‘۔
تاہم گرم لوہے پر چوٹ لگانے کی میری کوشش کچھ زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔ اس گھاگ شخص نے چند ہی لمحوں میں خود کو سنبھال لیا تھا۔ اس نے بے نیازی سے کہا ’’کچھ ایسا ہی سمجھ لیں بہادر سنگھ جی۔ اب اس کا ذکر چھوڑیں اور اس کی بہنوں کے بارے میں فیصلہ کریں۔ آپ کو ان میں سے کون سی زیادہ پسند آئی ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’یار مجھے تو دونوں ہی پسند آئی ہیں۔ لیکن تم جتنی رقم کا مطالبہ کر رہے ہو، وہ عقل مائوف کرنے والا ہے۔ بات صاف ہے مانک جی، ایک لڑکی کو حاصل کرنے کے لیے اچھے خاصے مکان کی قیمت تو کوئی پاگل ہی ادا کرے گا۔ اگر سچ مچ ان لڑکیوں کے تیس اور چالیس ہزار روپیے لگ چکے ہیں تو تم لوگوں نے وہ رقم قبول نہ کر کے بے وقوفی کی‘‘۔
مانک نے میری بات سن کر قدرے جھنجلائے ہوئے لہجے میں کہا ’’آپ تو کہہ رہے تھے کہ اگر لڑکی پسند آگئی تو منہ مانگی رقم دے سکتے ہیں، اور…‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’میری بات غور سے سنو مانک۔ بے شک میں اپنی پسند کا مال حاصل کرنے کے لیے رقم کی پروا نہیں کرتا، لیکن میں کسی راجا، مہاراجا یا نواب کا نہیں، ایک کاروباری شخص کا بیٹا ہوں اور محنت سے کمائے ہوئے پیسے کی قدر جانتا ہوں۔ اگر تم میرے اشتیاق اور ذوقِ جمال کے بل پر مجھے لوٹ لینے کی امید لگا بیٹھے ہو تو یہ تمہاری غلطی ہے۔ ایسے دام بتاؤ جو مناسب ہوں۔ تم دیکھو گے کہ میں سودا کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاؤں گا‘‘۔
میری بات سن کر وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا، جیسے کچھ حساب کتاب لگانے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’میں آپ کو مٹھو سنگھ کی ڈیمانڈ بتا چکا ہوں۔ لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ آپ جیسے حقیقی گاہک بار بار نہیں ٹکراتے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ یہاں سے خالی ہاتھ نہ جائیں۔ ایسا کریں کہ آپ چھوٹی یعنی جمیلہ کے پینتیس دے دیں۔ اگر رخسانہ پسند ہے تو وہ پچیس ہزار میں ساتھ لے جاسکتے ہیں۔ میں مٹھو سنگھ کو اتنے داموں پر تو راضی کرلوں گا۔ لیکن یقین کریں مزید رعایت کی بالکل گنجائش نہیں ہے‘‘۔
مجھے ان مظلوم لڑکیوں کے بارے میں اس طرح کا بھاؤ تاؤ سخت اذیت دے رہا تھا۔ لیکن میں معاملے کو زیادہ سے زیادہ فطری رنگ دینا چاہ رہا تھا۔ مانک میرا فیصلہ جاننے کے لیے بے تابی سے میرا چہرہ تکتا رہا۔ آخر اس نے پوچھ لیا ’’تو پھر آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے ؟‘‘۔
میں نے کہا ’’یار، اب بھی تم بہت زیادہ رقم مانگ رہے ہو۔ اچھا یہ بتاؤ، کیا تم پینتالیس ہزار میں یہ دونوں کشمیری حسینائیں مجھے سونپ سکتے ہو؟ دراصل میں ان میں سے کسی ایک کے حق میں فیصلہ نہیں کر پارہا!‘‘۔
اس نے چونک کر کہا ’’پینتالیس ہزار؟ دونوں کے؟ یہ تو بہت کم ہیں۔ مٹھو سنگھ جی ہرگز نہیں مانیں گے‘‘۔
میں نے بے نیازی سے کہا ’’اسے راضی کرنا تمہارا دردِ سر ہے۔ میں بہرحال اتنی ہی رقم دے سکتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر میں نے جیب تھپتھپائی اور اسے حرص دلانے والے لہجے میں کہا۔ ’’اگر منظور ہے تو ابھی سودا پکا کرلیتے ہیں۔ مجھ سے بیعانہ لے لو۔ ورنہ میری طرف سے معاملہ ختم سمجھو۔ میں اس سے ایک اکنی فالتو نہیں دوں گا۔ جی چاہے تو اپنے مٹھوسنگھ جی سے بات کرلو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے میں نے تپائی پر رکھے ٹیلی فون کی طرف اشارہ کیا۔
مانک نے میری تجویز کے برعکس ٹیلی فون کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا ’’دیکھو بہادر سنگھ جی، مجھے اتنے چھوٹے چھوٹے معاملوں میں مٹھو سنگھ کو تنگ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں ان کے کہے بغیر ان کی مرضی جانتا ہوں۔ آپ کو رقم بڑھانا پڑے گی… ایسا کریں پچاس ہزار دیں اور دونوں لڑکیاں ساتھ لے جائیں!‘‘۔
اس رقم سے ایک مناسب قسم کا مکان خریدا جا سکتا تھا، لیکن میں اب اس تکلیف دہ سودے بازی کو مزید آگے نہیں بڑھانا چاہتا تھا، لہٰذا میں نے کہا ’’ٹھیک ہے، تو سودا طے ہوگیا۔ میں تمہیں دس ہزار روپے بطور بیعانہ دے رہا ہوں۔ باقی رقم دو دن بعد تمہیں مل جائے گی‘‘۔
میری بات سن کر مانک کے چہرے پر گویا پھول ہی پھول کھل گئے۔ ’’بالکل ٹھیک ہے بہادر سنگھ جی۔ اب وہ دونوں میرے پاس آپ کی امانت ہیں۔ مجھے بتادو کہ کس وقت آپ کا انتظار کروں‘‘۔
میں نے پہلے سے تیار کر کے اپنے پاس رکھی ہوئی دس ہزار روپے کی موٹی سی گڈی اس کے ہاتھ میں دے دی۔ اس نے بلا تکلف میرے سامنے ہی نوٹ گننے شروع کر دیئے۔ میں نے اس کی مال کی حرص و ہوس پر لعنت بھیجتے ہوئے کہا ’’میں پرسوں شام باقی رقم سمیت یہیں پہنچوں گا۔ ان دونوں کو تیار رکھنا‘‘۔
اس نے نوٹوں کی گنتی جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’اب وہ آپ کی ہیں سردار جی۔ آج لے جائیں یا پرسوں‘‘۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment