جنرل سیسی کے منحوس سائے تلے مصر بھی پاکستان جیسے مشکل اقتصادی حالات سے دوچار ہے۔ دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ مصر پر بھی بیرونی قرضے پاکستان کی طرح 92 ارب ڈالر ہیں۔ صرف چند کروڑ کا فرق ہے۔ مصر بھی کبھی ورلڈ بینک اور کبھی آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر کشکولِ گدائی لئے کھڑا نظر آتا ہے۔ مصری وزیر اعظم مصطفیٰ مدبولی کی حکومت بھی معیشت سدھارنے کے لئے مختلف پلان تشکیل دے کر ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔وہاں بھی نت نئی تجاویز سامنے آرہی ہیں۔ گزشتہ دنوں مصری پارلیمنٹ کی رکن محترمہ مارگریٹ عازر نے حکومت کو نہایت صائب مشورہ دیا ہے، جس سے امید ہے کہ ملکی معیشت کی ڈولتی کشتی کنارے نہ بھی لگی، ڈوبنے سے بچ جائے گی۔ الجزیرہ کے مطابق مارگریٹ عازر نے پارلیمنٹ میں تجویز پیش فرمائی کہ کیوں نہ ہم ملک بھر کے آوارے کتوں کو جمع کریں اور پھر کتا کھانے والے ممالک مثلاً کوریا کو فروخت کر کے اچھا خاصا زرمبادلہ کمائیں، جس سے ملکی معیشت کو اچھا سہارا مل سکتا ہے۔ مصری سڑکوں میں بھی آوارہ کتوں کی ایسی ہی بہتات ہے، جیسے نئے پاکستان میں۔ مارگریٹ کی اس تجویز پر اگرچہ جانوروں کے حقوق کی تنظیموں نے اعتراض کیا ہے۔ تاہم ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق ماہرین معیشت اس اہم نکتے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں، بلکہ کوریا سے اس حوالے سے مذاکرات کا بھی امکان ہے۔
جنوبی کوریا میں کتے بڑے پیمانے پر کھائے جاتے ہیں۔ Dog Meat کورین باشندوں کی فیورٹ غذا ہے۔Korean Animal Rights Advocates (کارا) کے مطابق کورین سالانہ 7 لاکھ 80 ہزار سے 10 لاکھ کتے چٹ کر جاتے ہیں۔ اس تعداد میں ہر سال 20 سے 30 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر کورین باشندہ اوسطاً دو سو ڈالر ماہانہ کتے کا گوشت خریدتا ہے۔ کوریا میں کتے کا گوشت 18 ڈالر (2213 روپے) کا کلو ہے۔
قبل اس کے کہ مصر اس معاملے میں سبقت لے جائے، ہماری نئی حکومت کو چاہئے کہ فوراً کوریا وفد بھیج دے۔ پاکستان میں کورین سفیر سے بھی بات کی جا سکتی ہے۔ سی این این کے مطابق کوریا میں کتوں کی بہت زیادہ قلت ہو گئی ہے۔ اس لئے امید ہے کہ اچھا دام مل جائے گا۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ آوارہ کتوں سے شہریوں کی جان چھوٹ جائے گی، جو آئے روز بچوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ دوسرا معیشت کو سہارا مل جائے گا۔ ظاہر ہے جب چند بھینسیں معیشت سدھارنے میں اپنا ’’لازوال‘‘ کردار ادا کر سکتی ہیں اور اب مرغیاں بھی میدان میں اترنے والی ہیں تو لاکھوں کتوں کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ مشکل وقت میں جب آپ کڑوا گھونٹ پینے اور سود خور اداروں کے سامنے دست ِ سوال پھیلانے کا فیصلہ کر سکتے ہیں تو اپنے ہی ’’ہم وطن‘‘ کتوں کی ’’خدمات‘‘ حاصل کیوں نہیں کر سکتے؟ آخر پی ٹی آئی کی سابقہ کے پی حکومت بھی تو چین کے ساتھ گدھوں کی تجارت کر رہی تھی تو اس کی وفاقی حکومت کے لئے کتا فروشی بھی کسی عار کا باعث ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ نئے پاکستان میں تو کتے ہیلی کاپٹروں میں بھی سفر کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس لئے بحری جہازوں کا سفر بھی انہیں بہ آسانی کرایا جا سکتا ہے۔ کوریا کی 2 سال کی ضرورت کو صرف کراچی کے کتے ہی پورا کر سکتے ہیں۔ کراچی کے قریب ’’بڈو‘‘ نامی ایک جزیرہ ہے، جو صرف کتوں سے آباد ہے۔ جہاں 35 ہزار سے زائد کتے موجود ہیں۔ جبکہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق کراچی میں تعدادِ سگاں 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اس تجویز پر امید ہے کتوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا کہ اس بہانے انہیں بھی بیرون ملک جانے اور سیر و تفریح کرنے کا موقع میسر آئے گا اور ویسے بھی کسی ٹرک کے نیچے آکر کتے کی موت مرنا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ بیرون ملک جا کر عزت سے کسی ڈش کی زینت بنا جائے۔
٭٭٭٭٭