یہ کیسا تماشہ ہے۔ اگر اسے چوہے بلی کا کھیل نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ شواہد ہیں کہ انسداد تجاوزات مہم میں ایک روز تو متعلقہ اداروں کا عملہ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پرقابض مافیا کو بھگاتا اور تجاوزات مسمار کرتا ہے، مگر اگلے ہی روز قابضین انہی جگہوں پر پہلے سے زیادہ منظم انداز میں براجمان اپنی کاروباری سرگرمیاںجاری رکھے ملتے ہیں۔ کراچی کے صدر مقام، ایمپریس مارکیٹ، برنس روڈ اور اس کے اطراف جہاں ریکارڈ توڑپھوڑ کی گئی، وہاں اب پختہ دکانوں کے بجائے دوسرے قابض منظرنامے ظہور پذیر ہیں اور موجودہ صورت حال پہلے سے بھی زیادہ گمبھیر نظر آرہی ہے۔
صدر ایمپریس مارکیٹ کے اطراف گلیوں اور فٹ پاتھوں کا حال یہ ہے کہ پہلے اگرکسی گلی، فٹ پاتھ پر، پرانے کپڑے فروخت کرنے والے ٹھیلوں کی دو لائنیں لگتی تھیں، تو اب وہاں تین لائنیں لگا کرقابض مافیا کاروبار کررہی ہے۔ سپریم کورٹ کے سخت احکامات کے باوجود یہ یہ صورت حال سمجھ سے بالاتر ہے۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ایک معمولی پتھارا لگانے والا اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات کو بھی نہیں مان رہا۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ دوبارہ سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر یہ قبضے پولیس کے علاوہ کوئی اور نہیں کرا سکتا، کیوں کہ پولیس کا پورے شہر میں بھتے اور رشوتوں کے حوالے سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ وہ اسے توڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی، خواہ اسے اعلیٰ عدلیہ ہی تنبیہ کیوں نہ کرے۔ ابھی کچھ روز ہی گزرے ہیں جب لاہور میں منشا بم کی جانب سے زمینوں پر قبضے کے ایک کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے پولیس کے محکمے کی سخت الفاظ میں سرزنش کی تھی، مگر مجال ہے جو پولیس حکام نے اسے سنجیدہ لیا ہو۔ سب کام جوں کے توں جاری ہیں اور یہی معاملات سپریم کورٹ کے احکامات کو بھی چیلنج کر رہے ہیں، پولیس کی بھتہ خوری کے سبب قابضین متعلقہ اداروں کے ذمہ داروں کو منہ چڑا رہے ہیں۔
مین ایمپریس مارکیٹ جس کے اطراف سے سینکڑوں دکانوں کا صفایا کیا گیا تھا، شواہد ہیں کہ وہاں پارکنگ مافیا کا قبضہ کرا دیا گیا ہے۔ اطراف کے گلی کوچے اور فٹ پاتھوں پر دوبارہ ٹھیلے اور ریڑھیاں لگا کر عوام کی چلت پھرت مسدود کردی گئی ہے۔ پارکنگ پلازہ سے متصل پوری اسٹریٹ ایک بار پھر فروٹ منڈی کا روپ دھار چکی ہے۔ صدر کے سابقہ بس اسٹینڈ کا وسیع احاطہ جس میں ٹریفک پولیس نے بھی قبضہ کرکے اپنی چوکی قائم کر رکھی ہے، توڑ پھوڑ اور صفائی کے بعد اب وہاں بھی ٹھیلے، پتھارے لگ گئے ہیں۔ اسی احاطے کے باہر کی جانب اور وہاں موجود چرچ کے قریب موڑ پر رکشوں کو پارکنگ کی اجازت پھر سے دے دی گئی ہے۔ اس موڑ پر اس طرح رکشوں کی پارکنگ سے متصل کالج اور چرچ دونوں کے لئے خطرات ہر وقت منڈلاتے رہتے ہیں، مگر کسی کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ صدر سے جٹ لینڈ لائنز جانے والی سڑک، جس کے دونوں جانب کئی کالج اور اسکول ہیں، وہاں بھی صبح ہی سے سڑک کے دونوں جانب طلباء کو کالج لانے لے جانے والی گاڑیاں ٹریفک پولیس کے تعاون سے پارک کی جا رہی ہیں، یوں پبلک ٹرانسپورٹ کا وہاں سے گزرنا محال ہے۔ تعلیمی اداروں کی چھٹی کے اوقات میں تو وہاں صورت حال قابو سے باہر ہوتی ہے۔ یہ روز کی کہانی ہے۔ پارکنک پلازہ کے لیفٹ موڑ پر عین سڑک سے متصل دونوں جانب ٹھیلے والے صبح سے ہی پولیس کی آشیر باد سے قبضہ کر لیتے ہیں، جس کے سبب لوگوں کو اپنی گاڑیاں تک موڑنا محال ہوتا ہے۔ سی آئی اے سینٹر کے عقب میں سُرجیکل مارکیٹ کے دکانداروں نے چھوٹی سی سڑک پر جہاں دوطرفہ ٹریفک بھی پھنس کر چلتی ہے،کئی کئی فٹ تک دکانوں کا سامان رکھ چھوڑا ہے۔ گرومندر تا لسبیلہ چوک، سڑک کے دونوں جانب پل کی تعمیر کے سبب رکشہ، ٹرک اور واٹر ٹینکر والوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ گرومندر کے نیوٹاؤن موڑ پر عین سڑک پر فروٹ فروشوں نے بھی پھر سے قبضہ جمالیا ہے۔ جمشید روڈ، تین ہٹی اور لیاقت آباد کی مین سڑکوں کا بھی برا حال ہے، جہاں دکانداروں نے پندرہ سے بیس بیس فٹ کی فٹ پاتھوں کو گھیر کر اپنی دکانوں کا سامان ان پر سجایا ہوا ہے۔ مین عائشہ منزل چورنگی سے متصل فرنیچر مارکیٹ کے دکانداروں نے ذیلی سڑک پر قبضہ کر کے اس پر ٹین کے شیڈز ڈال رکھے ہیں، جسے انہوں نے فرنیچرز کا ڈسپلے ایریا بنا رکھا ہے۔ ابھی کسی ادارے نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ لنڈی کوتل چورنگی سے متصل گراؤنڈ جہاں اسفالٹ پلانٹ نصب ہے، اس کی بیرونی دیوار کے ساتھ دور تک فروٹ فروشوں نے دکانیں اب تک قائم کر رکھی ہیں، سامنے کی رو میں چلتی سڑک کا آدھا حصہ موٹر مکینکوں نے گھیر رکھا ہے، عین سڑک پر ہی وہ کاروں کی مرمت کرتے نظر آتے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ جام رہتی ہے۔ لنڈی کوتل سے فائیو اسٹار چورنگی تک قائم فود اسٹریٹ کی ذیلی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر اب بھی فاسٹ فوڈز والوں کا قبضہ برقرارہے، بس اتنا ہوا کہ دکانوں اور ہوٹلز سے شیڈز وغیرہ نکال لئے گئے، مگر قبضے انہی حدود میں برقرار ہیں، فائیو اسٹار چورنگی سے سخی حسن قبرستان تک بنے میرج ہالز کے سامنے بنے اونچے اونچے فرش توڑ دیئے گئے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ کارروائی کی گئی ہے، مگر شام ہوتے ہی میرج ہالز کے سامنے ذیلی سڑک پر شادی بیاہ والی پارٹیوں کی کار پارکنگ شروع ہو جاتی ہے اور اسی سڑک پر ہالز کی انتظامیہ چولھے لگا کر شادی کے لئے کھانے بھی تیار کر رہی ہوتی ہے، رش بڑھنے پر گاڑیوں کی پارکنگ مین روڈ پر ڈبل لائن بھی کرا دی جاتی ہے، جس کے سبب اس روڈ سے گزرنے والی پبلک ٹرانسپورٹ اور ایمبولینسز کو سخت دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ فاروق اعظم مسجد سے اندر جانے والی دوطرفہ سڑک ہی نہیں، ہر گلی کی سڑک رہائشی مکینوں نے گھیر رکھی ہے، مکینوں نے گھروں کے آگے فٹ پاتھ تک اور بعض نے تو گاڑیوں کے حجم کی مناسبت سے کئی کئی فٹ سڑک تک لوہے کے جنگلے لگا رکھے ہیں، جن میں ان کی گاڑیاں پارک ہوتی ہیں، دن اور شام کے اوقات میں یہ جنگلے خالی پڑے رہتے ہیں اور گاڑیاں ان کے بھی باہر پارک کرکے سڑک برائے نام ہی چھوڑی جاتی ہے۔فائیو اسٹار چورنگی سے شپ آنرز کالج تک سڑک کے دونوں جانب کی گرین بیلٹ اور فٹ پاتھوں پر قبضہ کرکے اسکول اور ٹیوشن سینٹرز بنالئے گئے ہیں اور لوگ براہ راست سڑک پر چلنے پر مجبور ہیں۔ اسی اسٹریٹ پر فاسٹ فوڈز والوں نے اپنی دکانوں کے شیڈز وغیرہ تو ازخود اتار لئے ہیں، مگر سابقہ جگہوں تک زمینی قبضے جوں کے توں برقرار ہیں، یہ دکاندار اب کھلے آسمان تلے ہی غیر محفوظ طریقے سے کھانے پینے کی اشیاء تیار کرکے فروخت کر رہے ہیں، جو صحت عامہ کے حوالے سے نہایت ہی خطرناک عمل ہے۔
بغور دیکھا جائے تو نتیجہ یہی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تجاوز کی گئی حدود پر قبضے حسب سابق برقرار ہیں، نارتھ ناظم آباد میں انتظامیہ جس دن سے دکانداروں اور مکینوں کو نوٹس دے کر گئی ہے واپس نہیں پلٹی، شاید اس نے قبضہ گیروں کو آسرا دے رکھا ہے کہ کچھ دن صبر کرو، معاملات پھر سے تمہارے حق میں ہوں گے، اس سلسلے میں شہر کے مختلف مقامات سے ایسی خبریں بھی مل رہی ہیں کہ کے ایم سی کے ڈی اے کے بعض راشی اہل کار بھتوں کے عوض قبضوں کو مختلف حیلے بہانے سے برقراررکھے ہوئے ہیں، ایسی اطلاعات کی تصدیق وزیر بلدیات سندھ سعید غنی بھی ہفتے کی شب ایک ٹی وی پروگرام میں کرتے پائے گئے۔
قبضوں سے واگزاری کی کہانی روز بروز پیچیدہ بنائی جا رہی ہے، معاملات کو دانستہ دکانوں، سڑکوں اور شاہراہوں سے رہائشی عمارتوں تک لے جانے کے پیچھے بھی مال بناؤ کہانی کی اطلاعات ہیں، جس میں چھوٹے نہیں بڑے کرداروں کے نام آرہے ہیں۔ وفاق، سندھ حکومت اور خود بلدیہ کراچی بھی تجاوزات مسماری رکوانے میں پیش پیش ہے، اس حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں، یہ بھی عجیب کہانی ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کے متاثرہ دکاندار سپریم کورٹ چلے گئے ہیں، یہ اور ایسے دیگر معاملات کچھ یوں الجھا دیئے گئے ہیں، جس کے بعد قبضہ مافیا کو امید ہو چلی ہے کہ وہ بچ جائیں گے، کیوں کہ ان کے سرپرست بھی ان کی پشت پر آچکے ہیں۔
گستاخی معاف! تجاوزات کے حوالے سے ایک بار پھر گوٹ سپریم کورٹ کے ’’کورٹ‘‘ میں ہے، دیکھیں فیصلہ کیا ہوتا ہے، ویسے سپریم کورٹ کے معزز جج ہی نہیں، شعور و آگہی رکھنے والا ہر شہری اچھی طرح جانتا ہے کہ کراچی بلکہ پورے سندھ میں گزشتہ چار دہائیوں سے کیا ہوتا چلا آرہا ہے؟ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں تبدیل کرنے کی ضرورت کسے اور کیوں پیش آئی؟ زمینوں اور سرکاری املاک پر کس نے اور کس کس طرح قبضے کئے اور ان کے مقاصد کیا تھے۔ اب جو یہ تجاوازات مسماری اور زمینوں کی واگزاری مہم نے زور پکڑا ہے تو کس کس کے مفادات پر چوٹ پڑ رہی ہے اور کس طرح اس مہم کو ناکام بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ شہر میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے اسے دیکھتے ہوئے حافظ جی سمجھتے ہیں کہ تجاوزات کی آڑ میں حکومت، انتظامیہ، بلدیاتی اداروں اور قابضین کے درمیان کھیلا جانے والا چوہے بلی کا کھیل ختم ہونا چاہئے۔ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس بہتر جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا آڈرز دیئے تھے اور ان پر کس طرح عمل درآمد ہونا چاہئے۔ امید ہے کہ اس حوالے سے کوئی واضح لائن ڈرا کی جائے گی تاکہ عوام اور متاثرین میں پھیلی بے چینی کا خاتمہ ہو سکے، مگر سڑکوں سے ہر قسم کی رکاوٹیں اور گلی محلوں سے تجاوزات کا صفایا بہر حال ضرور ہونا چاہئے، باقی جو حکم عدالت کا۔
(وما توفیقی الاباللہ)