غریبوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کا منصوبہ

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پاکستان میں علاج وہی کرا سکتا ہے جو مالدار یا بااثر ہو۔ غریب کا اچھا علاج نہیں ہوتا، حالانکہ یہ اس کا حق ہے۔ طبی سہولتوں کی مخدوش صورتحال ریاست کی ناکامی ہے۔ معاشرے کے بیمار افراد کا علاج حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس نظام میں بہتری لانے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ صحت کے شعبے میں حکومتی فنڈز بہت کم ہیں اور وہ بھی درست استعمال نہیں ہوتے۔ طب کی تعلیم بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے، مگر ہم ڈاکٹروں سے زیادہ اتائی پیدا کر رہے ہیں۔ کئی نجی میڈیکل کالجوں میں جاکر دیکھا تو بتایا گیا کہ پڑھانے والا کوئی نہیں، لیکن طالبعلم وہاں سے ڈاکٹر بن کر نکلتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں علاج کے لئے بنیادی آلات اور سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ پانی اور غذا کے بعد ہر انسان کی بنیادی ضرورت اس کی صحت ہے، لیکن ماضی سے آج تک اس جانب کسی حکومت نے توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ ہم ان کالموں میں بار بار زور دے رہے ہیں کہ حکومت اگر ملک، معاشرے اور عوام میں تبدیلی لانے کے لئے واقعی مخلص ہے تو سب سے پہلے اسے ترجیحات کا تعین کرنا چاہئے۔ صاف پانی اور مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے عام شہریوں کی صحت خراب ہوتی ہے اور جب وہ اسپتالوں سے رجوع کرتے ہیں تو وہاں علاج معالجے کی بنیادی سہولتیں ہی دستیاب نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کا ہتک آمیز رویہ ہر شہری کا روزمرہ کا مشاہدہ ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے سینئر ڈاکٹر اگر دوچار مریضوں کو دیکھ لیں تو وہ گویا ان پر بڑا احسان کرتے ہیں۔ یہی ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کے دوران اپنا رویہ بھی درست رکھتے ہیں اور خوب مال بٹور کر وہی علاج کرنے میں کامیاب بھی رہتے ہیں، جو انہیں سرکاری اسپتالوں میں کرنا چاہئے۔ نجی اسپتال لوٹ مار کا سب سے بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ جہاں علاج کرانے کا کوئی غریب مریض تصور بھی نہیں کرسکتا۔ نتیجہ یہ کہ لوگ سرکاری اسپتالوں کے چکر لگا لگا کر یا ان کے باہر کئی کئی دنوں تک پڑے رہنے کے بعد بالآخر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ میڈیکل کالجوں سے جو طلبا پڑھ کر فارغ ہوتے ہیں، وہ دوران تعلیم بھی ضروری رہنمائی سے محروم ہوتے ہیں اور اسپتالوں میں ملازمت کے دوران بھی سینئر ڈاکٹروں کی توجہ انہیں حاصل نہیں ہوتی۔ حکومتوں نے مریضوں سے جان چھڑانے اور اپنی شہرت کی خاطر غریبوں کو ہیلتھ کارڈ جاری کرنے ڈرامہ رچا رکھا ہے۔ اس کی آڑ میں سرکاری فنڈز کی خورد برد عام ہے اور اس سے غریبوں کو برائے نام ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ وفاقی وزیر صحت عامر محمود کیانی کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی خواہش پر صحت کارڈز کے دائرئہ کار میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ جس کے تحت ان کارڈز کے ذریعے غربت کی لکیرے سے نیچے زندگی گزارنے والوں کو غیر معمولی اخراجات سے مالی تحفظ فراہم کیا جائے گا اور وہ سات لاکھ بیس ہزار روپے تک کا علاج کرا سکیں گے۔ اپنی پسند کے کسی بھی سرکاری یا نجی اسپتال میں علاج کرانے کی انہیں سہولت حاصل ہوگی۔ وفاقی وزیر صحت کے مطابق اس اسکیم پر عملدرآمد سے ایک کروڑ چالیس لاکھ خاندانوں یعنی تقریباً آٹھ کروڑ افراد کا اندراج ہوگا۔
وفاقی وزیر صحت عامر محمود کیانی کو تو شاید یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ وطن عزیز میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد اور خاندانوں کی تعداد کتنی ہے اور یہ کہ ان سے اوپر متوسط طبقے کے لوگ بھی سرکاری اسپتالوں سے مایوس ہوکر نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، جو وہاں کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس حقیقت کا اظہار چیف جسٹس ثاقب نثار نے کیا ہے کہ پاکستان میں وہی شخص علاج کراسکتا ہے جو یا تو دولتمند ہو یا اثر و رسوخ رکھتا ہو۔ حیرت انگیز طور پر سرکاری اسپتالوں میں بھی ان دو طبقوں کے مریضوں ہی پر پوری اور ضروری توجہ دی جاتی ہے، جبکہ وہاں غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ غربت اور امراض کے خاتمے کے لئے علیحدہ علیحدہ پروگراموں کے ڈرامے رچا کر رقوم خرچ کرنا ہمیشہ لا حاصل رہا ہے۔ اس سے اگر مثبت نتائج حاصل کئے جاسکتے تو آج ملک بھر میں شاید کوئی بھی غریب اور علاج کی بنیادی سہولتوں سے محروم نظر نہ آتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس قسم کی شعبدے بازی بند کرکے معاشرے میں انصاف، دیانتداری اور سادگی کے کلچر کو فروغ دیں، جس کا آغاز اعلیٰ طبقوں سے ہونا چاہئے۔ انہیں پابند کیا جائے کہ کوئی خاندان مثلاً چار سو گز سے زائد کے مکان میں نہیں رہے گا، ان کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کریں گے اور مریض سرکاری اسپتالوں سے عام شہریوں کی طرح علاج کرائیں گے۔ صرف اسی ایک پابندی سے تعلیمی اداروں اور اسپتالوں سمیت ملک بھر کے تمام سرکاری ادارے ٹھیک اور فرض شناس ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف اور عمران خان نے برسر اقتدار آتے ہی پیٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ملک بھر میں مہنگائی کا سیلاب برپا کر دیا ہے۔ ہر شے روزمرہ کی بنیاد پر مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ جنوری 2018ء کے مقابلے میں اس وقت ڈالر کی قیمت ایک سو چار سے بڑھ کر ایک سو چالیس روپے تک پہنچ گئی ہے، جس کی وجہ سے تمام درآمدی سامان اور خام مال کے نرخ کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ عام اشیاء کی قیمتوں اور پیدواری لاگت میں اضافے سے دوا سازی کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ماہرین کے ان اندیشوں کے پیش نظر کہ موجودہ حکومت کی یہی پالیسی برقرار رہی تو ڈالر ایک سو ساٹھ روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان حالات میں دواؤں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ناگزیر ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کے مطابق ادویہ میں استعمال ہونے والا نوے فیصد میٹریل درآمد شدہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ چند روز میں بجلی پینتالیس فیصد، گیس پینسٹھ فیصد اور ڈیزل پچھتر فیصد مہنگا ہونے کی وجہ سے دوا سازی کی صنعت مزید نقصان برداشت نہیں کرسکتی۔ اگر حکومت نے توجہ نہ دی تو دواؤں کے نرخوں میں چالیس فیصد تک اضافہ کرنا پڑے گا۔ دوا ساز کمپنیوں کا مؤقف بجا، لیکن غریب عوام کو یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ وہ اپنی آمدنی کیسے بڑھائیں؟ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے یہ طے کرلیا ہے کہ ملک بھر کے غریب طبقوں کو خوراک اور علاج کے معاملے میں صحرائے تھر، یعنی موت کے منہ میں دھکیل دیا جائے؟ ریاست مدینہ کے نام پر نئے پاکستان کے دعویدار موجودہ حکمران اگر یہی کچھ چاہتے ہیں تو کھل کر بیان کر دیں تاکہ عوام تبدیلی کے لئے خود اٹھ کھڑے ہوں۔

Comments (0)
Add Comment