کوالالمپور کی کہانی (حصہ اول)

موسم خوشگوار تھا، میں علی کی گاڑی میں کوالالمپور کی سڑکوں پر سفر کرتا ہوا ان کی زندگی کی کہانی سن رہا تھا۔ میں بھی درمیان میں انہیں اس شہر کے مختلف علاقوں اور سڑکوں کے ماضی کی کہانی سناتا رہا۔ علی اس شہر میں 1994ء میں آئے تھے اور میں نے ان سے بھی پچیس برس قبل یہاں آنا شروع کیا تھا۔ بلند عمارتوں، کارخانوں، یونیورسٹیوں، اسپتالوں اور پارکوں کا یہ شہر پرانا نہیں ہے۔ شہروں کی تاریخ میں یہ شہر گویا کل کی بات ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کوالالمپور اس علاقے کا قدیم شہر ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارا قصبہ نیو ہالا اور بھٹ شاہ اس سے قدیم ہیں، ہالا پرانا تو کہیں زیادہ قدیم اور ’’بزرگ‘‘ شہر ہے۔
حیدرآباد، مٹیاری، ٹھٹہ، جیسلمیر، گرنار اور بیکانیر وغیرہ کا ذکر شاہ لطیف نے اپنے اشعار میں کیا ہے۔ یہ انتہائی پرانے اور قدیم شہر ہیں۔ شاہ لطیف جنوبی چینی سمندر کی جانب نہیں گئے۔ اگر وہ جاتے بھی تو زیادہ سے زیادہ ملائیشیا کے شہر ملا کا ذکر کرتے۔ اس وقت اگر کوئی ان سے پوچھتا کہ ’’شاہ صاحب! پینانگ، سنگاپور اور کوالالمپور کی کوئی خیر خبر؟‘‘ تو وہ خود حیران رہ جاتے کہ یہ کیسے نام ہیں، کیوں کہ ان ایام میں ان شہروں کا وجود نہیں تھا۔
شاہ لطیف1689 ء میں پیدا ہوئے۔ اس سے تقریباً ایک صدی قبل یعنی 1771ء میں غلام شاہ کلہوڑو کی وفات پر آنے والے لوگوں سے یا اس سے تقریباً سوا صدی متذکرہ بالا شہروں کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ بھی حیران رہ جاتے۔ وہ کینٹن، کیوٹو، رنگون اور کولمبو کے بارے میں ضرور کہتے کہ انہوں نے یہ نام سنے ہیں، لیکن پینانگ، سنگاپور اور کوالالمپور کے لیے حیرت کا اظہار کرتے۔ کیوں کہ یہ شہر کوالالمپور، جہاں آج آپ یورپ جیسے ہوٹل، مونوریل اور الیکٹرک ٹرامیں دیکھتے ہیں، اس پورے علاقے میں 1850ء تک صرف دلدل اور کیچڑ تھا۔ جنگل اور ملیریائی مچھر تھے۔ سانپ، بچھو اور جانور تھے، جابجا گڑھے اور ان میں کھڑا پانی تھا، کوئی پختہ عمارت تو دور کی بات، وہاں کوئی جھونپڑی بھی موجود نہیں تھی۔ البتہ آج کے اس شہر کوالالمپور سے 32 کلومیٹر مغرب میں کیلانگ نامی ایک شہر ضرور موجود تھا، جو اب کلانگ کہلاتا ہے۔ اس کے قریب، تقریباً چھ کلومیٹر کے فاصلے پر بندرگاہ بھی تھی، اس بندرگاہ کو بعد میں انگریزوں کی حکومت میں پورٹ سویٹنہام کہا گیا، لیکن اب دوبارہ اسے پورٹ کلانگ کہا جاتا ہے۔
آج کا یہ مغربی ملائیشیا، جو ان ایام میں ملایا کہلاتا تھا، مختلف ریاستوں میں تقسیم تھا۔ آج کا کوالالمپور، پتراجایا، سبانگ جایا، شاہ عالم اور کلانگ کے علاقے سلینغور ریاست میں آتے تھے۔ پورا ملائیشیا ایک گھنا جنگل تھا اور ایسے گھنے جنگلوں میں لوگوں کی آمد و رفت صرف دریاؤں کے ذریعے ممکن تھی، جن میں کشتیاں چل سکتی تھیں۔ یہی سردار اور ریاستی سلطان اب باری باری پورے ملائیشیا کے بادشاہ بنتے ہیں۔
انیسویں صدی کے آغاز کی بات ہے۔ دنیا کے کارخانوں اور فیکٹریوں میں دھات کی ضرورت بڑھنے لگی۔ ایسے میں ملایا کے کچھ علاقوں، خاص طور پر پیراق کی اطراف میں قلعی یعنی ٹن (Tin) کی کانیں دریافت ہوئیں، جس سے اس علاقے کے ملئی جاگیردار اور سردار امیر ہونے لگے۔ انہیں دولت کماتے ہوئے دیکھ کر دوسرے سردار اور سلطان بھی اپنی علاقوں کا جائزہ لینے لگے۔ اس طرح اس علاقے کلانگ کے سردار راجا عبداللہ کو بھنک ملی کہ جہاں گومباک ندی کلانگ ندی سے ملتی ہے، وہاں زیر زمین ٹن کی کانیں موجود ہیں۔ یہ 1850ء کی بات ہے۔
(ان ایام میں دریائے گومباک کو ’’سنگائی لمپور ندی‘‘ یعنی دلدلی ندی کہا جاتا تھا، گومپاگ ندی اور کلانگ ندی کے سنگم پر آج کا شہر کوالالمپور آباد ہے)
ان کانوں میں کھدائی کے لیے مزدورں کی ضرورت تھی، ملایا میں ایک تو لوگوں کی کمی تھی اور جو موجود تھے وہ ملئی مسلمان تھے، جنہیں آج بھی سست اور کاہل قرار دیا جاتا ہے، جس طرح ہمارے ہاں مشقت والے کاموں کے لیے پٹھانوں کو ترجیح دی جاتی ہے، اس طرح ملایا میں سخت اور مشقت والے کاموں کے لیے جنوبی چین سے چینی مزدور لائے جاتے تھے۔ اس دور میں چین کے جنوبی حصے کی حالت خاصی ابتر تھی، وہاں انتہا درجے کے غربت اور قحط جیسی صورت حال تھی۔ یہ علاقہ ملایا کے قریب بھی تھا۔ سو کانوں کی کھدائی کے لیے اس علاقے کے سردار راجا عبداللہ نے 1850ء میں چینی مزدور منگوائے، جو ذکر کیے گئے دریاؤں کے سنگم پر جھونپڑیاں بنا کر رہنے لگے۔ آج جہاں ایمپنگ، باتو اور پودو کے علاقے ہیں، وہاں کانوں کی کھدائی کا کام شروع کیا گیا۔
یہ وہ دور تھا جب دہلی اور آگرہ پر مغلوں کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور اب انگریز بہادر کا دور تھا۔ 1857ء میں انگریزوں کے خلاف ہندوستانی لوگوں نے آزادی کی جنگ لڑی، جسے بلوے کا نام دیا گیا تھا۔ یعنی ہمارے دہلی، کلکتہ، ڈھاکا، ٹھٹھہ، لاہور، حیدرآباد اور شکار پور جیسے شہر اوج پر تھے۔ حیدرآباد کو تو ان دنوں میں سندھ کا پیرس کہا جاتا تھا، اس وقت کوالالمپور کیا تھا؟ کچھ بھی نہیں! یہ محض چینی مزدوروں کی رہائش کے چند جھونپڑیوں پر مشتمل گاؤں تھا، وہاں بھی صرف مرد ہی رہتے تھے۔ روزمرہ کی ضروری اشیاء کی چند دکانیں، شراب خانے، جہاں کچی شراب ملتی تھی اور چند جسم فروش عورتیں تھیں۔
کانوں کی کھدائی کرنے والے ان جاہل اور منشیات کے عادی مزدوروں کے دو گروپ بن گئے تھے۔ ایک ہکا (Hakka) زبان بولنے والے چینیوں کا اور دوسرا گروپ ہوکین (Hokkien) زبان بولنے والے چینیوں کا تھا۔ دونوں گروپ اکثر آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ انگریز بھی ملایا وارد ہو چکے تھے۔ انہوں نے ڈچ اور پرتگالیوں کو مار بھگایا اور خود ملایا کے مرکز ’’ملاکا‘‘ پر قابض ہوگئے۔ دیگر ریاستوں پر بھی گو کہ ملئی سلطانوں کی حکومت برائے نام رہ گئی تھی، جبکہ حکم انگریزوں کا چلتا تھا۔ کوالالمپور سے برآمد ہونے والا ٹن اور ملایا میں پیدا ہونے والا ربڑ وغیرہ خرید کر اپنے ملک انگلینڈ بھیجتے تھے۔ چینی مزدوروں کے آپس کے جھگڑوں کے سبب کھدائی کا کام رک گیا تھا۔ ملئی سردار اس معاملے کو نہ سلجھا سکے، انگریزوں نے اس کا یہی حل تلاش کیا کہ انہوں نے چینیوں پر انہی میں سے ایک شخص کو انچارج یا کام دار کے طور پر مقرر کردیا۔ وہ شخص اس شہر کوالالمپور کا ’’کیپٹن چینا‘‘ کہلانے لگا۔
ان دنوں میں کوالالمپور میں رہنا آسان نہیں تھا، ویسے تو پورے ملایا کا یہی حال تھا۔ ہر جانب جنگل ہونے کے سبب سانپ، بچھو اور مچھروں کا راج تھا (جو آج بھی دیہی علاقوں میں عام ہے۔ میں نے دس برس ملاکا کے جس قصبے میں گزارے تھے، وہاں بھی ان چیزوں کی کمی نہیں تھی۔) لیکن ان کے علاوہ ان ایام میں کوالالمپور پر کئی قدرتی آفات بھی نازل ہوتی رہیں۔ ایک جانب پلیگ سے لوگ مرتے رہے اور دوسری طرف سیلاب تباہی مچادیتا۔ 1881ء میں آنے والے سیلاب اور اس کے بعد آتش زدگی کے واقعے نے پورے شہر کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔ اس وقت تمام مکانات گھاس پھونس اور لکڑی کے بنے ہوتے تھے جو مکمل طور پر بھسم ہوگئے۔ اس کے بعد ہی سلینغور (Selangor) میں مقیم برٹش ریزیڈنٹ فرینک سویٹنہام نے حکم جاری کیا کہ آئندہ گھاس پھونس کے مکانات تعمیر نہیں کیے جائیں گے۔ ہر مکان کی تعمیر میں اینٹیں اور ٹائلز استعمال ہوں گے۔ اس زمانے کے تعمیر شدہ اینٹوں کے مکانات آپ کو آج بھی کوالالمپور میں نظر آئیں گے۔ یعنی کوالالمپور صحیح معنوں میں 1881ء سے شروع ہوا، یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے ہاں بمبئی یونیورسٹی کے آغاز کو بیس برس اور بمبئی کے گرانٹ میڈیکل کالج کے قیام کو چھتیس برس گزر چکے تھے۔ اس کے چند ہی برسوں کے بعد ہمارے ہاں محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی نے جنم لیا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ کوالالمپور لندن، قاہرہ، پیرس، خرطوم، دہلی، حیدر آباد اور لاہور کی طرح پرانا شہر نہیں ہے، یہ اسلام آباد کی طرح نیا شہر ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے۔ خاص طور پر گزشتہ صدی کے ساٹھ والے عشرے میں، جب ہمارا جہاز پر پہلی مرتبہ نکلنا ہوا، اس وقت بھی کوالالمپور، پینانگ اور سنگاپور کوئی خاص شہر نہیں تھے، یہ شہر ہمارے ٹنڈو آدم اور شہداد پورجیسا تھا۔ یہی حال دبئی کا تھا جو آج کے بھٹ شاہ سے بھی پیچھے تھا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment