مسعود ابدالی
عجیب اتفاق کہ امریکی دفتر خارجہ نے مذہبی عدم برداشت اور اقلیتوں سے ناروا سلوک کے باب میں پاکستان کی صورت حال کو تشویش ناک قرار دیا ہے اور امریکی میڈیا نے گزشتہ 4 دنوں میں مذہب اور نسل کی بنیاد پر نفرت کی 5 وارداتوں کی خبر شائع کی ہے۔ مذہبی منافرت کے زیر اثر ان حملوں کی اطلاعات مغرب میں ریاست واشنگٹن (دارالحکومت واشنگٹن نہیں)، مشرق میں پنسلوانیہ اور وسط مغربی ریاست اوہایو (Ohio)سے آئی ہیں۔
جمعہ کو واشنگٹن کے ریاستی دارالحکومت اولمپیا کے مضافات میں واقع ایک مسیحی فرقے شاہدین یہود (Jehovah’s Witnessses) کی عبادت گاہ کو نذرِ آتش کردیا گیا۔ شاہدین یہود کو آپ مسیحیوں کی تبلیغی جماعت کہہ سکتے ہیں، جو وفود کی شکل میں گھر گھر جا کر اپنے دین کی تبلیغ کرتے ہیں۔ خدا کی زمین پر خدا کی حکمرانی شاہدین یہود کا نصب العین ہے۔ حالیہ واقعہ سے پہلے بھی چار بار شایدین یہود کی عبادت گاہوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
دوسرے دن یعنی ہفتہ 8 دسمبر کو واشنگٹن کے شہر سیاٹل (Seattle) کے ایک شراب خانے میں سفید فام نسل پرستوں نے متعصبانہ مغلظات بکتے ہوئے ایک سیاہ فام نوجوان پر حملہ کیا، جسے بچاتے ہوئے ایک ایشیائی نژاد شخص زخمی ہوگیا۔
اتوار 9 دسمبر کو پنسلوانیہ کے شہر پٹسبرگ (Pittsburgh) میں یہودیوں کے خلاف نفرت انگیز پمفلٹ تقسیم کئے گئے۔ سارے شہر میں تقسیم ہونے والے اس پمفلٹ میں یہودیوں کے عقائد کی توہین کے ساتھ یہودیوں کو برے انجام کی دھمکی دی گئی ہے۔ یاد رہے اس سال اکتوبر میں یہاں یہودیوں کے صومعہ یا کنیسہ (Synagogue) پر ایک حملے میں 11 یہودی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسی دن جامعہ نیویارک کے پرچیز (Purchase) کیمپس پر کئی جگہ نازی پوسٹر چسپاں پائے گئے، جن میں امریکہ کو سفید فاموں مسیحیوں کا ملک قرار دیتے ہوئے غیر مسیحیوں اور رنگدار لوگوں کو نکل جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
پیر 10 دسمبر کو ریاست اوہایو کے شہر ٹلیڈو (Toledo) سے ایک 21 سالہ سفید فام نوجوان کو گرفتار کیا گیا، جو شہر کی یہودی عبادت گاہ پر حملہ کرکے وہاں آنے والے لوگوں کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اسی دن ٹیلیڈو سے ایک 23 سالہ نسل پرست لڑکی ایلزبتھ لیکرن (Elizabeth Lacron) کو بھی گرفتار کیا گیا، جو گیس پائپ لائن کو بم سے اڑانا چاہتی تھی۔
صدر ٹرمپ ایک عرصے سے غیر ملکی تارکینِ وطن اور ہسپانیویوں کے خلاف جو زہر اگل رہے ہیں، وہ امریکہ کے متعصب قوم پرستوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہا ہے۔ اسی بنا پر مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے خلاف تشدد اور حملوں کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ صاحب! اپنے ملک میں عدم برداشت کو فروغ دینے والوں کے منہ سے دوسرے ممالک پر تنقید اچھی نہیں لگتی۔
دوسری جانب جناب ٹرمپ جب سے حکومت میں آئے ہیں، اسکینڈلوں کے گرداب میں ہیں۔ لیکن تازہ ترین بھنور کچھ ڈبائو سے محسوس ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے صدر ٹرمپ کے دو عورتوں یعنی فحش فلموں کی اداکارہ اسٹورمی ڈینیلز اور ملکہ پلے بوائے (Playboy Queen) کیرن مک ڈوگل سے تعلقات کی باتصویر خبریں شائع ہوئیں۔ یہ خبریں سنسنی خیز تو تھیں، لیکن ان کی کوئی قانونی حیثیت نہ تھی کہ یہ جناب ٹرمپ کا ذاتی معاملہ تھا اور خود خاتونِ اول ملانیا ٹرمپ نے کہا کہ ساری باتیں بہت پہلے سے ان کے علم میں ہیں اور وہ اس کے باوجود اپنے شوہر کو ٹوٹ کر چاہتی ہیں۔ تاہم اسی دوران انکشاف ہوا کہ موذی میڈیا کے خوف سے صدر ٹرمپ کے ذاتی وکیل مائیکل کوہن نے ان مہہ جبینوں کو زباں بندی کیلئے خطیر رقم یا Hush Money عطاکی تھی۔ اپنے ایک بیان میں مائیکل کوہن نے حسینائوں کے مرمریں ہونٹوں پر طلائی قفل لگانے کا اعتراف کیا، لیکن غیر مبہم انداز میں کہا کہ انہوں نے یہ رقم اپنی جیب سے دی ہے اور اس کا صدر ٹرمپ سے کوئی تعلق نہیں۔ وکیل صاحب نے اسٹورمی کو ایک لاکھ 30 ہزار اور کیرن کو ڈیڑھ لاکھ ڈالر ادا کئے۔ ان خبروں کی صدر ٹرمپ نے سختی سے تردید کی اور صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ انہیں رقم کی ادائیگی کا کوئی علم نہیں اور اگر ان کے وکیل نے کسی کو مجھ سے پوچھے بغیر پیسے دیئے ہیں اور تو میں اس کا ذمہ دار نہیں۔ کچھ دن بعد صدر ٹرمپ کے سرکاری وکیل اور نیویارک کے سابق میر روڈی جولیانی نے انکشاف کیا کہ مسٹر کوہن نے اسٹورمی ڈینیلز کو جو رقم دی ہے، وہ صدر ٹرمپ نے جناب کوہن کو دی تھی۔ جناب جولیانی کے اس بیان سے صدر ٹرمپ کا جھوٹ ثابت ہو گیا، لیکن اس کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہ تھی کہ یہ کوئی بیانِ حلفی نہ تھا، بلکہ محض صحافیوں سے گفتگو تھی، جسے لغزشِ زبان اور سیاسی رنگ بازی کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
یہاں تک بھی معاملہ ٹھیک تھا، لیکن اب انکشاف ہوا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی کم سن دوستوں کو مائیکل کوہن کے ذریعے جو رقم دی تھی، اس کی ادائیگی ٹرمپ انتخابی مہم کے چندے سے کی گئی تھی۔ امریکہ میں انتخابی چندہ قانونی اعتبار سے عوام کی ملکیت ہے، جس میں ہیر پھیر سنگین جرم ہے۔ صدارتی مہم کیلئے حکومت ٹیکس دہندگان کی اجازت سے کچھ رقم مختص کرتی ہے، جو امیدواروں پر ان کے عوامی چندے کے تناسب سے تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ رقم صرف اور صرف انتخابی مہم پر استعمال ہو سکتی ہے اور امیدوار اخراجات کی تفصیلات سرکار کو فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دامن کو متوقع دھبوں سے پاک رکھنے کیلئے حسینائوں کو انتخابی چندے سے رقم ادا کرنے کی خبر پر 7 دسمبر کو وفاقی عدالت میں سرکاری مستغیث (Prosecutor) نے ایک درخواست دائر کر دی، جس میں انتخابی فنڈ کے غلط استعمال پر مائیکل کوہن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اگر یہ الزام ثابت ہوگیا تو مائیکل کوہن کو دس سال کی جیل ہو سکتی ہے۔ عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا، لیکن اعتراف کی وجہ سے الزامات اتنے واضح ہیں کہ مسترد ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ مستغیث نے اپنی درخواست میں صدر ٹرمپ کو بھی فریق بنایا ہے، لیکن امریکی صدر کو چونکہ عدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے، اس لئے انہیں عدالت طلبی کا نوٹس جاری نہیں ہو سکتا۔
ایک بات بڑی واضح ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران مائیکل کوہن یقیناً یہ بیان دیں گے کہ انہوں نے رقم کی ادائیگی صدر ٹرمپ کے حکم پر کی تھی۔ اس وضاحت سے مائیکل کوہن کی جان تو نہیں چھوٹے گی، لیکن عدالت میں ان کے بیانِ حلفی کی بنیاد پر امریکی کانگریس صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتی ہے۔ چند ہفتوں بعد جب نئی کانگریس حلف اٹھائے گی تو ایوانِ زیریں میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہوگی اور مجلس قائمہ برائے سراغ رسانی کے نامزد سربراہ آدم شف (Adam Schiff) نے گزشتہ دنوں CBS ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کو جیل جاتا دیکھ رہے ہیں۔ جناب شف کے اس بیان کو اس لحاظ سے تو مسترد کیا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے، لیکن اگر مائیکل کوہن کے مقدمے میں انتخابی چندے کا غیر قانونی الزام ثابت ہوگیا تو ریپبلکن پارٹی کیلئے بھی مواخذے کی تحریک میں ڈیموکریٹس کا ساتھ دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوگا اور جیل سے بچنے کیلئے مقدمہ نہ چلانے کے وعدے پر صدر ٹرمپ اپنا استعفیٰ پیش کر سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش انتخابات:
امیدواروں کو انتخابی نشان جاری ہونے کے بعد بنگلہ دیش میں انتخابی مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز عوامی لیگ کی سربراہ حسینہ واجد ڈھاکہ سے ایک بڑا جلوس لے کر گوپال گنج میں اپنے والد شیخ مجیب الرحمان کی یادگار پر پہنچیں اور پھولوں کی چادر چڑھائی۔ بعد میں ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب میں انہوں نے عوامی لیگ کے سیکولر و بنگالی قوم پرست بیانئے کا اعادہ کرتے ہوئے قوم کو مذہبی انتہا پسندوں، پاکستان کے حامیوں اور بنگالی قوم کے غداروں سے متنبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک دشمن طاقتیں بنگلہ دیش کو برباد کرنے کیلئے پھر متحد ہوگئی ہیں۔ جلسے کے بعد واپسی پر انہوں نے 7 مقامات پر سڑک کے کنارے کھڑے لوگوں سے خطاب کیا۔
حزب اختلاف کے جاتیو ایکو فرنٹ نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز سلہٹ میں حضرت شاہ جلال کے مزار پر حاضری سے کیا، جس کے بعد ایک بڑے جلوس نے سلہٹ شہر کا چکر لگایا۔ BNP کی قائد کی گرفتاری کے سبب جلوس کی قیادت ڈاکٹر کمال حسین نے کی۔ چونکہ اس روز جماعت اسلامی کے رہنما عبد القادر ملا کا یوم شہادت تھا، اس لئے اپنے شہید ساتھی کے احترام میں جماعت نے انتخابی مہم کا آغاز ایک روز بعد میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے رنگپور ڈویژن اور کھلنا ڈویژن سے 7، راجشاہی ڈویژن اور چاٹگام سے 2، باریسال اور ڈھاکہ سے ایک ایک امیدوار کو نامزد کیا ہے۔ یہ سارے امیدوار جاتیو ایکو فرنٹ کی جانب سے چاول کی بالی کے نشان پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان تمام 20 نشستوں پر براہ راست عوامی لیگ سے مقابلہ ہے اور آزاد امیدواروں پر بیٹھ جانے کیلئے شدید دبائو ہے۔ بنگلہ دیش میں ہندوستان کے سفیر نے کہا ہے کہ بھارت بنگلہ دیش کو ایک ترقی پسند سیکولر ملک دیکھنا چاہتا ہے اور وہ جماعت اسلامی کے علاوہ ہر جماعت کے ساتھ مل کرکام کرنے کو تیار ہے۔ انتخابی مہم کے آغاز پر امریکی سفیر نے امید ظاہر کی کہ تمام جماعتوں کو ووٹروں تک رابطے کے یکساں مواقع میسر ہوں گے۔
جماعت اسلامی کے مرکزی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر شفیق الرحمان نے اپنے ایک بیان میں الیکشن کمشنر کی توجہ اپنے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ، گھروں پر حملے اور پولیس کی چھاپوں کی طرف دلائی ہے۔ کارکنوں کے گھروں پر X کا سرخ نشان لگایا جا رہا ہے، جس سے کسی بڑی کارروائی کی تیاری کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گرفتاریوں اور حملوں کے باوجود جماعت کے امیدوار دستبردار نہیں ہوں گے اور ان کی جماعت ملک سے کرپشن کے خاتمے اور شفاف طرز حکمرانی کیلئے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔
٭٭٭٭٭