خرابیوں کی اصل جڑ، عوام یا حکمران و سیاستدان؟

قومی احتساب بیورو (نیب) نے پیراگون ہائوسنگ اسکینڈل میں ضمانت منسوخ ہونے پر ریلوے کے سابق وزیر خواجہ سعد رفیق اور بھائی خواجہ سلمان رفیق کو لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالتی کمرے سے گرفتار کر لیا ہے۔ سعد رفیق نے اس گرفتاری کو آئین و قانون سے مذاق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا دامن صاف ہے، فیصلے کرانے والے بھی عوام کی آواز کو سن لیں۔ ادھر نیب کا کہنا ہے کہ تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے دونوں کی گرفتاری ضروری تھی۔ خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کے بعد نیب کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کی رقم برآمد کرانے، دستاویزات حاصل کرنے اور تحقیقاتی عمل کی تکمیل کے لیے انہیں گرفتار کرنا ضروری تھا۔ نیب اعلامیے کے مطابق خواجہ سعد رفیق نے اپنی اہلیہ، بھائی، ندیم ضیا، قیصر امین بٹ وغیرہ سے مل کر پہلے ایئر ایونیو کے نام سے ایک سوسائٹی بنائی اور بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے پیراگون ہائوسنگ سوسائٹی رکھ دیا گیا۔ انہوں نے بحیثیت مسلم لیگی وزیر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے غیرقانونی ہائوسنگ اسکیم کے اشتہارات دیئے اور عوام سے اربوں روپے بٹورے۔ لیگی حلقے اسے سیاسی انتقام قرار دے رہے ہیں۔ دریں اثنا سابق لیگی رکن پنجاب اسمبلی قیصر امین بٹ نے وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد عدالت میں جو بیان ریکارڈ کرایا، اس کی تفصیلات منظرعام پر آگئی ہیں ،جس کے مطابق خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق ہی پیراگون سوسائٹی کے اصل مالک ہیں۔ قیصر امین بٹ کہتے ہیں کہ انہوں نے 1997ء میں کاروبار میں میرے شراکت دار بننے کی خواہش ظاہر کی اور ندیم ضیا کو کام کا بندہ قرار دے کر مجھ سے متعارف کرایا۔ ہم چاروں نے مل کر ہائوسنگ سوسائٹی کا منصوبہ بنایا، بعد میں خواجہ برادران نے کاغذات سے اپنے نام نکلوا دیئے، میں اور ندیم ضیا تو پارٹنر ہیں، لیکن اصل مالکان خواجہ برادران ہیں۔ 2003ء میں کمپنی کا نام پیراگون رکھ کر سعد رفیق نے متعلقہ حکام پر دبائو ڈالا اور اسے رجسٹر کرایا، پھر اس کے کمرشل پلاٹ بیچ کر چودہ ارب روپے کمائے۔ دونوں بھائی سوسائٹی سے فوائد سمیٹتے رہے۔ پیراگون سوسائٹی میں اب بھی ان کے نام پر بیس ہزار گز اراضی موجود ہے۔ خواجہ سعد رفیق کے حوالے سے یہ تفصیل بیان کرنے کا مقصد عوام کو یہ بتانا ہے کہ انہیں کون کون اور کس قدر معصومیت کے ساتھ فریب دے کر لوٹتا رہا اور اختیارات کا کس طرح ناجائز استعمال کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نااہل قرار دیئے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ میں خواجہ سعد رفیق کا شمار معصوم، قانون پسند اور دیانتدار افراد میں ہوتا رہا۔ لیکن زن، زر، زمین کے علاوہ اقتدار و اختیار بھی اتنا بڑا فتنہ ہے کہ ایک بار کوئی اس کے جال میں پھنس جائے تو اس سے نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔ دولت اور شہرت کے حصول کے لیے جھوٹ بولنا اور دھوکا دینا ہمارے سیاستدانوں کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ اس کی خاطر وہ اقتدار میں آنے کی کوشش کرتے ہیں یا کسی طرح اقتدار میں موجود ہوں تو عوام اور قومی خزانہ لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
اسلام کے نام پر بنائے جانے والے ملک پاکستان میں ستر برسوں سے بالعموم اسی قماش کے لوگ عوام پر مسلط چلے آرہے ہیں، وہ اپنے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات کے لیے تو مفاہمت پر ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں، لیکن ملک اور قوم کے وسیع تر مفادات کے لیے انہیں ضروری قانون سازی کا خیال آتا ہے نہ کوئی جرأت مندانہ قدم اٹھانے کا۔ ذرا اندازہ کیجئے کہ گزشتہ روز حکومت اور اپوزیشن دونوں نے مل کر شراب پر مکمل پابندی کا بل مسترد کر دیا۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی نے تشدد اور انتہا پسندی کے انسداد پر قومی مرکز کے قیام اور معذور افراد کے حق میں بھی پیش کئے جانے والے بل مسترد کر دیئے۔ شراب پر بل کو مسترد کئے جانے کا نہایت شرمناک پہلو یہ ہے کہ اسے اقلیتی رکن ڈاکٹر رمیش کمار نے پیش کیا تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ہندو مذہب سمیت تمام مذاہب اور قوموں میں شراب سے نفرت اور اس پر پابندی برقرار ہے۔ اسلام نے تو شراب کو ام الخبائث یعنی اکثر خباثتوں کی ماں قرار دیا ہے، جس سے بہت سی برائیاں جنم لے کر معاشروں کو تباہ و برباد کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ ڈاکٹر رمیش کمار کے اس بل کی مخالفت کرنے والوں میں پیپلزپارٹی، شریف برادران کی مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے ارکان شامل تھے۔ متحدہ مجلس عمل کے ارکان نے بل کی حمایت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کی جانب سے پہلے بھی یہ بل قومی اسمبلی میں لایا گیا تھا۔ پارلیمانی سیکریٹری ملیکہ بخاری نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے یہ منطق پیش کی کہ پہلے اس بل کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، لہٰذا اب بھی اسے مسترد کر دیا جانا چاہئے۔ یاد رہے کہ دو روز قبل بچوں کی سگریٹ نوشی پر پابندی کا بل منظور کیا جاچکا ہے اور اس سے پہلے حکومتی ارکان نے شراب اور تمباکو نوشی کو گناہ قرار دے کر قانونی پابندی عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ یہ تمام باتیں عوام سے فریب کے مترادف ہیں، کیونکہ اسمبلیوں اور حکومتی ایوانوں میں آج بھی ایک قابل ذکر تعداد مختلف قسم کا نشہ کرنے والوں کی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما کوکین اور حشیش جیسے تباہ کن نشوں کے خلاف کوئی بیان کیوں نہیں دیتے؟ کیا وہ اس معاملے میں اپنے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان سے ڈرتے ہیں؟ مقتدر و متمول طبقات کی نظروں سے دیکھا جائے تو دولت اور اقتدار کے سرچشموں پر بیٹھے ہوئے تمام لوگ مسلم لیگی رہنمائوں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، حسن و حسین، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق، ان کے بھائی سلمان رفیق، پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، انور مجید، حسین لوائی اور ظفر ٹپی جیسے تمام لوگ معصوم، بے گناہ اور پاک و صاف ہیں۔ اصل قصوروار ملک کے بائیس کروڑ عوام ہیں جنہیں کراچی سے تھر اور پشاور تک غربت و افلاس، بے روزگاری اور تعلیم و صحت سے محرومی کا سامنا ہے۔ تجاوزات کے خاتمے کی مہم چلائی جائے تو ان ہی کے مکانات اور دکانیں زد میں آتی ہیں اور بھرپور تباہی کے بعد خبریں آتی ہیں کہ انہیں متبادل جگہ کہاں اور کیسے فراہم کی جائے اور کیوں نہ مالی نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے کوئی کمیٹی قائم کر دی جائے۔ وفاقی شرعی عدالت سودی نظام کے خاتمے سے متعلق ستر برسوں کے بعد بھی اب تک کیس کی سماعت کررہی ہے
، جبکہ شریعت نے سود کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ اور اپنی حقیقی ماں کے ساتھ بدکاری سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ وطن عزیز میں شریعت کے نفاذ کی کسی کو فکر ہے نہ قومی زبان اردو کو سرکاری طور پر رائج کرنے کی پروا۔ بااختیار لوگوں کی توجہ کام کے بجائے نام اور بیانات پر مبذول ہو تو ملک میں کوئی بہتر تبدیلی کیونکر آسکتی ہے؟
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment