جونیجو کی مخالفت کے لئے نوازشریف نے بھاری پیشکش کی

س: حالات کی خرابی کا باعث بھی یہی ہے کہ ہم سچ نہیں بولتے۔
ج: جس واسطے یہ سارے حالات خراب ہیں ان میں تو کوئی سچ نہیں بولتا۔ بھائی صاحب آپ نے گزشتہ تیس برس کے دوران میں میری تقریریں سنی ہوں گی۔ ایک بات میں ہمیشہ کہتا ہوں، دیانت داری سے، کہ میں قائد اعظمؒ کے سوا کسی کو لیڈر مانتا نہیں۔ کیونکہ لیڈر کون ہوتا ہے، جو راہ نمائی کرے۔ جو راہنمائی نہیں کر سکتا وہ لیڈر کیسے ہو گیا۔ قائد اعظمؒ تو آج بھی آپ کی راہنمائی کرتے ہیں۔ میرا نظریہ ہے کہ آپ کو آج بھی کوئی سیاسی مسئلہ درپیش ہو۔ کوئی آپ کو صحافتی مسئلہ درپیش ہو۔ آپ کو کوئی کاروباری مسئلہ درپیش ہو۔ قائد اعظمؒ کی کتاب کھولو، جواب آپ کو مل جائے گا۔
س: بالکل، بالکل۔
ج: یہ جو لیڈر ہیں، یہ کہتے ہیں کہ آپ مجھے مانتے ہی نہیں۔ میری SERIES OF MEETINGS (لاتعداد ملاقاتیں) ہوئی ہیں میاں نواز شریف کے ساتھ۔ نواز شریف اس بات پر گرم ہو جاتے ہیں کہ تو قائد اعظمؒ کو لیے پھرتا ہے، میری بات نہیں سنتا۔
س: جب آپ ان کے سامنے قائد اعظمؒ کی مثال دیتے ہیں تب کہتے ہیں؟
ج: ہاں، ہاں۔
س: اس پر وہ گرم ہو جاتے ہیں۔
ج: IN A WAY (کسی حد تک)۔
س: ایسے کسی موقع کی تفصیل؟
ج: میرے ساتھ انہوں نے گفت و شنید شروع کی۔ پہلے تو میں انہیں اوائڈ کرتا رہا۔ دوسرا کہ تیسرا ٹیلی فون مجھے براہ راست ان کا آیا کہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے کچھ ٹال مٹول کی۔ میں نے یہ نہ بتایا کہ میں پشاور جارہا ہوں۔ کہیں پشاوریوں کو پہلے ہی مال نہ بھیج دیں۔ مجھے وہاں شیخ حمید کا ٹیلی فون آگیا، جو ہر چیف منسٹر کا کارندہ ہوتا ہے۔ مجھے کہتا ہے، آپ کب آئیں گے۔ میں نے کہا، میں آئوں گا آٹھ دس دن کے بعد۔ اس نے کہا، میاں صاحب کہتے ہیں کہ آٹھ دس دن تک تو کام خراب ہو جائے گا۔ مجھے خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ مسلم لیگ کی ایسی تیسی نہ پھیر دے۔ میں نے سوچا کہ پہلے میں لوگوں کو سنبھال لوں۔ لوگوں کا دین مذہب تو ہے کوئی نہیں۔ مجھے تجسس پیدا ہو گیا کہ پتہ کروں کام کیا ہے۔ میں ٹائم نکال کے لاہور آگیا، میاں صاحب کی رہائش گاہ پر، چیف منسٹر ہائوس، 90 شاہراہ قائد اعظم۔ انہوں نے گفتگو کس طرح شروع کی۔ میں تو بہرحال قائد اعظمؒ کے خلاف بات سننے کو تیار نہیں۔ وہ JUSTIFY (ثابت) کر رہے ہیں کہ مجھے لیڈر بننا چاہئے۔ I SHOULD LEAD THE PARTY۔ مجھے انہوں نے سوال کیا۔ خاں صاحب، آپ نے 1940ء کا جلسہ دیکھا تھا۔ میں نے کہا، نہیں۔ لاہور میں فائرنگ ہو گئی خاکساروں والی۔ میں آٹھویں نویں میں پڑھتا تھا۔ میرے گھر والوں نے جانے نہیں دیا۔ میرا بڑا بھائی، میرے کزن اور کچھ لوگ آئے تھے۔ ہمارے شہر سے ایک بس آئی تھی۔ مجھے اب تک یاد ہے، سبز رنگ کی قمیضیں، سفید پتلونیں، سبز پگڑیاں طرے والی انہوں نے پہنی تھیں، اور چمکتی ہوئی تلواریں۔
س: نیشنل گارڈ تھے۔
ج: دستہ نیشنل گارڈ کا۔
س: کلانور سے۔
ج: کلانور سے۔ مجھے کہتے ہیں، کتنا کُو جلسہ تھا۔ میں نے کہا، میاں صاحب سنا ہے کہ اس زمانے کا برصغیر کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ کہتے ہیں، کتنے کُو آدمی ہوں گے۔ میں نے کہا، ڈھائی تین لاکھ۔ کہنے لگے، جو میں نے جلسہ کیا ہے مینار پاکستان میں، اس جلسے کے متعلق کیا خیال ہے۔ میں نے کہا، اپنی زندگی میں، میں نے اس سے بڑا جلسہ نہیں یکھا۔ کہتے ہیں، پھر صرف ڈھائی تین لاکھ ہی بندہ تھا۔ 40ء کے جلسے میں۔ میں نے کہا، جی اتنا ہی تھا۔ کہنے لگے، پھر ہم نے تو پچاس لاکھ اکٹھا کر دیا۔ میں نے کہا، میاں صاحب اس وقت ہندوستان کی آبادی تھوڑی تھی۔ لاہور شہر کی آبادی تھوڑی تھی۔ لاہور شہر کی آبادی دو ڈھائی لاکھ کی تھی۔ کتنے کو بندے آسکتے تھے۔
س: اس زمانے میں عوام کا دوسرے شہر سے آنا بھی مسئلہ ہوتا تھا۔
ج: مجھے کہتے ہیں، ہندوستان بھی تو سارا ہی تھا نا۔ یہ میری میاں صاحب کے ساتھ آمنے سامنے بات ہو رہی ہے۔ کہتے ہیں، ہندوستان بھی تو سارا ہی تھا نا۔ قائد اعظمؒ بھی تو تھا نا۔ اس کی بھی تو شخصیت تھی نا۔ بندے اتنے ہی، ڈھائی لاکھ ہی، جمع کر سکا۔ میں سمجھ گیا یہ چلا ہے الٹا چلنے۔ قائد اعظمؒ سے بڑا بننا چاہتا ہے۔
س: پچاس لاکھ والی غلط بیانی ہے۔
ج: وَٹ مجھے بہت چڑھا۔ میں تو بہرحال قائد اعظمؒ کا FAN (پرستار) ہوں۔ میں نے کہا، میاں صاحب، قائد اعظمؒ آپ کے سامنے کیا چیز تھے۔ ان بے چاروںکے پاس نہ پولیس، نہ ڈی سی، نہ پیسہ، نہ ان کے پاس (لاہور) کارپوریشن کا (میئر) میاں اظہر، جو اسٹیج کے پیسے کارپوریشن کے کھاتے میں ڈالے، نہ تحصیل دار، نہ پٹواری، نہ ٹرک بندے اکٹھے کرنے کے لیے۔
س: نہ اتفاق فونڈری۔
ج: ان کے جلسے میں لوگ آتے تھے۔ غریب غربا لوگ تھے۔ سوکھی روٹی پلے باندھ لی۔ جوتی ہاتھ میں پکڑ لی اور پیدل چل پڑے۔ آکے بیٹھ گئے۔ اب آپ کے لیے پٹواری، ڈی سی، ایس پی بندے اکٹھے کر رہے ہیں۔ ٹرک ڈھونڈ رہے ہیں۔ اسٹیج (میونسپل) کارپوریشن ہی بنوا رہی ہے۔ آپ کے جلسے کے اشتہار ڈسٹرکٹ کونسلیں دے رہی ہیں۔ لہٰذا قائد اعظمؒ کاآپ کے ساتھ کیا مقابلہ؟ وہ بے چارے تو کچھ بھی نہیں تھے۔ آپ ہی آپ ہیں۔ یہ بات سننے کے بعد انہوں نے مجھے کوئی نہیں کہا، کہ چلو بندہ رسماً ہی کہتا ہے کہ نہیں، نہیں قائد اعظمؒ ہی تھے۔ بلکہ کہنے لگے، بس فیر فیصلہ کرو تسی کہ اب کون لیڈ کر سکتا ہے قوم کو۔ کون پچاس لاکھ بندے اکٹھے کر سکتا ہے۔ یہ مجھے خود میاں نواز شریف نے کہا۔
س: انہیں یہ بھی احساس نہ ہوا کہ آپ طنز کر رہے ہیں۔
ج: اسے اس بات کا کوئی احساس نہ ہوا کہ میں نے کیا کہا۔ مجھے کہتا ہے، بس پھر آپ کو سوچنا چاہئے کہ کون بندہ آپ کا لیڈر ہونا چاہئے۔ آپ کو سوچنا چاہئے۔ میں نے کہا، میاں صاحب سوچ سُوچ لیں گے۔ وقت گزر گیا۔ بادشاہوں کی باتیں ہیں، بادشاہوں کی۔
س: اس میٹنگ میں اور کون کون تھا۔
ج: میں تھا، نواز شریف تھے اور اللہ کی ذات تھی۔
س: یہ کب کی بات ہے؟
ج: یہ واقعہ ہے 4 جون 1990ء کا۔ ٹائم تھا تین بجے۔ 90 شاہراہ قائد اعظم۔
س: پیسے اور پلاٹوں وغیرہ کی پیشکشوں کا پہلے بھی ذکر آیا ہے۔ وہ قصہ کب کا ہے۔
ج: اسی میٹنگ میں آفر ہوئی تھی۔ ساتھ ہی مجھے کہا تھا کہ آپ ٹکٹ لے کے لندن چلے جائیں۔
س: پیسوں اور پلاٹوں کا قصہ کیا ہے؟
ج: اس کے بعد مجھے کہتے ہیں۔ تسی خاں صاحب یہاں واپس کیوں نہیں آتے، لاہور۔ میں نے کہا، میاں صاحب، ایک مکان تھا ہمارا، دونوں بھائیوں کا۔ چھوٹا سا مکان ہے۔ بچے ہمارے ہو گئے جوان۔ اس مکان میں سارے آ نہیں سکتے تھے۔ بد قسمتی سے میں وزیر بن گیا۔ بچیاں بھی جوان ہو گئی ہیں۔ وزیر بن کے کسی جھگی میں مجھ سے جایا نہیں جاتا۔ بیٹیوں کی شادی کرنی ہے۔ جس زمانے میں ہم چل رہے ہیں، اس زمانے کے حساب سے وہ ہم پر مجبوری ہے۔ یا کوئی ڈھنگ کا مکان لیں۔ میں نے بندوں شندوں سے کہا تھا۔ دس بارہ ہزار روپے مہینے سے کم کا مکان شہر میں نہیں ملتا۔ وہ بھی دو دو، تین تین سال کا ایڈوانس مانگتے تھے۔ وہاں میرے پاس ایک پلاٹ تھا۔ 74ء میں ملا تھا وکیلوں کے کوٹے میں۔ میں نے قرضہ مرضہ لے کے اس پر مکان بنا لیا۔ کچھ حصہ کرائے پر دے دیا ہے، باقی میں خود رہتا ہوں۔ یہ میں نے میاں نواز شریف کو بتایا۔ بڑی لمبی سانس لے کے مجھے کہتے ہیں، خاں صاحب یہ دردناک کہانی سن کے مجھے تو بڑا دکھ ہوا ہے۔ آپ کی یہاں بڑی سخت ضرورت ہے۔ میں آپ کو پلاٹ دیتا ہوں۔ گارڈن ٹائون میں دو کنال کا۔ آپ یہاں آجائیں۔ مجھے خیال آیا کہ دیکھوں کتنا سودا کرتا ہے۔ چنانچہ میں نے کہا، میاں صاحب مجبوری یہ ہے کہ وہ پلاٹ خریدنے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں۔ کہتے ہیں، آپ سے مانگے ہیں؟ آپ ابھی جائیں۔ بندہ آپ کے ساتھ جاتا ہے۔ پلاٹ آپ کر لیں پسند۔ شام تک، سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے الاٹمنٹ کا پکا آرڈر آپ کے حوالے کرتے ہیں، معہ نقشے کے۔ میں نے کہا، وہ تو ٹھیک ہے، میں بنائوں گا کیسے؟ مجھے کہتے ہیں، دو پلاٹ اور آپ کو دیتا ہوں۔ آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ دلال بھی دیتا ہوں۔ پلاٹ بیچ بھی دیتا ہوں۔ بیچ کے پیسے بھی دیتا ہوں۔ نقشہ نویس بھی دیتا ہوں۔ نقشہ بنوا کے، پاس کروا کے سب کچھ دیتا ہوں۔ مکان آپ بنوالیں۔ یہاں آجائیں۔ آپ کی مجھے بڑی سخت ضرورت ہے۔ آپ کو اسمبلی کے اندر ہونا چاہئے۔ آپ کو الیکشن لڑنا پڑے گا۔ آپاں اسمبلیاں تڑوانی ہیں۔ الیکشن لڑنا ہے۔ آپ نے میرے دائیں ہاتھ کھڑا ہونا ہے۔ جس طرح جونیجو صاحب کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وزیر بھی بننا ہے۔ میں نے کہا، میاں صاحب کیسے الیکشن لڑوں؟ گنجی نے نہانا کیا اور نچوڑنا کیا۔ کہتے ہیں، روپیہ پچاس لاکھ کیش ابھی آپ کو دیتا ہوں، خرچہ الیکشن کا۔ اگر اس کے ساتھ الیکشن نہ بھگتے تو پیسے الیکشن کے پورے دوں گا۔ آپ محمد خاں کے بجائے مجھے سپورٹ کریں۔
لو جی، بھائی صاحب، انہوں نے یہ بات کی۔ اور میں نے انہیں کہا، میاں صاحب، آپاں زندگی میں ضمیر کا سودا کبھی پیسے کے ساتھ نہیں کیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment