میں اس دن علی کے ساتھ اس کی گاڑی پروٹون واجا میں بیٹھا کوالالمپور کی سڑکوں کا نظارہ کرتا رہا۔ ہم بے مقصد ادھر ادھر چلتے رہے، ہمیں کچھ وقت گزارنا تھا۔ اس لیے میں علی کو ہدایات دیتا رہا اور وہ مختلف سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے رہے۔ میں اپنی اسّی کی دہائی کی یاد تازہ کرنا چاہتا تھا۔ اس وقت میں نے جہاز چلانے کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ملائیشیا کے تاریخی شہر ملاکا میں کنارے کی نوکری اختیار کی تھی۔ ہم ملاکا ریاست کے جس شہر ’’مسجد تاناح‘‘ میں رہتے تھے، وہاں سے کوالالمپور محض 90 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ اس لیے میرا تقریباً ہر چھٹی کا دن ان سڑکوں پر گزرتا تھا۔ عید یا دوسری تعطیلات ہوتی تھیں، تو ہم جنوب میں کوالالمپور جانے کے بجائے شمال کا رخ کرتے تھے۔ جہاں 250 کلو میٹر کے بعد ملائیشیا کا انتہائی سرے والا ’’جوہر بارو‘‘ ہے۔ اس کے بعد پل کے ذریعے سمندر کے دو کلو میٹر طے کر کے سنگاپور پہنچ جاتے تھے۔
کراچی کی طرح کوالالمپور کی اوائلی سڑکیں بھی انگریزوں کے دور کی تعمیر شدہ ہیں اور وہ بھی انگریز حاکموں کے ناموں سے منسوب ہیں، لیکن بعد میں ملائیشیا کو خود مختاری حاصل ہوئی تو پھر رفتہ رفتہ کئی نام تبدیل کر کے انہیں دیسی حاکموں، راجائوں اور ملئی سرداروں کے نام دیئے گئے۔ جب ستر کے عشرے میں ہم جہاز کے ذریعے ملائیشیا آتے تھے تو اس زمانے میں پینانگ اور کوالالمپور کی سڑکیں پرانے ناموں سے موسوم تھیں۔ ممکن ہے ان ایام میں وہ نام تبدیل کئے جا چکے ہوں، لیکن لوگوں کی زبان پر وہی پرانے نام تھے۔ مثلاً جالان (شاہراہ) تن رزاق ’’پیکلیلنگ روڈ‘‘ کہلاتا تھا۔ آج کا جالان تنکو عبد الرحمان ’’باتو روڈ‘‘ یعنی پتھروں والا راستہ کہلاتا تھا۔ جالان سلطان اسماعیل اور جالان ہنگ تیا اسی کے عشرے کے آغاز تک ٹریچر روڈ اور شا روڈ کہلاتے تھے۔ اسی طرح آج کی سلطان ہشام الدین اور جالان مہاراجہ لیلا نامی سڑکیں ’’وکٹری ایونیو‘‘ اور ’’جالان برچ‘‘ کہلاتی تھیں۔
ملئی زبان میں فارسی اور عربی کے ساتھ ساتھ کئی ہندی اور سنسکرت کے لفظ بھی شامل ہیں۔ اس لیے ملائیشیا میں آپ کو مہاراجہ اور رانی جیسے کئی الفاظ ملیں گے۔ اس حد تک کہ ملک کے وزیر اعظم کے لیے ملئی لفظ ’’پردھان مینتری‘‘ ہے اور یہ ہندی یا سنسکرت کا لفظ ہے۔ اس کے علاوہ تامل، ملیالم اور کنہڑ زبانوں کے کئی الفاط ملئی زبان میں شامل ہیں، کیونکہ ہندوستان کی یہ زبانیں بولنے والے تامل ناڈو اور مدراس جیسے علاقوں سے تعلق رکھنے والے کئی انڈین یہاں رہتے ہیں۔
انگریز ریزیڈنٹ مسٹر جیمس برچ کے نام پر صرف کوالالمپور کا ’’برچ روڈ‘‘ ہی نہیں، بلکہ ملائیشیا کے دیگر شہروں سریمبان، پینانگ، اپوح اور سنگاپور میں بھی سڑکیں ان کے نام سے موسوم ہیں۔ مجھے دوسرے شہروں کا معلوم نہیں، لیکن سنگاپور کی یہ سڑک آج بھی مسٹر برچ کے نام سے منسوب ہے۔ جیمس برچ (پورا نام جیمس ویلر ووڈ فورڈ برچ) ملائیشیا کی شمالی ریاست پیراک کے پہلے برٹش ریذیڈنٹ تھے۔ وہ 1874ء میں پیراق کے سلطان کے مشیر مقرر ہوئے۔ یہ انگریزوں کا طریقہ واردات تھا۔ وہ سلطان کو بھی خوش رکھنا چاہتے تھے تاکہ عوام کے سامنے اس کی عزت برقرار رہے کہ اب تک وہ سلطان ہے۔ باقی درون خانہ اسے وہی کرنا پڑتا تھا، جو انگریز چاہتے تھے اور وہ اپنے کام اپنے مقرر کردہ ایڈوائزر کے ذریعے کراتے تھے۔ اس طرح انگریز بھی مطمئن رہتے تھے کہ وہ مقامی لوگوں کی بغاوت سے محفوظ رہتے ہیں، وہ اپنا ہر کام بلاواسطہ طور پر مشیر کے ذریعے سلطان سے کراتے تھے۔ ان انگریز مشیروں کا ہر مشورہ حکم کا درجہ رکھتا تھا۔ سلطان میں حکم عدولی کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ طویل و عریض ہندوستان کا حال ان کے سامنے تھا کہ وہاں کے بادشاہوں، حاکموں، نوابوں اور راجائوں کا انگریزوں نے کیا حشر کیا تھا۔ سو ہر ریاست کا حاکم (سلطان) انگریزوں کا ہر حکم ماننے پر مجبور تھا۔
ان برٹش ریزیڈنٹس اور مشیروں کا بڑا رعب و دبدبہ تھا۔
ان پر کوئی انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا تھا، لیکن مذکورہ جیمس برچ 1875ء میں ایک مقامی ملئی سردار داتو مہاراجہ لیلا کے ہاتھوں مارا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ مسٹر برچ قریبی ندی میں غسل کررہے تھے، ایسے میں مہاراجہ لیلا نے بھالوں سے وار کر کے ان کا کام تمام کر دیا۔ اس قتل کے متعلق انگریزوں کا کہنا تھا کہ مہاراجہ لیلا پیراق کے جنگلوں سے یہاں کے قدیم باشندوں کو غلام بنا کر فروخت کرتے تھے، یہ ان کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ انگریز انسانی خریدوفروخت کے خلاف ہیں، اس لیے وہ مہاراجہ کو اس کام سے منع کرتے رہے۔ اسی وجہ سے مہاراجہ نے مسٹر برچ کو قتل کر دیا۔ (یہ انگریزوں کا مؤقف تھا) جبکہ ملئی تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ برچ کو اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ ملئی لوگوں کو کمتر سمجھتے تھے، وہ ہمیشہ ملئی تہذیب اور ثقافت کا مذاق اڑاتے تھے، اس حد تک کہ ریاست کے سلطان کے دربار میں ہر شخص ننگے پائوں داخل ہوتا ہے اور مسٹر برچ جوتوں سمیت گھس آتے تھے۔ ان اطراف (ملائیشیا، تھائی لینڈ) میں سلطان کو پیرومرشد کا درجہ حاصل ہے۔ عام طور پر انگریز ایسی باتوں کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ مقامی لوگوں کی روایات، رسموں، اعتقاد اور دین دھرم کا احترام کیا جائے، تاکہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ لیکن یہ مشہور حقیقت ہے کہ مذکورہ انگریز مسٹر برچ انتہائی خودسر اور بددماغ آدمی تھے۔
ملک کو خودمختاری ملنے کے بعد مہاراجہ لیلا کے اس دلیرانہ اقدام پر انہیں ’’داتو‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ مقامی ملئی انہیں ایک ہیرو کی حیثیت دیتے ہیں۔ برچ کے قتل کے بعد انگریز سرکار نے اس وقت کے پیراک ریاست کے سلطان کو ملک بدر کر کے بحرہند کے سیشلز جزائر پر بھیج دیا۔ مہاراجہ لیلا اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دے دی، ملائیشیا کو خود مختاری ملنے کے بعد یہاں کی حکومت نے برچ روڈ کا نام تبدیل کر کے جالان مہاراجہ لیلا رکھا ہے۔
جس طرح کراچی میں شاپنگ کے لیے صدر کا علاقہ خوبصورت سمجھا جاتا ہے، اسی طرح کوالالمپور کا علاقہ ’’بکت بنتانگ‘‘ مشہور ہے۔ جہاں ہر ٹورسٹ ایک مرتبہ ضرور جاتا ہے، یہ علاقہ گولڈن ٹرائنگل بھی کہلاتا ہے۔ جالان بکت بنتانگ، جالان راجا چولان، جالان پودو، جالان امبی اور جالان سلطان اسماعیل اس علاقے کی اہم سڑکیں ہیں۔ اس علاقے میں خوبصورت شاپنگ سینٹر، ہوٹلز، نائٹ مارکیٹس، ٹھیلے والے اور ہر قسم کے بارز (Bars) اور پارلر واقع ہیں۔ یہاں رنگین بتیوں کی جھلملاہٹ رات کو دن بنا دیتی ہے۔ ہمارے دنوں میں، یعنی آج سے تیس چالیس سال قبل کوالالمپور ہمارے اس وقت کے حیدر آباد اور کراچی کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے باوجود یہ علاقہ ’’بکت بنتانگ‘‘ سب میں خوبصورت اور ماڈرن سمجھا جاتا تھا۔ ہم متذکرہ سڑکوں پر کسی جگہ اپنی گاڑی پارک کر کے اس علاقے میں ٹہلتے رہتے تھے۔ ان ایام میں سڑکیں ایک ہی لیول پر تھیں، جو چوراہوں پر ملتی تھیں۔ اب تو پورے کوالالمپور میں دہلی اور تہران کی طرح اتنے پل تعمیر ہو چکے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کونسا راستہ کہاں ختم ہوتا ہے اور دوسرا راستہ کہاں سے شروع ہوتا ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭