سبحان اللہ!

وطن عزیز میں کوئی بھی بحران یا مسئلہ ہو، حکومت، عدلیہ اور اعلیٰ حکام ازخود نوٹس لینے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔ یہ اور بات ہے کہ کسی نوٹس کا کوئی حتمی یا دیرپا نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ حالات جوں کے توں دکھائی دیتے ہیں۔ متعلقہ ادارے اور ان کے حکام اپنی غفلت، نااہلی، بد دیانتی اور فرض نا شناسی کا الزام دوسروں پر لگا کر خود اپنے متعین کردہ دائروں میں گھوم پھر کر حسب سابق فعال و کار گزار نظر آتے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے بعض ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے مضامین آج بھی اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ کوئی مسئلہ حل نہ کرنا ہو تو اس کا نوٹس لے کر اسے کسی کمیٹی یا کمیشن کے سپرد کرکے سرد خانے میں ڈال دیا جائے۔ اس کے بعد دوسرا، تیسرا یا چوتھا مسئلہ سامنے آتا جائے گا اور لوگوں کی توجہ اس کی جانب مبذول ہو جائے گی۔ پھر کوئی کمیٹی، کمیشن وغیرہ بنا کر انہیں مطمئن کر دیا جائے گا۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے اپنے تبدیلی کے نعرے کو اس طرح پورا کرنے کا آغاز کیا ہے کہ قومی زندگی کا ہر شعبہ بحران کی نذر کر دیا ہے۔ عام شہری وزیراعظم عمران خان کی حکومت سے پہلے جن مسائل سے دوچار تھے، ان میں سونامی طرز کے خطرناک طوفانوں نے بھونچال پیدا کردیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، ٹیکسوں اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں نہ صرف روز مرہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، بلکہ کئی چیزوں کی قلت کے باعث وہ عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ حکومتی زعماء لاکھ کہیں کہ یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں اور لوٹ مار کا شاخسانہ ہے، لیکن اس بات کا جواب ان پر واجب ہے کہ انہیں جب وہی کچھ کہنا اور کرنا تھا جو ان سے قبل حکمران کرتے چلے آرہے تھے، تو محض حکومت کی تبدیلی کس کام کی؟ نئے حکمران تبدیلی کے نعرے لگا کر کس پروگرام اور کن مقاصد کے تحت برسر اقتدار آئے تھے۔ اب جبکہ ثابت ہو گیا ہے کہ ان کے پاس کوئی ٹھوس پالیسی ہے نہ حکمت عملی، بلکہ بار بار کے یوٹرن کی وجہ سے ان کی کوئی سمت بھی واضح نہیں ہوسکی ہے تو شاید وہ بھی دعوے اور وعدے کرکے ملک و قوم کو کچھ دیئے بغیر سابقہ حکومتوں کی طرح وقت گزاری کرکے چلے جائیں گے۔ تازہ ترین بحران موجودہ حکومت کے وزیروں، مشیروں کی نااہلی و ناتجربہ کاری کے باعث پیدا ہوا ہے، وہ گیس کی بندش ہے۔ صوبہ سندھ خاص طور پر اس بحران کا شکار ہے، جہاں چھ سو تیس پمپ بند ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔ واضح رہے کہ کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کی آڑ میں صوبائی اور بلدیاتی حکومتیں پہلے ہی پچاس ہزار کے قریب افراد کو بے روزگار کرکے ان کے لاکھوں اہل خانہ کو فاقہ کشی میں مبتلا کر چکی ہیں۔ انہیں بے گھر و بے در اور بے روزگار کرنے کے بعد شیخ چلی کی طرح اب منصوبے بنانے پر غور ہو رہا ہے کہ انہیں کہاں متبادل جگہ دی جائے اور کس طرح ان کے روزگار کو بحال کیا جائے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر پیٹرول پر کم از کم دس افراد کام کرتے ہیں، اس طرح فوری طور پر ساڑھے چھ ہزار سے زائد افراد اور تیل کی پیداوار اور فراہمی پر مامور دیگر ہزاروں ملازمین پر بے روزگاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔
بات بات پر اجلاس طلب کرکے بریفنگ لینے والے وزیر اعظم عمران خان نے اس معاملے میں بھی تساہل کا مظاہرہ نہیں کیا اور گیس بحران کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ایک کمیٹی قائم کر دی۔ انہوں نے کمیٹی کو سوئی گیس کی دونوں کمپنیوں کے سربراہوں کے خلاف مبینہ غفلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے بہتّر گھنٹوں میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔ وزیراعظم ذرا یہ بھی بتادیں کہ ان کے اور سپریم کورٹ کی جانب سے اب تک لئے جانے والے متعدد نوٹسوں، احکام اور تحقیقاتی رپورٹوں کے نتائج کیا برآمد ہوئے ہیں۔ نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر اور دیگر ادارے اربوں روپے کی وصولی کے دعوے کررہے ہیں۔ اس کے باوجود قومی زندگی کے کسی شعبے میں ان رقوم سے بہتری کے آثار نظر آتے ہیں، نہ عوام کو معمولی سہولت بھی حاصل ہوسکی ہے۔ الٹا مہنگائی کا پہیا تیزی سے گھومتا ہوا انہیں مزید بدحواس کرتا دکھائی دیتا ہے۔ گیس بحران حل نہ ہونے کی وجہ سے صنعتوں کا ستّر فیصد کام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے روزگاری کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے۔ برآمدات کو دھچکا لگنے سے قومی معیشت مزید اور شدید نقصان سے دوچار ہوگی۔ ادھر حکومت کے ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے یومیہ کے محاصل رک گئے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی سے عوام کی پریشانی اور کرایوں میں اضافے اور ٹرانسپورٹروں کی لوٹ مار کا احساس و ادراک کرنے کی حکومت شاید ضرورت ہی محسوس نہیں کرتی۔ پیٹرولیم کے وزیر غلام سرور خان نے حسب روایت گیس بحران کا ذمے دار سوئی سدرن اور نادرن کمپنیوں کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کچھ گیس کمپریسر پلانٹس کی خرابی اور طلب و رسد کا تخمینہ حکومت سے چھپایا، جبکہ سوئی سدرن گیس کا کہنا ہے کہ گیس کی مقدار میں واضح کمی آئی ہے۔ اسباب کچھ بھی ہوں، صارفین کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ بھاری قیمت ادا کرکے گیس خریدتے ہیں، جس کی فراہمی بنیادی طور پر حکومت کی ذمے داری ہے۔ سندھ ملک بھر کو سب سے زیادہ گیس فراہم کرنے والا صوبہ ہے، لیکن اسی کو گیس سے محروم کیا جا رہا ہے۔ صنعتیں بند اور ٹرانسپورٹ کا پہیا جام ہونے کے علاوہ گیس کی لوڈ شیڈنگ سے گھریلو صارفین بھی عذاب میں مبتلا ہیں۔ وہ پرانے طرز کے چولہے استعمال کرنے اور لکڑی کوئلہ وغیرہ جلانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یاد رہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے کئی علاقوں میں گیس کی بندش ہفتے میں تین روز کی جاتی تھی، لیکن اب گزشتہ چار روز سے غیر معینہ مدت تک گیس کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہونے کے بجائے بیانات کے یوٹرن لے کر عوام کو فریب دینے کی مسلسل کوششوں میں مصروف ہے۔ اس حکومت میں سب سے زیادہ ناکام ہونے والے وزیر خزانہ اسد عمر کہتے ہیں کہ معاشی بہتری کے لئے ہم نے ابتدائی سو دنوں میں خود ہی اقدامات کرلیے، یعنی آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن لینے اور اس کی شرائط کا انتظار کرنے سے پہلے ہی پاکستان کرنسی کی قدر میں کمی کے ذریعے اسے بے آبرو کرنے، شرح سود اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کرلیے، جو ہمیں ضروری لگ رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی اسد عمر نے دعویٰ کیا کہ ہماری اقتصادی اور مانیٹرنگ پالیسی صحیح سمت میں جا رہی ہے۔ سبحان اللہ! اس درست سمت کے کیا کہنے کہ سود خور عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں کا انتظار بھی نہیں کیا گیا اور خود ہی عوام دشمنی کے اقدامات کرکے فخر و مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے، جو غلامی کی بدترین شکل ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment