اور… پاکستان ٹوٹ گیا (حصہ اول)

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی

’’تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے
اس پہ دل قربان اس پہ جان بھی قربان ہے‘‘
ٹی وی پہ امجد حسین کا گایا ہوا قومی نغمہ مجھے برسوں پرانی یادوں میں بھگو گیا، میری آنکھیں نمکین پانی سے بھیگنے لگیں۔ آنسو تو یادوں کے نقیب ہوتے ہیں۔ اگر یاد خوشگوار، دلکش اور خوبصورت لمحے کی ہوں تو صندل کی خوشبو کی طرح مہکنے لگتی ہیں۔ اگر اذیت اور دکھ ان سے وابستہ ہوں تو ببول کے کانٹے خود بخود جیسے دل کو زخمی کرنے لگتے ہیں۔ اس نغمے سے جڑی یادوں میں میرا بچپن میرا پرانا محلہ میرے پرانے ساتھی جو رشتہ داروں سے بڑھ کر تھے وہ سب شامل ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد کراچی میں جہانگیر روڈ، مارٹن روڈ، کلفٹن روڈ، جیکب لائن وغیرہ سرکاری ملازمین کے رہائشی علاقے تھے، جہاں ہندوستان سے آنے والے مہاجر آباد ہوتے تھے۔ ہاں مگر کچھ لوگ مشرقی پاکستان سے حکومتی احکامات پر تبادلہ کی وجہ سے بھی ان علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔ جہانگیر روڈ اور گارڈن روڈ پر بنگالی بولنے والے پاکستانی آفیسر رہتے تھے۔ ہماری رہائش اس وقت جہانگیر روڈ پر تھی، جہاں اکثریت بنگالیوں کی تھی۔ دس دس مکانات کی لائن میں کم از کم پانچ مکانوں میں مشرقی پاکستان سے آئے بنگالی رہتے تھے اور ان بنگالیوں کی بیویاں سندھی، پنجابی اردو بولنے والی اور پٹھان تھیں، جن کی زبان ضرور مختلف تھی۔ رہن سہن اور ثقافت بھی الگ تھی، مگر زوجین میں محبت اور ذہنی ہم آہنگی تھی۔ زبان اور رسم و رواج کے اختلاف کے باوجود وہ سب پرسکون اور آسودہ زندگی بسر کررہے تھے۔ ان کے بچے آپس میں مل کر کھیلتے، محلے میں ایک دوسرے کے گھروں میں کھانے پینے کی چیزیں اور تحفے تحائف بھیجے جاتے۔ مجھے یاد ہے ہمارے پڑوس میں ڈھاکہ سے عبد الحکیم اور ان کی فیملی آباد تھی۔ خاتون کا نام ’’دینا‘‘ تھا اور ان کو سارے محلے کے بچے دینا بھابھی کہتے تھے۔ عبد الحکیم سارے محلے کے بھائی عبد الحکیم تھے۔ دینا بھابھی گورے رنگ، تیکھے نقوش اور لمبے سیاہ بالوں والی خوبصورت خاتون تھیں۔ بھائی عبد الحکیم اچھے خاصے گہرے سانولے رنگ کے پختہ عمر کے تھے۔ دینا بھابھی اردو سے ناواقف تھیں، مگر بھائی عبد الحکیم کو اچھی خاصی اردو بولنا آتی تھی۔ ان کی ایک چھ سات ماہ کی بچی لیلیٰ تھی جو اپنی ماں کی طرح خوبصورت تھی۔ وہ خاندان جس دن سے ہمارے پڑوس میں آکر آباد ہوا، لیلیٰ کی آمدورفت اسی دن سے شروع ہو گئی۔ کیونکہ میری امی جان مزاجاً بے حد ہمدرد دوسرے کے مسائل کو سمجھنے والی، ہر مشکل میں ساتھ دینے والی تھیں۔ ہمسائے کے حقوق نبھانے میں وہ احادیث پر سختی سے عمل کرتی تھیں۔ اس لیے لیلیٰ کی پرورش امی نے خودبخود اپنے ذمہ لے لی۔ ابا جان کی فرمائش پر وہ آہستہ سے کہتیں ’’دینا ابھی کم عمر ہے، بچی کا رکھنا دیکھ بھال کرنا اسے مشکل لگتا ہوگا۔ پتہ نہیں کیوں لوگ چھوٹی چھوٹی لڑکیوں کو بیاہ دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو اس عمر کی لڑکیاں گڑیاں ہی کھیلتی ہیں۔‘‘ یہ ان کی نیک فطرت ہونے کا ایک واضح ثبوت تھا کہ وہ اٹھارہ سال کی لڑکی کو کم عمر بچی سمجھ کر اس کی ساری مادرانہ ذمہ داریاں اپنے سر لینے کے لیے تیار ہو گئیں۔ ابا جان ان کے مزاج داں تھے۔ مسکرا کر کہتے ’’تم انتہائی معصوم اور نیک ہو، اپنی نیک فطرت سے کوئی نقصان نہ پہنچا لینا اپنے آپ کو۔‘‘ امی ان کی شہ پاکر سیدھا پڑوس میں جاتیں اور لیلیٰ کو اس کے لوازمات کے ساتھ اٹھا لاتیں۔ دینا بھابھی نے بھی امی کی محبت اور ہمدردی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ وہ صبح ہی بچی کو فیڈ کرا کے امی کے پاس پہنچا دیتیں۔ امی دن بھر نانیوں، دادیوں کی طرح (اس وقت نانی دادی ایسی ہی ہوتی تھیں) اس کو دھلاتی، نہلاتیں، مالش کرتیں، سلاتیں، غرضیکہ سارا دن اسی کی ناز برداری کرتی رہتیں۔ ہم لوگوں کے ہاتھ بھی ایک کھلونا آگیا تھا، اس لیے اس میں سب مگن ہو گئے۔ دینا بھابھی صرف مچھلی کا سالن پکانا جانتی تھیں اور وہ بھی ایسا کہ ہمارے گھر کے مرد تو اس کو زبان پر رکھنا بھی پسند نہ کرتے تھے۔ دینا بھابھی کے مچھلی کے سالن میں اتنی زیادہ بساند ہوتی کہ کئی گھروں تک ان کے سالن کی پول کھل جاتی۔ میں امی کو مچھلی پکاتے دیکھتی تو حیران ہوئی۔ وہ بڑی صفائی احتیاط سے مچھلی کو بیسن سے صاف کر کے اس میں کالی مرچ نمک اور لیمو کا عرق نچوڑ کر رکھ دیتی۔ مچھلی کے لیے مصالحہ کو ہمیشہ دانہ میتھی ڈال کر بھونتی ، پھر اس میں تلے ہوئے مچھلی کے ٹکڑے دم پر لگا دیتیں۔ ابا جان کو امی کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے اور خصوصاً مچھلی بہت پسند تھی۔ ہمارے ہاں سے ہر روز دینا بھابھی کے ہاتھ کوئی نہ کوئی پکی ہوئی ڈش جاتی۔ کیونکہ بھائی عبدالحکیم کو اب امی کے ہاتھ کے کھانے بہت پسند آنے لگے تھے۔ اگر کسی دن امی ان کے ہاں کچھ نہ بھجوا پاتیں تو دینا بھابھی خود بے تکلفی سے لینے آجاتیں۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہتیں ’’امی آپ کا بیٹا اب میرا کھاجا پسند نہیں کرتا وہ بولتی ہے کہ امی کا کھاجا لائو۔ ‘‘ ہم سب ان کے مذکر مونث پر ہنستے۔ امی مسکرا کر ڈش بھر کر سالن ان کو پکڑا دیتیں۔ لیلیٰ اپنی امی کو دیکھتی اور بے نیازی سے سر جھکا کر کھیلنے لگتی۔ نہ ہمکتی نہ جانے کی ضد کرتی۔ لیلیٰ کی سالگرہ ہمارے ہاں منائی جاتی۔ امی اس کے لیے فراکیں، چوڑی دار پاجامے، غرارے شلوار قمیض سیتیں۔ سردیاں آنے سے پہلے لیلیٰ کے لیے سوئٹر کے کئی کئی سیٹ بنا دیتیں۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بجنے والے ہر گانے کے ساتھ وہ ننھی منی سریلی آواز میں آواز ملا کر گانے کی کوشش کرتی۔ ’’تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے۔‘‘ اسے بہت پسند تھا۔ وہ تالیاں بجا کر امجد حسین کے گائے ہوئے نغمے کو سراہتی۔ چار سال کی عمر میں دینا بھابھی نے اس کو اسکول میں داخل کر دیا۔ وہ صبح بھائی عبدالحکیم کے ساتھ گاڑی میں اسکول جاتی، واپسی پر ساڑھے بارہ بجے اسکول سے ہمارے ہی دروازے پر اترتی۔ امی دینا بھابھی سے زیادہ بے قراری سے اس کا انتظار کرتیں۔
دینا بھابھی کی گود میں تین بچے اور آچکے تھے۔ وہ سب بھی ہمارے چہیتے تھے، مگر لیلیٰ جیسی بات نہ تھی۔ گھر بھر کی لاڈلی، نازک مزاج، دھونس سے اپنی بات منوانے والی، بھیا اور اباجان کی تو بے حد لاڈلی تھی۔ بھیا یونیورسٹی سے واپسی پر اور ابا جان آفس سے لوٹتے وقت اس کی کسی نہ کسی فرمائش کو پورا کرتے ہوئے دکانوں کے چکر لگاتے نظر آتے۔ لیلیٰ سینٹ جوزف اسکول میں پڑھ رہی تھی۔ انگریزی وہ اتنے خوبصورت انداز میں بولتی کہ سب حیران ہو جاتے۔ اردو امی نے رواں کر دی تھی۔ بنگالی اس کی اپنی زبان تھی۔ پنجابی، سندھی اور پشتو بولتے اس کو ذرا بھی تامل نہ ہوتا ۔ یوم پاکستان اور یوم آزادی پر وہ قومی نغمے اتنی خوب صورت اور سریلی آواز میں الاپتی کہ ماحول میں کیفیت اور جوش پیدا ہو جاتا۔ گلے کا سر اور رچائو اس کی آواز میں تھا۔ ہم لوگ ہر سال دینا بھابھی کے ساتھ اس کے اسکول کی تقریبات میں شرکت کرتے۔ جیوے جیوے پاکستان، سوہنی دھرتی، تیرا پاکستان ہے، یہ تمام نغمے اس کے پسندیدہ تھے۔ مقابلہ نعت خوانی کا ہو یا تقریر کا۔ فینسی ڈریس کا ہو یا ڈرامہ میں کوئی کردار ادا کرنے کا وہ ہر جگہ اعتماد کے ساتھ نظر آتی اور مقابلہ جیت کر آتی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment