تھر: کھلے زخم اور سلے ہونٹ

چیف جسٹس کا دورئہ تھر مکمل ہوا، مگر وہ صحرا آج بھی ان کا منتظر ہے، جو صحرا بھوکا ہے، پیاسا ہے، بیمار ہے اور بے بس ہے۔ حکومت سندھ نے چیف جسٹس کی اس تھر سے ملاقات نہیں کروائی، جس کی فریاد پر انصاف کرنے کے لیے وہ اسلام آباد سے آئے تھے۔ حکومت سندھ نے پروٹوکول کے پردے میں اس تھر کو چھپا دیا، جس تھر کے کیکٹس جیسے سوکھے ہونٹوں پر صرف یہ سوال ہے کہ مجھے انصاف کب ملے گا؟ اگر چیف جسٹس حکومت سندھ کے بغیر وہاں تشریف لاتے تو اہلیان تھر ان کو اپنے زخم دکھاتے۔ مگر وہ سارے فریادی ملک کے سب سے بڑے منصف سے دور رکھے گئے۔ چیف جسٹس کے گرد ایک سخت سرکاری دائرہ بنایا گیا تھا۔ اس دائرے کی لکیر کو عبور کرنے کی طاقت ان کمزور انسانوں میں کس طرح ہوسکتی ہے جو اگر ڈرے اور سہمے ہوئے نہ ہوتے تو صدیوں سے ظلم و ستم کے پیروں تلے کچلتے نہ رہتے۔ ممکن ہے کہ چیف جسٹس نے سوچا ہو کہ جس طرح کراچی میں انصاف کے طالب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سختی کرنے کے باوجود چیف جسٹس کے پاس پہنچ جاتے ہیں، اسی تھر اہلیان تھر بھی ملک کے سب سے بڑے منصف کے پاس اپنی اپنی فریاد لے کر پیش ہو جائیں گے۔ کوئی تھری ماں اپنے بچے کے بارے میں بتائے گی کہ وہ کس طرح مر گیا؟ اس کو کس طرح کہا گیا کہ ’’تم نے اسپتال آنے میں دیر کردی‘‘! وہ کیا بتاتی کہ وہ اس گاؤں سے آئی ہے جہاں اب تک جانور اور انسان ایک ہی تالاب سے پانی پیتے ہیں۔ جہاں کوئی ایمبولینس نہیں آتی۔ جہاں موبائل فون کے سگنل بھی نہیں آتے۔ وہاں سے پیدل آکر ایک دوسرے گاؤں سے اس گاڑی میں بیٹھنا ہوتا ہے، جو گاڑی پورے دن میں صرف ایک بار آتی ہے۔ اس گاڑی میں آتے آتے دیر تو لگ جاتی ہے صاحب!
چیف جسٹس اگر اس عورت کی بات سنتے تو اس اذیت سے آگاہ ہو جاتے، جس اذیت میں اہلیان تھر صدیوں سے سسک سسک کر جی رہے ہیں۔ وہ عورت صرف اپنا درد نہیں، بلکہ پورے صحرا کا درد بیان کرتی۔ وہ اپنے ملک کے منصف کو بتاتی کہ صرف اس کے دل کا ٹکڑا دھرتی میں مدفون نہیں ہوا، بلکہ اس کے گاؤں میں بہت سارے گلاب کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے۔ ابھی ماؤں نے انہیں پیدا کیا تھا۔ ابھی خالاؤں اور پوپھیوں نے ان کے لیے نام بھی نہیں سوچے۔ ابھی ان کے لیے ریشمی تار والی ٹوپی بھی تیار نہیں ہوئی۔ ابھی کسی ننھی منی کلائیوں میں کالے دھاگے بھی نہیں باندھے گئے۔ ابھی معصوم فرشتے کی آمد کی خوشی مناتے ہوئے گاؤں کی لڑکیوں نے لوک رقص بھی نہیں کیے۔ ابھی گیت نہیں گائے گئے۔ ابھی مور مبارک دینے نہیں آئے۔ ابھی کویل نے کوکا تک نہیں۔ ابھی بادل کے ٹکڑے سے بارش کی ایک بوند تک نہ برسی۔ ابھی ریت کے ٹیلے پر سنہری چاند نہیں چمکا۔ ابھی ماں مسکرا بھی نہ سکی۔ ابھی بچے نے بہت دور چمکنے والے چھوٹے سے ستارے کی طرح آنکھیں کھولیں اور حیرت سے ادھر ادھر دیکھا۔ پھر اس نے ایسے آنکھیں بند کیں کہ پھر کبھی نہ کھولیں۔ وہ تھر کی ماں اپنے گاؤں کے ان سارے بچوں کے بارے میں بتاتی جنہوں نے بیماری کی وجہ سے آخر میں رونا چھوڑ دیا تھا۔ تھر کی اس ماں کو نہیں پتہ کہ عوام کے حقوق کیا ہوتے ہیں؟ مظلوم مطالبات کس طرح کرتے ہیں؟ اگر چیف جسٹس صاحب دختر تھر سے پوچھتے کہ آپ کو کیا چاہئے؟ تو شاید وہ کہتی ہمیں بچوں کے لیے الگ قبرستان چاہئے۔ ایسا قبرستان جو گھروں کے نزدیک ہو۔ چھوٹے بچے دور قبرستان میں بہت گھبراتے ہوں گے۔ اگر تھر کے بچوں کے قبرستان گھروں کے نزدیک ہوں گے تو رات ڈھلے مائیں اپنے لال کی چھوٹی سی قبر پر ہاتھ پھیر کر لوری گا سکیں گی۔ جب بڑے انتظار کے بعد بادل برسیں گے تب وہ تصور میں اپنے مدفون بچے کو بارش میں اچھلتا کودتا محسوس کریں گی۔ ایک مظلوم ماں کے لیے یہ بھی بہت ہے!
کاش! چیف جسٹس تھر میں بھوک اور بیماری کی وجہ سے مرنے والے بچوں کی ماؤں سے مل سکتے۔ مگر مردہ بچوں کی ماؤں کو ملک کے منصف سے دور رکھا گیا۔ حکومت سندھ نے ایسا پختہ انتظام کیا کہ چیف جسٹس کی نظر تھر کے تن بدن میں لگے ہوئے ان زخموں تک نہ پہنچ پائی جو مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے ناسور بن چکے ہیں۔ ستر برسوں کی فریاد چند گھنٹوں میں کس طرح پیش ہو سکتی تھی؟ مگر پھر بھی مظلومیت کے کٹہرے میں اس تھر کو کھڑا ہونے کا حق میسر نہیں ہوا، جس کو مسنگ پرسنس کی طرح گم کر دیا گیا۔ چیف جسٹس کو اس بات کا احساس اسلام آباد جانے کے بعد ہوا کہ وہ صحرا میں سفر کرنے کے لیے اگر اپنے ساتھ کوئی سچا، کھرا اور قابل اعتبار گائیڈ لیتے تو وہ اس تھر کو دیکھ پاتے، جہاں زندگی اس طرح تڑپتی ہے، جس طرح بچھو کے زہر سے انسان تڑپتا ہے۔ بھوک کی تکلیف سب سے بڑی ہوتی ہے۔ مگر جب جگر کے ٹکڑے جدا ہو جائیں تو اس جدائی میں بھوک کا درد بھی دب جاتا ہے۔ تھر میں لوگ کس قدر مشکل میں ہیں؟ کاش! چیف جسٹس وہ سب کچھ دیکھ پاتے، جس کی وجہ سے تھر درد کا گھر ہے۔ چیف جسٹس سے اس تھر کو چھپانے میں انتظامیہ کامیاب ہوگئی، جس تھر کے لوگ غربت سے تنگ آکر خود کشیاں کرتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر چلایا گیا آر او پلانٹ تو دکھایا گیا، مگر ان کی نظروں سے وہ گہرے کنویں پوشیدہ رہے، جن میں کود کر تھری عورتیں اپنے آپ کو زندگی کی تکلیف سے نجات دلاتی ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے دورئہ تھر کو حکومت سندھ نے اپنی مخصوص حکمت عملی سے ہائی جیک کرلیا۔ ان کے دورئہ تھرپارکر کو مٹھی، اسلام کوٹ اور ڈیپلو تک محدود کر دیا گیا۔ چیف جسٹس کو بتایا گیا اور غلط بتایا گیا کہ یہی تھر ہے۔ حالانکہ یہ تین شہر اس تھر کی نمائندگی نہیں کرتے، جس تھر کے لوگ بہت افسردہ ہیں۔ جس تھر میں لوگ سرکار سے حق نہیں مانگ سکتے۔ جس تھر کی غربت اور پس ماندگی کا سبب وہ کرپشن ہے، جس کی وجہ سے تھر کے شہروں میں پیپلز پارٹی کے جن رہنماؤں کے گھر کچے پکے تھے، اب وہاں قلعہ نما محل تعمیر ہیں۔ وہ جو دس برس قبل مہران کار پر سفر کرتے تھے، آج ان پاس تین چار پراڈو ہیں۔ ان پر کبھی احتساب کے ہاتھ نہیں پڑے۔ تھر کے وہ بڑی جاتی کے ہندو جو ہر سال بلاول بھٹو کی دعوت کرتے ہیں اور اس کے سر پر تھر کی مخصوص پگڑی باندھ کر ان سے ہولی کھیلتے ہیں۔ حقائق سے ناآشنا بلاول بھی یہی سمجھتا ہے کہ تھر رنگوں سے کھیل رہا ہے۔ تھر مور کی طرح ناچ رہا ہے۔ تھر کویل کی طرح کہہ رہا ہے:
’’ہولی کھیلے کھیلے نند لال‘‘
پیپلز پارٹی کے نند لال تو ہولی کے رنگ، ایک ٹیکے اور ایک آرتی میں خوش ہو جاتے ہیں، مگر وہ تھر اس جشن سے بہت دور رہتا ہے، جس تھر کے لوگ اب تک مٹھی کے اسپتال میں داخل ہوتے ہیں تو اپنے پیروں کے پھٹے پرانے جوتے ہاتھوں میں اٹھا لیتے ہیں کہ کہیں سرکاری فرش میلا نہ ہو جائے۔
اس تھر سے چیف جسٹس نہیں مل پائے، جس تھر کے لوگ مٹھی کو بہت بڑا شہر سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مٹھی دنیا کا سب سے مہنگا اور انسانی آبادی سے بھرا ہوا شہر ہے۔ وہ مٹھی بھی کل تک ایسا نہیں تھا جیسا آج ہے۔ آج مٹھی میں تھر کی وہ مخصوص مڈل کلاس پیدا ہو چکی ہے جو سرکاری نہیں تو غیر سرکاری مگر ملازمت ضرور کرتی ہے۔ اس مڈل کلاس کا اچھا خاصا حصہ ان این جی اوز میں کام کرتا ہے، جو عجیب و غریب پروجیکٹس پر کام کرتی ہیں۔ یہ بات سن کر اہلیان کراچی کو حیرت ہوگی کہ مٹھی شہر میں مکانوں کے کرائے گلستان جوہر سے زیادہ ہیں۔ مصنوعی انداز سے پیدا ہونے والی مڈل کلاس کی وجہ سے مٹھی اب اس تھر کا نمائندہ شہر نہیں رہا، جس تھر کے دیہاتوں میں اب تک پکی سڑکیں نہیں ہیں۔ جس تھر میں لڑکیوں کے تو کیا، لڑکوں کے اسکول بھی نہیں ہیں۔ جس طرح پیپلز پارٹی کے امیر رہنما غریب سندھ کے نمائندے بن کر پیش ہوتے ہیں، مٹھی بھی تھر کی نمائندگی اسی طرح کرتا ہے۔ چیف جسٹس کو صرف کوئلے کے پروجیکٹس کے بارے میں غلط بریفنگ دی گئی اور انہیں مٹھی کے اسپتال کا منظر دکھایا گیا اور انہیں اس آر او پلانٹ کا پانی پلایا گیا، جس پلانٹ کا پانی حکومت سندھ کے سربراہ مراد علی شاہ نے نہیں پیا۔ تھر اپنے کھلے ہوئے زخموں اور سلے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ اس تقریب سے دور رہا، جس تقریب میں تھر کی صورت حال کو غلط انداز سے بیان کیا گیا۔ جس تقریب میں مٹھی کے اسٹیج پر وہ ڈرامہ کھیلا گیا، جو ڈرامہ کچھ عرصہ قبل ضیاء الدین اسپتال میں کھیلا گیا تھا۔ وہ ڈرامہ چیف جسٹس آف پاکستان کس طرح فراموش کر سکتے ہیں کہ جب وہ ضیاء الدین اسپتال سے جناح اسپتال پہنچے تو شراب کی بوتلیں شہد کی بوتلوں میں تبدیل ہو چکی تھیں۔ جس طرح اپنی مخصوص لیبارٹریز میں اس شہد کو چکھ کر چیک کرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئیں، ویسا ہی مظلوم تھر کو منصفِ اعلیٰ سے دور رکھنے کے انتظامات کیے گئے اور ایسا کرنے والے وقتی طور پر کامیاب بھی ہوئے۔ اس لیے مٹھی میں بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ’’سندھ حکومت کو تھر میںمزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ مگر جب وہ مٹھی سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد پہنچے، تب ان کو حقیقت کا علم ہوا کہ اس بار بھی حقائق پر کس طرح پردہ ڈالا گیا؟ اسلام آباد میں چیف جسٹس نے کہا کہ ’’مجھے دکھانے کے لیے عارضی اسپتال بنایا گیا، جس کو بعد میں ختم کیا گیا۔‘‘ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ’’آر او پلانٹ کا پانی پینے کے بعد سارا دن پریشان رہا۔‘‘
اسلام آباد میں تھر کے متعلق چیف جسٹس کا بیان اس تلخ سچائی کا اظہار ہے کہ ملک کے سب سے بڑے منصف نے عرصے کے بعد تھر کا دورہ بھی کیا، مگر تھر میں ان کو اس تھر سے دور رکھا گیا، جس تھر کو دیکھنے کے لیے وہ دل میں احساسات کی آبشار بہاتے ہوئے اس صحرا کی طرف گئے تھے، جس کے ہونٹ سوکھے ہیں۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ تھر سے ملیں، تھر کو دیکھیں اور تھر سے پوچھیں کہ کیسا ہے؟ مگر اس مظلوم علاقے کے محکوم عوام کو ملک کے منصف اعلیٰ سے دور رکھا گیا۔
انصاف کا مسیحا آیا، مگر اس تھر سے نہ مل پایا، جس تھر کے زخم کھلے اور ہونٹ سلے ہیں! ٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment