نئی حکومت کو قائم ہوئے چار ماہ ہونے کو ہیں، مگر حزب اختلاف اور حکمراں اتحاد میں اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ہنوز قومی اسمبلی میں اسٹینڈنگ کیمٹیوں کی تشکیل عمل میں نہ آسکی۔ اس کا بنیادی سبب پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین سے متعلق فریقین میں عدم اتفاق تھا۔ اس کمیٹی کے بعد ہی دوسری کمیٹیاں تشکیل پاتی ہیں۔ پھر ان کمیٹیوں کا وجود قانون سازی کیلئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک قائمہ کمیٹیاں نہیں بنیں گی، قانون سازی کا عمل شروع نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ نئی قومی اسمبلی وجود میں آنے کے بعد اس کے متعدد اجلاس بلکہ کئی سیشن ہو چکے ہیں۔ قومی اسمبلی قانون ساز ادارہ ہے، جس کا بنیادی کام سوائے قانون سازی کے کچھ نہیں۔ چار ماہ کے دوران سینکڑوں اراکین اسمبلی اسلام آباد یاترا کرتے رہے اور قومی خزانے سے ٹی اے ڈی اے سمیت مراعات وصول کرتے رہے، قومی خزانے سے ہر اجلاس پر تقریباً پونے تین کروڑ روپے خرچ ہوتے رہے، مگر قائمہ کمیٹیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے بنیادی کام یعنی قانون سازی کی طرف ہنوز کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ قانون سازی کے علاوہ بھی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ قائمہ کمیٹی متعلقہ وزرا کی نگرانی اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اصول کا تقاضا ہے کہ حکومت کے قیام کے تیس روز میں ان کمیٹیوں کی تشکیل عمل میں لانی چاہئے۔ جن کی تعداد تقریباً دو درجن بنتی ہے۔ مگر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے تنازعہ کی وجہ سے یہ معاملہ ہنوز لٹکا ہوا ہے۔ وفاقی حکومت کی وزارتوں اور محکموں کے مالی معاملات کی چھان بین اس کمیٹی کا کام ہے۔ جبکہ اس کمیٹی کے چیئرمین کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وزیر یا سرکاری محکمے کے سربراہ کو طلب کرے، یہاں تک کہ نیب چیئرمین کو طلب کرسکتا ہے۔ اگر وہ مطمئن نہ ہو تو وہ تحقیقات کا حکم دے سکتا ہے۔ اس لئے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ قانونی طور پر اس کمیٹی کا چیئرمین حزب اقتدار اور اختلاف دونوں جماعتوں سے بن سکتا ہے، تاہم چونکہ اسے حکومت کو ملنے والی رقوم کا حساب کتاب لینا ہوتا ہے، اس لیے ماہرین کے مطابق حکومت کا اپنا چیئرمین ہونا مناسب نہیں۔ لہٰذا حزب اختلاف کا اصرار ہے کہ اس کے قائد میاں شہباز شریف کو اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا جائے۔ اگر انہیں یہ منصب نہیں دیا گیا تو حزب اختلاف کسی بھی قائمہ کمیٹی کا حصہ نہیں بنے گی۔ جبکہ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ ایک ایسے شخص کو اس کمیٹی کا چیئرمین نہیں بنایا جا سکتا، جس پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ اس لئے یہ معاملہ حل ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ تاہم اب حکومتی جماعت کے موقف میں کچھ لچک پیدا ہوگئی ہے اور وہ اپنے فیصلے پر فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر تیار ہوگئی ہے۔ جمعرات کو تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے شہباز شریف کو پبلک کمیٹی کے چیئرمین بنانے کا واضح اشارہ دیدیا۔ سیاست کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔ جب کسی سخت مؤقف کی وجہ سے آئینی مسائل پیدا ہونے کا امکان ہو تو اپنی بات پر نظرثانی کرنا کوئی غلط اقدام نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ویسے بھی یوٹرن کو عظیم رہنما کی علامت قرار دے چکے ہیں۔ اس لئے اس مثبت یوٹرن پر قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق نے انہیں مبارک باد پیش کی ہے۔ اس اقدام سے جمہوریت مضبوط، آئینی مسائل حل اور پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہوگی۔ حکومت نے گرین سگنل دیدیا ہے تو اب سوشل میڈیا میں جاری تنقید کو دیکھ کر اسے پھر یوٹرن نہیں لینا چاہئے۔ اگر فریقین نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنائے رکھا تو قانونی پیچیدگیاں بڑھیں گی۔ قائمہ کمیٹیاں نہ بننے سے جب قانون سازی نہیں ہوگی تو عوامی مسائل کیا خاک حل ہوں گے۔ سابقہ دور حکومت میں بھی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اس کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ اب فریقین کو چاہئے کہ پارلیمانی معاملات کو آگے بڑھانے کیلئے جلد از جلد کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ قانون سازی کا عمل شروع کیا جا سکے۔
شراب خانہ خراب
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رکن رمیش کمار کی شراب پر پابندی سے متعلق پیش کردہ قرارداد کو ’’مسلم‘‘ ارکان نے اتنی بھی اہمیت نہ دی کہ یہ قرارداد اسمبلی پیش ہی ہوتی، اس کا پاس ہونا یا نہ ہونا تو بعد کی بات تھی۔ گویا ہمارے عوامی نمائندے شراب کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔ ان کے یہاں قرآن و سنت کے دلائل کی خیر کوئی اہمیت ہی نہیں، لیکن کاش کہ وہ شراب کے بارے میں جدید تحقیقات اور عالمی طبی اداروں کی سروے رپورٹوں کا ہی سرسری جائزہ لیتے۔ گزشتہ دنوں عالمی ادارہ صحت (WHO) نے شراب خانہ خراب سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے۔ پانچ سو صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میںشراب سے دنیا بھر میں پھیلی تباہی کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق سالانہ تیس لاکھ سے زیادہ افراد شراب نوشی کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں (جو کہ قطر جیسے ممالک کی کل آبادی سے زیادہ ہے) دنیا میں ہر بیسویں شخص کی ہلاکت کی وجہ شراب نوشی ہے۔جن میں 20 سے 29 سال کے نوجوانوں کی تعداد تیرہ فیصد ہے۔ شراب کے نشے میں جن افراد نے دوسروں کو جانی یا مالی نقصان پہنچایا، اس کے اعداد و شمار اس رپورٹ کا حصہ نہیں ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ شراب یا الکحل کا استعمال دو سو سے زیادہ بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، جن میں جگر اور کینسر کی کئی اقسام شامل ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ شراب پینے والے یورپ میں ہیں جبکہ امریکہ کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ معاشروں کو تباہ کرنے والی اس بری عادت کے خلاف جنگ کی ضرورت ہے۔ ادارے نے اقوام عالم پر زور دیا ہے کہ شراب نوشی کے سد باب کیلئے بھر پور کوشش کریں۔ ان بے شمار جانی، مالی اور سماجی نقصانات کی وجہ سے شریعت مطہرہ نے شراب کو ام الخبائث کہہ کر اسے حرام قرار دیا ہے۔ بلکہ اسلام کے علاوہ، عیسائیت اور ہندومت سمیت کئی مذاہب میں اس کا استعمال ممنوع ہے۔ مگر ہمارے حکومتی ترجمان فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ قانون سازی سے کیا ہوتا ہے؟ جس نے پینی ہو وہ پیتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭