اور… پاکستان ٹوٹ گیا (آخری حصہ)

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
میٹرک میں اے ون گریڈ حاصل کرنے کے بعد لیلیٰ کا داخلہ سینٹ جوزف کالج میں ہوگیا۔ 1960ء میں مشرقی پاکستان میں شدید سیلاب آیا، جس نے بہت زیادہ تباہی مچائی۔ گائوں کے گائوں ڈوب گئے، کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں، شہر کے لوگوں کا بہت نقصان ہوا۔ ڈھاکہ کے قریب چھوٹی سی بستی میں ڈوبنے والوں میں دینا بھابھی کا سسرال بھی تھا۔ بھائی عبدالحکیم کے گھر کے تمام افراد سیلاب کی نذر ہو گئے۔ یہ اتنا بڑا صدمہ اور نقصان تھا جس کی تلافی ناممکن تھی۔ بھائی عبدالحکیم تو اس خبر سے صدمے سے نڈھال ہو گئے، دفتر سے چھٹی لے کر مشرقی پاکستان گئے، اپنے لوگوں کا صدمہ لیے واپس آئے۔ بھیا، ابا جان اور سارے محلے والے ان کی دلداری اور دلجوئی میں لگ گئے۔
تقریباً چالیس روز تک روزانہ عصر سے مغرب تک ان کے گھر جاکر محلے کے لوگ قرآن پڑھتے، ان کو تسلی دیتے، پندرہ دن تک روزانہ کسی نہ کسی کے گھر سے کھانا دینا بھابھی کے ہاں جاتا رہا کہ یہ محلے داری کا تقاضا ہے کہ ایک گھر کا دکھ سب کا دکھ اور ایک کی خوشی سب کی خوشی ہے۔ بھائی عبدالحکیم ہمارے محلے کے اس مثالی سلوک اور رواداری سے بہت متاثر تھے اور امی کے تو خصوصاً بہت احسان مند تھے کہ ان کی غیر موجودگی میں امی دینا بھابھی اور بچوں کے پاس جاکر سوتیں اور ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتیں۔
وقت کا پرندہ بڑی تیزی سے پر لگا کر اڑ رہا تھا۔ پاکستان کے قیام کو تیرہ سال ہو چکے تھے، ایوب خاں کی حکومت ختم ہو چکی تھی، یحییٰ خاں ان کی جگہ صدر بن چکے تھے۔ یحییٰ خاں نے حکومت سنبھالتے ہی صاف شفاف انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ پاکستانی قوم کے لیے یہ بڑی خوش گوار اور حیرت انگیز خبر تھی۔ ان انتخابات کے انعقاد کا کسی کو یقین نہیں تھا، مگر انتخابات تاریخ مقررہ پر اور شفاف ہوئے۔ مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی اور مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کر لی۔ صدر نے دونوں جماعتوں کے لیڈران کو مبارک باد دی اور ڈھاکہ جاکر قومی اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ 9 مارچ مقرر کی، لوگوں کے جوش و خروش میں بے حد اضافہ ہوا۔ عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کا بڑا چرچا ہوا۔ پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو عوامی لیڈر کی حیثیت سے سامنے آئے۔ عوامی لیگ کی کامیابی پر ہمارے محلے کے بنگالیوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا۔ پاکستان زندہ باد، پورب بنگلہ شے مولی مائے، پنجو نودیر تیرے اور رونی خائے دھشا روشندو موروشہا رائے جھانڈا جاگے جے آجاد (پورب دیس کے سبزے پیارے، پانچ ندی کے چمکتے کنارے، جنگل صحرا سندھ کے دھارے، پاک علم لہرائے) شمو موئے تیری بندھن ہار، تومید دکھا کھوئے جہار۔ تیتابی دوستا اجھے موجھے جار گلانی دکھو بی شاد (سب لوگوں کی ایک کہانی، ایک ہی وحدت سب نے جانی، بہتے دریائوں کی روانی، غم کو بہالے جائے) کھائی بار دار تار پوتہ کباہی میگنار کلے جو تمی شپہ ہی، پراچو پر تیرچے می لونوگبی، دنیا کو رے چھے آباد (ایک لڑی کے چمکتے موتی، میگنار دریا کے بہتے موتی، لہریں شور مچاتی گاتی، دنیا رہے یوں آباد) پاکستان زندہ باد۔
یہ ترانہ پوری رات گونجتا رہا، جس میں بنگالی اور غیر بنگالی سب شامل تھے۔ پھر نہ جانے ان خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی، ڈھاکہ سے واپس آکر نہ جانے کس نے صدر کو کیا پٹی پڑھائی کہ انہوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا اور نئی نئی شرائط عائد کر دیں۔ اس خبر سے مشرقی پاکستان میں مایوسی کی لہر پھیل گئی اور عام تاثر یہی نمایاں ہونے لگا کہ مغربی پاکستان کے لوگوں مشرقی پاکستان کو اس کا حق دینا ہی نہیں چاہتے۔ صدر کے اس اعلان التوا کو ان کی بدنیتی پر محمول کیا گیا اور کھلم کھلا ایک سازش قرار دیا جانے لگا۔ مشرقی پاکستان میں سیاسی احساس محرومی کو اور تقویت ملی۔ پارلیمانی جمہوریت میں بنگالیوں کو اقتدار ملنے کی توقع تھی، لیکن ایوبی مارشل لا نے ان کی امید کی یہ شمع بھی بجھا دی اور شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات سے پہلے 1969ء میں پاکستان سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد سیاسی بصیرت اور ملکی اتحاد کا تقاضا تھا کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کر دیا جاتا تو وہ بغاوت بھی جنم نہ لیتی، جس کو کچلنے کے لیے یحییٰ خان نے فوجی آپریشن کیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ بے انصافیاں ہوئیں، ان کا معاشی حصہ ان کی آبادی کے مطابق نہ ملا۔ فوجی آپریشن کی خبر سن کر ہمارے ساتھ دن رات شیر و شکر رہنے والے بنگالیوں کا رویہ ایک دم بدل گیا۔ ان کے انداز میں سردمہری اور بے مروتی نظر آنے لگی۔ ہمارے گھر دینا بھابھی اور بچوں کی آمدو رفت میں نمایاں کمی ہوگئی۔ محلے کے بنگالی گھروں میں میل ملاپ اور آمدورفت بہت بڑھ گئی۔ اب روزانہ رات کو سارے بنگالی کسی ایک گھر میں بیٹھے اور سر جوڑ کر مشورے کئے جاتے۔ یہ اس محلے کے لیے بالکل نئی اور انہونی بات تھی۔ صدر یحییٰ کی حماقتوں اور بے وقوفیوں نے بنگالیوں کو بغاوت پر آمادہ کر دیا اور ان کو حق دینے کے بجائے احتجاج کرنے کا حق بھی بزور زبردستی چھین لیا گیا۔ اندرا حکومت نے ایسے موقع پر ان کے زخموں پر مکتی باہنی کے ذریعے مرہم رکھا اور وہ ہندو غنڈے بنگالیوں کے ہمرکاب ہم پیالہ بن گئے۔ ہمارے محلے کی فضا بڑی کشیدہ ہوگئی۔ سب ایک دوسرے سے خائف اور خوف زدہ ناراض بیزار نظر آنے لگے۔ محبت، ہمدردی، رواداری ایثار کا ماحول ہی ختم ہوگیا۔
جس وطن کی تشکیل کی بنیاد بنگالیوں نے ڈھاکہ میں رکھی تھی۔ اب انہی بنگالیوں کا خون بہانے ان کے اپنے وطن کی فوج بھیجی گئی۔ کیسی بدنصیبی ہے اس وطن کی کہ اس پر ہمیشہ ان لوگوں نے حکومت کی، جن کو طرز حکمرانی کی ’’الف، ب‘‘ سے بھی واقفیت نہیں تھی۔ بھٹو اور مجیب الرحمن کی اقتدار کے لیے رسہ کشی اور چھینا جھپٹی نے ملک کا بڑا حصہ ہم سے چھین لیا۔ جن کا حق تھا، ان کو حق نہ ملا۔ اس بے انصافی نے ہندوستان کے ایجنٹوں کو دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کے مشرقی حصے پر پنجے گاڑنے کا موقع دیا اور انہوں نے پاکستان اور اسلام کے خلاف ایسا نفرت کا بیج بویا جو صدر کی حماقتوں نے تناور درخت بنا دیا۔ نوجوان طالب علموں کو اشتراکیت اور دہریت کا نشانہ بنا دیا گیا۔ جب بنگالیوں کو یقین ہو گیا کہ انہیں جان بوجھ کر اقتدار سے محروم کیا جا رہا ہے تو بنگالی قوم پرستوں نے اپنی روح شیطان (بھارت) کے ہاتھ بیچ دی۔ بھارت جو کسی حال میں پاکستان کو مضبوط دیکھنا نہ چاہتا تھا، اس نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ جنرل یحییٰ انتہائی رند بلانوش تھا۔ نہ اس میں عسکری معاملات کی سمجھ تھی، نہ کردار کی پختگی اور سیاسی سوجھ بوجھ۔ تین دسمبر سے 16 دسمبر تک ہماری بہادر سپاہ ہندوستان سے بے مثال شجاعت و عزیمت کے ساتھ لڑتی رہی۔
وہ سردیوں کی سیاہ ترین رات تھی، جب سب لحافوں میں دبکے ہوئے تھے۔ اچانک خوفناک بھاری بھرکم ٹرکوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ہم لوگ لحاف پھینک کر دروازے کی طرف لپکے۔ امی نے دروازہ کھولنے کو منع کیا، ہم سب دروازے کی درزوں میں سے دیکھنے لگے۔ ہمارے محلے کے سارے بنگالی خاندان اس سیاہ رات کے اندھیرے میں اپنے سازوسامان کے ساتھ چلے گئے۔ بغیر خدا حافظ کہے، بغیر کسی سے ملے۔ دینا بھابھی، بھائی عبد الحکیم، لیلیٰ اور بچے ٹرک پر بیٹھنے سے پہلے لمحہ بھر کو ہمارے دروازے پر رکے۔ لیلیٰ نے دستک دینا چاہی۔ بھائی عبد الحکیم نے ڈانٹ کر منع کیا۔ امی دروازے کی درز میں سے دیکھتی رہیں۔ ایک خوش گمانی تھی کہ شاید کسی کو ان اٹھارہ سال کی رفاقتوں، محبتوں اور مداراتوں کا خیال آجائے۔ جس کا ہر لمحہ بے لوث اور بے غرض محبت کے سوا کچھ نہ تھا۔ مگر سخت جانی کے وہ لمحات خام خیالی ہی بن گئے۔ جب ٹرک اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی تو امی نے آنکھوں سے ابلتے آنسوئوں کو دوپٹے سے رگڑ لیا۔ ابا جان عشاء کی نماز کے لیے وضو کرنے کا بہانہ کر کے باتھ روم میں گھس گئے۔ بے چینی سے بھیا بار بار اپنے بالوں پر ہاتھ پھیر رہے تھے۔ ہر شخص اپنے صدمے اور غم کا اظہار مختلف طریقے سے کر رہا تھا۔ مگر مجھے کسی بہانے کی ضرورت نہیں تھی۔ میرا خواب ٹوٹ گیا تھا۔ میں پوری قوت سے چیخ چیخ کر اظہار کررہی تھی: ’’امی پاکستان ٹوٹ گیا۔ ارے کوئی بچائو میرا پاکستان تیرا پاکستان ٹوٹ گیا۔ امی یہ سب اب واپس نہیں آئیں گے۔ ان سب کے دل ہمارے لیے نفرتوں سے بھر گئے ہیں۔ اب وہ کچھ بھی کر گزریں گے اور ہم دیکھتے رہ جائیں۔ ارے انہیں کوئی تو روک لے۔‘‘ میں باقاعدہ ایڑیاں رگڑ رہا تھا۔ میرا دل جیسے بند ہوا جا رہا تھا۔ میری سانسیں رک رہی تھیں۔ جیسے یہ زندگی کے آخری لمحات ہوں۔ ابا جان گھبرا کر باتھ روم سے نکل آئے۔ بھیا نے مجھے اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور امی وہ تو میرے ساتھ ساتھ رو رہی تھیں اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا۔ اندرا گاندھی کے مکتی باہنی نے نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریئے کو خلیج بنگال میں ڈبو کر تقسیم ہندوستان کا بدلہ لے لیا۔ ہم سب ہاتھ ملتے رہ گئے۔
آج سینتالیس (47) سال بعد میں نہ جانے کیوں لیلیٰ کو یاد کر رہی ہوں۔ امجد حسین کے گائے ہوئے اس نغمہ نے میری ماضی کی یادوں کو تازہ کر دیا: ’’میرا پاکستان ہے، یہ تیرا پاکستان ہے۔ اس پہ دل قربان اس پہ جان بھی قربان ہے۔‘‘
اس نغمے سے وابستہ یادوں نے مجھے بے کل کر دیا ہے۔ شاید آج پھر نہ سو سکوں۔
٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment