’’رودادِ خون و اشک‘‘ (حصہ اول)

حسن امام صدیقی
الیکشن میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں ملک دشمنوں کے تعاون اور دھاندلی کے ذریعے کامیابی حاصل کی۔ عوامی لیگ کے مصلح جتھے چھاترو لیگ (اسٹوڈنٹس لیگ) کی ملیشیا، مکتی باہنی، لال باہنی، انصار و دیگر عسکری تربیت یافتہ افراد/ نفری نے مشرقی پاکستان کو تہہ و بالا کر دیا۔ محب وطن پاکستانیوں نے جنہوں نے عوامی لیگ کے چھ نکات کو سپورٹ نہیں کیا اور پاکستانی پرچم بلند کیا، انہیں تہہ تیغ کرنا شروع کر دیا۔ نہ صرف جلائو گھیرائو، بلکہ بڑے پیمانے پر قتل عام شروع کر دیا گیا۔ سرکاری املاک کو لوٹ کر جلانے، درخت کاٹ کر شاہرائوں کو بلاک کر دیا گیا۔ نقل و حمل کے سارے راستے بند کر دیئے گئے۔ صورت حال سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی تھی۔ ادھر سیاسی محاذ پر ہمارے زعما اور سیاست داں کسی سمجھوتے پر نہ پہنچ سکے۔ مغربی پاکستان میں پیپلزپارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو کوئی مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔ شیخ مجیب الرحمن نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی۔ ریل کی پٹریاں اکھڑنے لگیں۔ بینکوں کو لوٹ کر جلایا جانے لگا۔ پولیس و دیگر نیم عسکری جماعتوں نے عوامی لیگ کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ حالات مخدوش سے مخدوش ہوتے چلے گئے۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کے شہروں/ آبادیوں پر حملے کئے جانے لگے۔ ان کا صفایا کیا جانے لگا۔ سول اداروں سے حالات کنٹرول سے باہر ہونے لگے۔ حکومت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ یوم پاکستان کے موقع پر 23 مارچ 1971ء کو پورے مشرقی پاکستان میں پاکستانی پرچم کے بجائے بنگلہ دیش اور سیاہ پرچم آویزاں کیا گیا۔ پاکستانی افواج پر حملہ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ایک شہر سے دوسرے شہر کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ عوامی لیگ نے غیر قانونی طریقے سے محب وطن پاکستانیوں کے علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا، جس کا کنٹرول عوامی لیگ کے مسلح کارکنوں اور باغی سپاہیوں کے ہاتھ میں تھا۔ ضلعی اور صوبائی انتظامیہ شیخ مجیب الرحمن کے احکامات پر عمل پیرا تھے۔ شیخ مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ مستقبل کا آئین ’’چھ نکاتی پروگرام‘‘ کے تحت بنایا جائے گا اور اس پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو گا اور نہ ہی تبدیلی ہوگی۔ مغربی پاکستان کے اکثریتی پارٹی کے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی کے تعاون کے بغیر ’’مرکز‘‘ میں حکومت نہیں بن سکتی۔ شیخ مجیب الرحمن اپنے خطابات میں مشرقی پاکستان کے بجائے صرف بنگال، بنگالی رپبلک، بنگالی لینڈ اور بنگلہ دیش کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا اور مکمل سول نافرمانی کا اعلان کر دیا۔
صدر پاکستان نے 13 فروری 1971ء کو اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 13 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں ہوگا۔ قانون سازی اور اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے سیاسی جماعتوں کے درمیان گفتگو آگے بڑھ رہی تھی۔ لیکن اس دوران شیخ مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ اب صرف ایک پوائنٹ صرف ’’آزادی‘‘ پر بات ہو سکتی ہے۔ اس نے پورے مشرقی پاکستان میں خون ریزی اور قیامت برپا کر دی تھی۔ اس کی ہدایت پر ایسٹ پاکستان رائفلز (E.P.R) اور ایسٹ بنگالی رجمنٹ (E.B.R) کے عسکری جوانوں نے بغاوت برپا کر دی۔ غیر بنگالی فوجیوں پر حملہ شروع ہوگئے۔ غیر بنگالیوں جو پاکستان کے حامی اور محب وطن تھے، ان کے گھروں کو آگ لگا کر لوٹ رہے تھے۔ عورتوں اور جوان لڑکیوں کو اغوا کیا جا رہا تھا۔ قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی تھی۔ حالات انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ پیپلزپارٹی اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی بعض سیاسی جماعتوں نے ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یکم مارچ 1971ء کو صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس منسوخ کر دیا۔ جنرل یحییٰ خان نے 3 مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کے 12 منتخب اراکین، پارلیمنٹری گروپس (Parlimentary Groups) جس میں ساری سیاسی جماعتیں شامل تھیں 10 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں طلب کر لیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کے عوام سے اپیل کی کہ سرکاری عمارتوں، ریل گاڑیوں اور سڑکوں کو تباہ کر دیا جائے۔ صرف چند جگہوں کے علاوہ ہر جگہ بنگلہ دیش کا پرچم آویزاں کیا جانے لگا۔ کنٹونمنٹ، آرمی پوسٹ اور دیگر عسکری اداروں پر باغیوں نے حملہ تیز سے تیز تر کر دیئے۔ شہیدوں کی تعداد میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔
جنرل یحییٰ خان نے 6 مارچ 1971ء کو اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کا ہونے والا افتتاحی اجلاس 25 مارچ 1971ء کو ہوگا۔ 15 مارچ 1971ء کو صدر یحییٰ خان مزید مذاکرات کے لیے ڈھاکہ چلے گئے۔ صدر یحییٰ خان کی شیخ مجیب الرحمن سے 16 مارچ 1971ء سے مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان کے مطالبات پر مذاکرات ہوتے رہے۔ مغربی پاکستان کے سیاسی قائدین نے بھی ڈھاکہ پہنچ کر شیخ مجیب الرحمن سے ملاقاتیں اور مذاکرت کئے۔ ادھر مشرقی پاکستان لہولہان جلتا رہا۔ چٹاگانگ، کھلنا، جیسور، راجشاہی میں باغیوں نے ہزاروں غیر بنگالیوں اور پاکستانی افواج کے سپاہیوں اور افسران کو شہید کر دیا۔ ہندوستانی افواج نے بھی مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر اشتعال انگیزی شروع کر دی تھی۔ بڑے ہتھیاروں کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ ادھر مذاکرات نازک صورت حال کو مزید خراب کر رہے تھے۔ شیخ مجیب کی قائم کردہ ’’شنگرام پریشد‘‘ (انقلابی کونسل) نے چھوٹے بڑے شہروں/ دیہاتوں میں موجود باغی عناصر کو پاکستانی تنصیبات پر حملے تیز کرنے کے احکامات صادر کر دیئے۔ ’’درسنا‘‘ کے علاقوں میں ریلوے لائنوں کو ہندوستانی سرحد سے ملا دیا گیا، تاکہ ہندوستانی فوج کا بھاری سازوسامان ’’مکتی باہنی‘‘ کے روپ میں جلد از جلد پہنچ سکے۔
یکم مارچ 1971ء ’’نرائین گنج رائفل کلب‘‘ اور اسلحہ کی دیگر دکانوں کو لوٹ کر ڈھاکہ یونیورسٹی کے ’’اقبال ہال‘‘ اور جگناتھ ہال میں ذخیرہ کیا گیا۔ 2 مارچ 1971ء کو جناح ایونیو اور بیت المکرم، شالیمار ہوٹل، گلستان سینما، گواسی جوٹ ملز، فارم گیٹ اور اس سے ملحقہ علاقوں کو لوٹ کر آگ لگا دی گئی۔ 3 مارچ 1971ء کو ’’اسلام پور‘‘، پتوا خالی بازار، نواب پور پر حملہ کر کے بڑی تعداد میں لوگوں کو شہید کیا گیا۔ ڈھاکہ سے باہر شہر ’’جیسور‘‘ پر حملہ کیا گیا، وہاں بھی ہزاروں لوگوں کو شہید کیا گیا۔ ’’بھیرب بازار‘‘ سے ’’لکشام‘‘ جانے والی ٹرین پر حملہ کیا گیا، غیر بنگالی پاکستانیوں کو شہید کیا گیا، ٹرین کو آگ لگا دی گئی۔ دولت گنج، کومیلا، اکھیوڑہ، سلیٹ، حاجی گنج، بینی بازار، ٹیلی فون ایکسچینج کو آگ لگا دی گئی، جس سے دوسرے علاقوں سے رابطہ ختم ہو گیا۔ عوامی لیگ کے احکامات پر ریڈیو اور ٹیلی ویژن ڈھاکہ نے بنگلہ دیش کا ترانہ نشر کرنا شروع کر دیا۔ پورے مشرقی پاکستان میں ’’جئے بنگلہ‘‘، ’’جئے بنگال‘‘ کا نعرہ گونج رہا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment