اب کی باری پھر زرداری؟

حافظ جی نے صرف سنا ہی نہیں، بلکہ مشاہدہ بھی ہے کہ چراغ کی لو بجھنے سے پہلے پھڑپھڑاتی ہے اور ڈوبنے والا ڈوبنے سے قبل خوب ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ بس یہی دو مثالیں یہاں کافی سمجھیں، جو ہمارے ان سیاست دانوں پر صادق آتی ہیں، جو اپنی ’’اعلیٰ کارکردگی پر ایوارڈ‘‘ حاصل کرنے سے قبل مجمعے اکٹھے کرکے، زرخرید مصاحبین اور پیسے دے کر لائے گئے اَن پڑھ ضرورت مند، سیاسی سمجھ بوجھ سے عاری معصوم حاضرین کے سامنے خود کو مظلوم ہی نہیں، مظلوم ترین بنا کر پیش کرتے ہیں۔ پریس کانفرنسوں کا انعقاد کر کے صحافی نما حمایتیوں کو انگلیوں کے اشاروں سے کھڑا کرکے من پسند سوالات کرائے جاتے ہیں اور پھر ان سوالات کو جواز بنا کر دل کی بھڑاس نکالی جاتی ہے۔ گستاخی معاف! حافظ جی کا اشارہ بالخصوص پیپلز پارٹی والے زرداری بھائی اور نون لگی مسلم لیگ کے شریف بھائیوں کی جانب ہے۔ ویسے ان دنوں مذکورہ بالا علامات کثرت کے ساتھ زرداری بھائی کی ذات شریف سے ظہور پذیر ہوئی ہیں، اپنی گرفتاری سے قبل بھائی نواز شریف بھی ایسی ہی ہوش ربا مثالیں رقم کر چکے ہیں۔
بھائی زرداری کی بے باک سخت کلامی سن کر حافظ جی کا جو گمان تھا، وہ پیپلز پارٹی والوںکی گھبراہٹ اور پے در پے اقدامات دیکھ کر پورے یقین میں بدل چکا ہے کہ ہو نہ ہو ’’اب کی باری، پھرزرداری‘‘۔ حکمرانی کے لئے نہیں بلکہ جیل جانے کے لئے۔ میاں صاحب اندر جا کر باہر آچکے (شاید آئندہ چند روز میں پھر چلے جائیں) مگر اب کی بار پہلے باری زرداری بھائی کی لگتی ہے، جس کے لئے بہت سے اسباب تو انہوں نے پہلے خود ہی مہیا کردیئے تھے، جن کی تحقیقات ہو چکیں اور رپورٹ گزشتہ کل سپریم کورٹ میں جمع بھی کرا دی گئی ہے۔ آج بینکنگ کورٹ میں بھی زرداری بھائی کی پیشی ہے، ممکن ہے ان کی عبوری ضمانت منسوخ ہو اور وہ گرفتار کر لئے جائیں۔ پیپلز پارٹی نے اس سلسلے میں اپنے تمام مرکزی اور صوبائی عہدیداران و کارکنان کو متعلقہ کورٹ کے باہر جمع ہونے کی ہدایت کی ہے اور ملک بھر میں کارکنوں کو فوری ردعمل کا ٹاسک بھی دے دیا ہے۔ فوری ردعمل کا مطلب صاف ہنگامہ آرائی اور نقص امن ہی لیا جاسکتا ہے۔ ادھر اسلام آباد میں بھی کل بلاول کی صدارت میں پیپلز پارٹی کا پارلیمانی اجلاس ہوا، جس میں پیپلز پارٹی نے اپنے خلاف ہونے والی ممکنہ کارروائی پر ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نو آموز پی پی چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی بلاول کو شکوا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کٹھ پتلی حکومت کو اقتدار میں لانے والے جمہوری روایت خراب کر رہے ہیں۔ بلاول کی اس بات پر حافظ جی ششدر اس لئے ہیں کہ بلاول نے تو اس معاشرے میں آنکھ کھولی، ہوش سنبھالا اور تعلیم حاصل کی ہے، جہاں جمہوریت کی روایات تابندہ ہیں اور ساری دنیا میں اس کی مثال دی جاتی ہے، جہاں آئین و قانون کی سب برابری کی سطح پر پاسداری کرتے ہیں، خواہ کوئی امیرہو یا غریب، عام شہری ہو، رکن پارلیمنٹ یا وزیر وسفیر۔ سو فی صد یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بلاول ہرگز اس جمہوریت کی بات نہیں کر رہے، بلکہ اس جمہوریت کا دفاع کررہے ہیں، جس نے زرداری، نواز شریف، جہانگیر ترین اور اعظم سواتی جیسے لوگوں کو پروان چڑھایا اور خود انہیں پارٹی کا موروثی چیئرمین بنایا۔
زرداری بھائی اور شریف برادران اپنی پکڑ پر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ بھائی زرداری دہری مصیبت میں مبتلا ہیں کہ میگا منی لانڈرنگ کے علاوہ ان کا نیویارک میں ایک ایسا فلیٹ بھی نکل آیا ہے، جس کا ریکارڈ الیکشن کمیشن میں جمع ان کے اثاثہ جات میں نہیں، لہٰذا قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ ہونے کی تلوار بھی ان کے سر پر لٹک گئی ہے اور یہی وہ سیٹ ہے، جس پر سزا کے دوران وہ مراعات حاصل کر سکتے ہیں، جیسی کہ شہباز شریف اور خواجہ سعد رفیق حاصل کر چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے صوبائی صدر نے گزشتہ کل زرداری بھائی کے امریکہ میں چھپائے گئے اثاثہ جات کے حوالے سے الیکشن کمیشن سندھ میں ان کے خلاف درخواست دائر کر دی ہے۔ رہی بات میاں صاحب کی تو العزیزیہ اور فلیگ شپ کے کیسوں کا بھی فیصلہ بھی احتساب عدالت دو دن بعد سنانے والی ہے۔ ممکن ہے اس میں بھی نواز شریف کو جیل کی ہوا کھانی پڑے، لہٰذا دونوں جماعتوں نے حکومت اور اداروں کو دباؤ میں لانے کے لئے گٹھ جوڑ کر لیا ہے اور ممکنہ مخالف فیصلوں کی صورت میں ملک گیر احتجاج کا لائحہ عمل ترتیب دیا جا چکا ہے۔ گویا ایک بار پھر ملک کو انتشارو تفریق کی جانب لے جانے کی تیاریاں ہیں، مگر حافظ جی کو امید ہے کہ انتظامیہ اور سیکورٹی سے متعلق ادارے اپنی ذمہ داریوں سے ہرگز غافل نہ ہوں گے اور ایسی کسی بھی نا خوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہائی الرٹ رہیں گے، جس میں شرپسندی کا عنصر شامل ہو۔ احتجاج کرنا سب کا بنیادی حق ہے، لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ آئندہ دنوں میں پاکستان سے احتجاج کی انوکھی مثال اقوام عالم کے سامنے جائے گی کہ یہاں کرپشن ختم کرنے کے بجائے کرپشن کو جائز قرار دلانے کے لئے احتجاج کیا جا رہا ہے۔
خدا خیر کرے آج جمعہ ہے اور عدالتی فیصلوں کے حوالے سے جمعے کا دن ہمارے سیاست دانوں کے لئے کڑا دن رہا ہے۔ آج اگر بینکنگ کورٹ سے زرداری بھائی اور ان کی ہمشیرہ کو مزید رعایت نہیں ملتی اور ان کی عبوری ضمانت مسترد ہو جاتی ہے تو سیاسی صورت حال دگرگوں ہو سکتی ہے۔ گزشتہ کل اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے قانونی قائد اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے درمیاں ملاقات بھی ہوئی تھی، جس کے بعد خورشید شاہ نے بھی واضح انداز میں کہا کہ اگر سیاسی لیڈر شپ کے خلاف کچھ کیا گیا تو پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر تحریک چلائے گی۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ اپنی اپنی لیڈر شپ کے معاملات مخفی رکھنے اور انہیں احتساب سے بچانے کے لئے شکست خوردہ ماضی کی دونوں بڑی جماعتیں ایک ایجنڈے پر متحد ہیں۔
گستاخی معاف! زرداری بھائی نے کافی عرصہ بعد لفظی گولہ باری کا اہتمام کیا، یہ سب بے سبب نہیں تھا، انہیں سن گن ہو چکی کہ ایوارڈ کے لئے ’’کارکردگی‘‘ جانچی جاچکی ہے۔ اب کہہ مکرنی کی کوئی گنجائش نہیں تو کیوں نہ دل کی بھڑاس ہی نکال لی جائے۔ چنانچہ انہوں نے گزشتہ کئی دنوں تواتر سے نام لئے بنا تمام ظاہری علامات کے ساتھ فوج اور عدلیہ کے خلاف کھلی ہرزہ سرائی کی۔ اغلب ہے کہ زرداری بھائی کی کارکردگی کسی بھی وقت بلاول کے نازک کاندھوں پر دہری ذمہ داری ڈال سکتی ہے۔ اب پتہ نہیں بلاول خود کو اس ذمہ داری کا اہل ثابت کر سکیں گے یا نہیں، کیوں کہ ایسی کسی بھی صورت حال میں بلاول کو ادی فریال تالپورکی مشاورت سے بھی فیض اٹھانے کا موقع شایدنہ مل سکے کہ بھائی زرداری کے ساتھ ساتھ میگا منی لانڈرنگ میں ادی فریال کی گرفتاری کا بھی قوی امکان ہے۔ خدا بلاول کو آئندہ دنوں میں اپنے نازک کاندھوں پر پڑنے والا سیاسی بوجھ اٹھانے کے قابل بنائے۔ (وما توفیقی الا باللہ)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment