سیلانی کو وہ وقت یاد آگیا جب وسیع و عریض میدان میں لاؤڈ اسپیکر سے ایک گھمنڈی آواز گنتی گنتی، ایک، دو، تین اور پھر اس میدان میں ایسے خامشی چھا جاتی، جیسے وہاں جیتے جاگتے لوگ نہ ہوں، چوکھنڈی کا قبرستان ہو اور تو اور، ماں کی چھاتیوں سے چمٹے بچے بھی اپنی زبانیں تالوؤں سے لگا لیتے، کھانستے بوڑھوں کی کھانسی بھی رک جاتی، جذباتی نوجوانوں کے ہاتھوں میں لہراتے جھنڈے ساکت ہو جاتے، سچ میں ایسا لگتا جیسے کسی طلسم گر نے طلسم پھونک کر وقت کو مٹھی میں لے لیا ہو، ساعتیں اسی خاموشی سے گزرنے لگتیں کہ سوئی بھی گرے تو آواز سنائی دے اور پھر اسٹیج سے وہی بھاری آواز سنائی دیتی ’’شاباش، شاباش… یہ ہوتا ہے ڈسپلن!‘‘
اس آواز کا سننا تھا کہ مجمع جیسے زندہ ہو جاتا، جوشیلے نوجوان پھر سے سیدھا ہاتھ اٹھا کر پھیپھڑوں کے پورے زور سے نعرے لگاتے:
’’نعرہ اے اے اے اے اے اے موحاجر‘‘
جواب میں ہزاروں لوگوں کا ایک ساتھ جواب آتا: ’’جی اے اے اے موحاجر‘‘
’’قائد تیرا اک اشارہ‘‘
’’حاضر حاضر لہو ہمارا‘‘
یہ کراچی میں ایم کیو ایم کے عروج کا زمانہ تھا، عروج ایسا کہ جو شاید ہی موجودہ پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کو ملا ہو۔ کراچی یونیورسٹی کے چند طلباء نے تعصب میں لتھڑا ہوا اردو بولنے والوں کی شناخت کا مطالبہ اٹھایا، انہیں مہاجر کہا اور حیدر آباد کراچی میں لگ بھگ اردو بولنے والوں کی بڑی اکثریت ساتھ ملا لی، یہاں سے درمیانی قدو قامت، گہری سنولائی ہوئی رنگت، گول چہرے پر دو سیاہ آنکھیں اور ان آنکھوں کو بیشتر وقت مہنگے بدیسی ray ban چشموں سے چھپائے رکھنے والا الطاف حسین قائد تحریک ہو گیا اور پھر مہاجر پہچان کی مہاجر قومی موومنٹ نے ایسی تحریک چلائی کہ شرفاء گردانے جانے والا اردو داں طبقہ مہاجر تو ہوا ہی، ساتھ ہی ’’کن کٹے، لنگڑے، چریے اور موالی‘‘ کے نام بھی ان کی پہچان ہو گئے۔ کراچی الطاف حسین کی غیر اعلانیہ ریاست ہو گیا۔ ’’بھائی‘‘ جو چاہتے، وہ ہوجاتا۔ سوشل میڈیا پر اب بھی ’’بھائی‘‘ کے جاہ و جلال اور چاہ وجمال کی تصاویر موجود ہیں۔ ’’بھائی‘‘ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ بس بھائی نے جو کہہ دیا، وہ حرف آخر ہو گیا اور جس نے چوں چرا کی کوشش کی، اس کے بعد وہ کچھ کرنے کے قابل نہ رہا، کچھ کرنے کے لئے جسم و جان کے رشتے کا برقرار رہنا اور بوری سے باہر آنا ضروری ہوتا ہے۔
سیلانی کو وہ کراچی بھی یاد ہے، کیا دور تھا جب بھائی کی سالگرہ آتی ہے، بھائی کے چاہنے والے اسے دھوم دھام سے منانے کا اعلان کرتے ہیں، بھائی کی قامت سے اونچا خصوصی کیک تیار کروایا جاتا ہے، اس پر زندگی کی اڑتیس بہاریں دیکھ چکنے کی مناسبت سے 38 کا ہندسہ سجایا جاتا ہے، پھر کیک بن جاتا ہے تو مسئلہ اس کیک کو کاٹنے کا آجاتا ہے کہ اتنے بڑے کیک کے لئے اتنی بڑی چھری کہاں سے لائی جائے۔ مسئلے کا حل یہ نکلتا ہے کہ بھائی کے ہاتھ میں تلوار تھما دی جائے اور پھر ہزاروں کے مجمعے میں پرجوش نعروں اور تالیوں کے درمیان مسکراتے ہوئے بھائی نے جو تلوار چلائی تو اس نے صرف کیک ہی نہیں کاٹا، وہ کئی دہائیوں تک گردنیں کاٹتی رہی۔
سیلانی سامنے لیپ ٹاپ میں رواں ماہ کی پندرہ دسمبر کا ویڈیو کلپ دیکھ رہا ہے اور سوچ رہا ہے کہ اس سے بڑھ کر ذلت کیا ہو گی، اس سے واضح شرمناک عبرت کسے کہا جائے گا، ایک وہ دور تھا کہ بھائی کے نام پر لاکھوں نہیں کروڑوں روپے جمع ہو جاتے تھے، بھائی کی چاہ کا یہ عالم تھا کہ بھائی کے منہ سے جو نکلا، وہ پتھر پر لکیر ہوگیا۔ سیلانی کو یاد ہے اور کراچی میں 1980ئ، 1990ء کی دہائی دیکھ رکھنے والوں کو بھی یاد ہو گا، جب بھائی کی سیاسی گدی کو پیری میں بدلنے کا اسکرپٹ لکھا گیا۔ تب ’’پیر صاحب‘‘ کی چاکنگ سے شہر کے درو دیوار بھر گئے۔ بھائی کے نام کی کرامتیں گردش کرنے لگیں۔ کروٹن کے پتوں پر پیر صاحب کی تصویر کا شوشا چھوڑا گیا۔ کہا گیا کہ بھائی کی شبیہ کروٹن کے پتے پر آگئی ہے اور عزیز آباد میں کروٹن کے پیلے دھبوں والے اس پتے کو دیکھنے والوں کی قطار بندھ گئی۔ انہی دنوں ایک مسجد کے فرش پر بھی بھائی کی شبیہ تلاش کرلی گئی، جس کے بعد سنگ مرمر کی وہ سل بھی مسجد سے اکھاڑ لی گئی۔ بھائی بیمار پڑ کر عباسی اسپتال جاتے تو صدقہ کے لئے اڑائے جانے والے کبوتر ان پر آ بیٹھتے اور اس موقع کے انتظار میں وہاں موجود کیمرا مین جھٹ سے کیمرا سیدھا کرکے فیوجی کلر کی پوری کی پوری چھتیس تصویروں کی فلم خالی کر دیتا۔ اگلے دن صبح کے اخبارات میں بھائی کی کرشمہ ساز شخصیت کی گواہی دیتی یہ تصاویر صفحہ اول پر نمایاں طور پر چھپی ہوتیں۔
الطاف حسین نے کراچی والوں پر کراچی میں رہتے ہوئے بھی راج کیا اور رابطہ کمیٹی کے ’’مشورے‘‘ سے تاحیات لندن روانگی کے بعد بھی راج کرتے رہے۔ وہ تو وہ، ان کے راج دلارے بھی اس راج کے طفیل اپنے ساتھ اپنے سگوں کی انگلیاں گھی اور سر کڑھائی میں ڈالے رہے۔ بھتے کا سلسلہ شروع ہوا تو چوک چوراہوں پر آلو چنے کی ریڑھی لگانے والا بھی نہ بخشا گیا۔ فطرانہ زکوٰۃ کی وصولی شروع ہوئی تو سکھر کے رام چندر اور یونس مسیح سے بھی فطرانہ اینٹھ لیا گیا۔ ان فطرانوں، چندوں اور بھتوں سے جنہوں نے عیش کرنی تھی، سو کی، لیکن قائد بھی لندن کے مہنگے ترین علاقے ایجوئیر میں ٹھاٹھ سے انگریز لارڈوں والی زندگی گزارتے رہے۔ ان کے پینے پلانے کے قصے اب کوئی راز نہیں رہے۔ قائد نے جوانی کی جلا وطنی میں خوب عیش کی۔ اب قائد کے باغیوں نے قوم کی آنکھیں کھولیں تو قائد کے بڑھاپے میں مشکل وقت آن پڑا۔ آج وہی قائد اپنے کارکنوں سے چندے کی بھیک مانگ رہا تھا۔ سیلانی کو یقین نہیں آرہا تھا، لیکن یقین کرنا ہی پڑ رہا تھا۔ لندن والے بھائی کا لندن والے کارکنوں سے خطاب سامنے تھا۔ بھائی ٹیلی فونک خطاب میں بھیک مانگ رہے تھے اور جھلائے ہوئے لہجے میں کہہ رہے تھے:
’’اگر تم لوگ صرف یوکے والے سپورٹ کریں، میرے آفس کا خرچا تم لوگ نکال سکتے ہو اور میں آج پوری دنیا کے ساتھیوں کو بتا رہا ہوں، جو بھی سیکورٹی کے انتظامات کئے ہیں، میرے پاس پیسہ نہیں، میں ساری سیکورٹی ہٹا رہا ہوں اور اگر میں مار دیا جاؤں تو بس دعائے خیر کرنا میرے لئے، میں اور کچھ بھی نہیں کر سکتا، میرے پاس پیسے نہیں ہیں دینے کے لئے، میں سیکورٹی ہٹا رہا ہوں اپنی…‘‘
یہ تڑی لگا کر بھائی نے توقف کیا، شائد وہ سامعین کا ردعمل دیکھنا چاہتے تھے، جو چند دبی دبی آوازوں کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ یقینا بھائی کے لئے حوصلہ افزا نہیں تھا۔ انہوں نے پہلے سے اونچی اور تیز آواز میں کہا:
’’فری میں نہیں ہوتی یہاں کی سیکورٹی، پاکستان نہیں ہے یہ کہ جعلی فوجی مل جائیں… خالی یوکے والوںکی ذمہ داری نہیں ہے، امریکہ والے… امریکہ والے کہتے ہیں ہم نے دس ہزار فنڈ جمع کر لئے تھے، بیس ہزار جمع کر لئے تھے، وہ بینک والوں نے واپس کر دیئے…‘‘
بھائی حلق کے بل چیخے: ’’ابے بھائی! پانچ پانچ ہزار کسی بھی… امریکہ میں اتنے اسٹیٹ ہیں، اسٹیٹس کے لوگ… کوئی کسی بھی ایئر پورٹ پر چلے جائیں، کوئی بھی مہاجر نظر آئے، اس کو دے دو یہ لفافہ، اس نمبر پر دے دیں، اپنا نام بتا دیں، اس نمبر پر فون کردیں، انٹرنیشنل سیکریٹریٹ سے خود کوئی آجائے گا آپ سے لفافہ لے جائے گا، امریکہ والو! کئی طریقے ہیں بھیجنے کے، لیکن تم لوگ بھیجنا چاہتے نہیں ہو… کینیڈا والو! تم بھیجنا نہیں چاہتے، صرف بہانے بناتے ہو… ساؤتھ (افریقہ) والے تو بالکل قسمیں کھا کھا کے یقین دلا کر پروگرام تو اچھے کر لیتے ہیں، جذبات بھی اچھے ہیں، لیکن مال کے معاملے میں پتہ نہیں سو گئے، جرمنی آسٹریلیا، بلجیم سے فنڈ جو ہے آیا کرتا تھا، اسی طریقے سے مڈل ایسٹ سے ختم ہوگیا۔‘‘
بھائی کا یہ خطاب سن کر سیلانی سوچنے لگا کہ یہ وہی آواز ہے، جو چندے کے لئے بلند ہوتی تو مہاجر بہنوں، بیٹیوں، ماؤں کی کلائیاں سونی ہو جاتیں۔ آج وہی الطاف حسین اپنے کارکنوں سے لفافے مانگ رہا ہے۔ پانچ پانچ ہزار ڈالر کی بھیک مانگ رہا ہے… یقینا عزت اور ذلت خدا تبارک وتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ الطاف حسین کی سیاست نے سینکڑوں نہیں، ہزاروں گھر تباہ کئے۔ ہزاروں کڑیل جوان اس لسانیت کی آگ میں جل کر بھسم ہوئے۔ ان کے بوڑھے ماں باپ پائی پائی کے محتاج ہو کر مرے۔ آج ان کو اس حال میں پہنچانے والا انہی کی طرح تہی دست ہے، پریشان ہے، چندے مانگ رہا ہے، لیکن یہ اختتام نہیں، اختتام کا آغاز ہے۔ سیلانی نے یہ سوچتے ہوئے ایک بار پھر ویڈیو کلپ لگایا اور ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭