ڈیل یا ڈھیل؟

گزشتہ روز کراچی کی بینکنگ کورٹ کے سامنے معمول سے زیادہ رش تھا۔ اکثریت کا خیال تھا کہ اس بار عدالت سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ کی طرف سے دی جانے والی ضمانت میں توسیع کی درخواست قبول نہیں کرے گی۔ اس دن فیڈرل انوسٹی گیٹو ایجنسی (FIA) کے افسر اور اہلکار تیار ہوکر آئے تھے کہ اگر عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں توسیع نہیں کی تو پھر انہیں ذاتی کار میں نہیں، بلکہ سرکاری سواری میں بٹھایا جائے گا اور جیل جاتے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح اپنی دو انگلیوں سے ’’وکٹری‘‘ کا نشان بنائیں گے۔ اس گرفتاری کے ایک ایک لمحے کو میڈیا اپنے کیمروں میں محفوظ کرنے کے لیے تیار تھا، مگر عدالت نے آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کی ضمانت میں سات جنوری تک کی توسیع کردی۔ اس طرح ایک بہت بڑی خبر حاصل کرنے کے لیے کراچی کی سرد صبح میں انتظار کرنے والے صحافی اپنے فوٹو گرافرز کے ساتھ واپس لوٹے۔ کورٹ سے واپس جانے والوں میں صحافیوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے وہ لیڈر نما کارکنان بھی تھے، جنہیں آصف زرداری کی گرفتاری کی صورت میں میڈیا کے سامنے سخت احتجاج کرنا تھا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے ایسے احتجاج کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ پارٹی کے اکثر احتجاجیوں کو عدالت لانے کے بجائے عدالت کے قریب مختلف مقامات پر تیار رکھا گیا اور ان کو واضح احکامات دیئے گئے تھے کہ شریک چیئرمین کی ضمانت کی درخواست رد ہونے کی صورت میں وہ ٹولیوں کی صورت بینکنگ کورٹ کی طرف بڑھیں گے اور پارٹی جھنڈوں کو لہراتے ہوئے وہ نعرے لگائیں گے۔ پیپلز پارٹی نے اس بار پوری پلاننگ کی تھی کہ آصف زرداری کی گرفتاری کی صورت میں پورا ہفتہ سندھ میں احتجاجی جلوس نکالے جائیں گے اور مختلف مقامات پر دھرنے دیئے جائیں گے۔ اس طرح احتجاج کا ٹیمپو اس حد تک بڑھایا جائے گا کہ 27 دسمبر کے روز لاڑکانہ میں بینظیر بھٹو کی برسی بھرپور طرح سے منائی جائے۔ اس برسی میں نہ صرف حکومت بلکہ حکومت کے حامی اداروں پر سخت تنقید کی جائے گی۔ مگر آصف زرداری کو ایک بار پھر ضمانت مل جانے سے پوری صورت حال تبدیل ہوگئی۔ اس لیے اب پیپلز پارٹی کے تھنک ٹینکس کو بینظیر بھٹو کی دسویں برسی کے موقعے پر تقاریر کے الفاظ اور لہجے کا نئے سرے سے تعین کرنا پڑے گا۔
آصف زرداری ذاتی طور پر کتنے بہادر ہیں؟ اس سوال کا جواب ہر سیاسی پارٹی کا کارکن اور ہر اخبار کا صحافی آسانی سے دے سکتا ہے۔ اس بار آصف زرداری کو ڈرانے والوں نے انہیں ذہنی طور پر گرفتاری کے لیے اتنا تیار کیا تھا کہ انہوں نے اپنے سوٹ کیس بھی تیار کر رکھے تھے۔ آصف زرداری نے سب کو واضح ہدایات دے رکھی تھیں کہ ان کے گرفتار ہونے کی صورت میں ان کو کیا کرنا ہے؟ مگر وہ ساری تیاری دھری کی دھری رہ گئی۔ عدالت نے آصف زرداری کی طرف سے دی گئی ضمانت کی درخواست کو قبول کرکے پیپلز پارٹی کی پلاننگ پر پانی پھیر دیا۔ اب آصف زرداری ایک بار پھر سیاسی مشیروں کے گھیرے میں چلے جائیں گے۔ زرداری کے کچھ مشیر انہیں مشورہ دیں گے وہ اپنے جارحانہ لہجے کو جاری رکھیں۔ ان کے اس لہجے سے حکومت اور ادارے ڈر گئے ہیں۔ انہیں مسلم لیگ ن کی قیادت سے بھی قربت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس طرح آصف زرداری پاکستان کی سیاست میں ایک خوف کی فضا قائم کریں۔ وہ لوگ ان سے انگریزی کے بے شمار بار استعمال ہونے والے اس جملے کو دہرائیں گے کہ ’’Offence is best defence‘‘ یعنی ’’جارحیت بہترین دفاع ہے‘‘ مگر پیپلزپارٹی میں ایک لابی ایسی بھی ہے جو انہیں مشورہ دے گی کہ وہ اپنے جارحیت بھرے لہجے سے حکومت اور اداروں کو غصہ مت دلائیں۔ وہ لہجہ دھیما کرنے کی پالیسی اپنائیں۔ وہ سرکار اور اداروں کو یقین دلائیں کہ ان سے حکومت اور اداروں کو کبھی نقصان نہیں پہنچے گا۔ آصف زرداری کے سامنے دونوں راستے موجود ہیں۔ وہ جارحیت کے راستے پر بھی جا سکتے ہیں اور وہ اپنی آواز نیچے رکھ کر حکومت اور اداروں کی خوشامد کرنے کے لیے بھی وہ تیار ہیں۔ اس سلسلے میں وہ بینظیر بھٹو کی برسی تک مشورے لیتے اور سوچتے رہیں گے۔
پیپلز پارٹی میں ایک پرت ایسی بھی ہے، جس نے اس بار آصف زرداری کے گرفتار ہونے یا نہ ہونے پر شرطیں بھی لگائی تھیں۔ اس شرط میں وہ وڈیرے جیت گئے، جنہوں نے کہا تھا کہ ’’رئیس کی پہنچ اوپر تک ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے، مگر رئیس پر ہاتھ ڈالنا کسی کے بس میں نہیںہے۔ اگر ان کو گرفتار کرنا ہوتا تو کب کا گرفتار کر چکے ہوتے۔ آصف صاحب پر ہاتھ ڈالنا بہت مشکل ہے۔‘‘ اس قسم کی رائے پیش کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ آصف زرداری کی گرفتاری حکومت کے مفاد میں نہیں ہے۔ زرداری کی گرفتاری نہ صرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو قریب لائے گی، بلکہ حکومت کے خلاف عوامی احتجاج کا طوفان برپا کردے گی۔ موجودہ حکومت جس کی بنیاد بہت سارے ممبران پر نہیں، بلکہ معمولی اکثریت پر رکھی ہوئی ہے، وہ حکومت کسی بھی صورت دو بڑی پارٹیوں کے احتجاج کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ اس لیے حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ حزب مخالف کو متحد کرے اور اپنے خلاف نیا محاذ کھولے۔ سوشل میڈیا پر اس قسم کے خیالات کا اظہار ہوتا رہا۔ اب آصف زرداری کو مل جانے والی ضمانت کے حوالے سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت اور آصف زرداری کے درمیان ڈیل ہو چکی ہے!
کیا آصف زرداری کو ڈیل کے تحت ضمانت ملی ہے؟ اس سوال پر کئی دنوں تک مباحثے ہوتے رہیں گے۔ پیپلز پارٹی میں تو ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جو امید پرست ہیں۔ وہ اتفاقی کامیابی کو بھی قیادت کا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ مگر ملک کی دیگر سیاسی پارٹیوں میں دیکھنے اور سننے والے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے آصف زرداری کی ضمانت میں توسیع کوئی ڈیل نہیں، بلکہ ان کو حاصیل ہونے والی ایک اور ڈھیل ہے۔ اس انداز سے سوچنے والوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری کی ایک ہی وقت گرفتاری پنجاب اور سندھ میں محدود پیمانے پر ہی سہی، مگر حکومت مخالف تحریک جنم لے سکتی ہے۔ اس تحریک میں وہ عوام بھی شامل ہو سکتے ہیں، جو برسوں تک عمران خان کے اقتدار کا انتظار کرتے رہے اور عمران خان کی حکومت کو پانچ ماہ بھی پورے نہیں ہوئے تو وہ سب عمران خان سے مایوس ہو چکے ہیں۔ عوام کی مایوسی حزب اختلاف کے احتجاج میں شرکت کر سکتی ہے۔ اس لیے آصف زرداری اور میاں نواز شریف کی گرفتاری میں کچھ گیپ رکھنے کی رائے کو پسند کیا گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بینظیر بھٹو کی برسی میں مشکل سے پانچ دن رہتے ہیں تو اس برسی میں حکومت اور اداروں کے خلاف آگ اگلنے کے امکان کو ختم کرنا حکومت اور اداروں کے مفاد میں ہے۔ آصف زرداری کے خلاف حساس اور تفتیشی اداروں کو جتنے ثبوت حاصل ہوئے ہیں اور آصف زرداری کا سخت احتساب کرنے کے حوالے سے جو عوام میں توقعات بڑھائیں گئی ہیں، اس صورت حال میں اگر آصف زرداری گرفتار نہیں ہوتے تو حکومت پر زرداری سے سمجھوتہ کرنے اور زرداری کو پس پردہ این آر او ملنے کی پروپیگنڈہ لہر جس شدت سے پیدا ہوگی، اس کا سامنا کرنا عمران خان کی سرکار کے لیے ممکن نظر نہیں آتا۔ آصف زرداری کو جان بوجھ کر ڈھیل دی گئی ہے۔ اس ڈھیل کا ایک سبب بینظیر کی برسی اور دوسرا سبب میاں نواز شریف کے مقدمے کا فیصلہ آنا ہے۔ اس کے علاوہ آصف زرداری کو وقتی طور پر ملنے والی ڈھیل کے باعث پیپلز پارٹی کے ان افراد نے سکھ کا سانس لیا ہے، جو سیاست میں ٹکراؤ کے خلاف ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اچھی طرح پتہ ہے کہ اب اس کی صفوں میں وہ کارکنان نہیں رہے، جن کو ’’جیالوں‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اب پیپلز پارٹی صرف لیڈروں کی پارٹی ہے۔ چھوٹے لیڈر اور بڑے لیڈر۔ جونیئر لیڈر اور سینئر لیڈر۔ امیر لیڈر اور مڈل کلاسی لیڈر۔ پیپلز پارٹی میں اس وقت جو بھی ہے وہ لیڈر ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جب وہ لیڈران ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں شرکت کرنے آتے ہیں، تب وہ اپنے آپ کو فخر سے سیاسی کارکن کہتے ہیں۔ مگر سیاسی کارکن کہنے اور سیاسی کارکن ہونے میں بہت بڑا فرق ہے۔ پیپلز پارٹی اب ان کارکنان کا تصور بھی نہیں کر سکتی، جو موٹر سائیکل کے گرم سائلینسر پر ننگے پیروں سے کھڑے رہ سکتے تھے۔ جو کارکنان ببول کے درخت کی چوٹی پر پارٹی کا پرچم لگا کر آتے تھے۔ جو کارکنان گرفتار ہونے سے نہیں ڈرتے تھے۔ جو کارکنان قیادت سے غیر مشروط محبت کرتے تھے۔ مگر وہ نسل اب ختم ہو چکی ہے۔ اب پیپلز پارٹی میں سیاست کو کاروبار سمجھنے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ایک وقت وہ تھا، جب پیپلز پارٹی کے کارکنان کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ اب یہ وقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے چھوٹے بڑے لیڈران کے پاس گنوانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اس لیے وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ پارٹی اور حکومت کے درمیان کسی قسم کا تصادم ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ تصادم کی صورت میں انہیں جیل جانا پڑے گا۔ اب وہ سیاسی کلچر کہاں جس میں سیاسی کارکنان فخر سے جیل جایا کرتے تھے؟ وہ وقت اور تھا جب سیاست رومانس تھی۔ اب سیاست شادی ہے اور وہ شادی جس کی بنیاد مفاد پر رکھی جائے۔ اس رشتے میں بندھے ہوئے لوگ مفادات کے ہاتھوں مجبور تو ہوتے ہیں، مگر ان میں عشق کے غرور کا وہ بانکپن نہیں ہوتا، جو کبھی ہوا کرتا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی بہت خوش ہے۔ حالانکہ اس کے دل میں یہ کہاوت کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے کہ ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟‘‘ مگر اس وقت تو بکرے کی ماں بہت خوش ہے۔ بکرے کی ماں کو اس وقت یہ پروا نہیں کہ آصف زرداری کی گرفتاری ڈیل کی وجہ سے ٹلی ہے یا ڈھیل کی وجہ سے؟ بکرے کے حامی اس وقت آصف زرداری کی گرفتاری عمل میں نہ آنے کے حوالے سے مرزا غالب کا یہ شعر پوسٹ کر سکتے ہیں کہ:
’’سنا تھا ہم نے کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر تماشہ نہ ہوا!‘‘
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment