مارچ 2011ء سے بدترین خانہ جنگی کے شکار ملک شام کا بحران ایک نیا رُخ اختیار کر گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اچانک شام سے اپنی فوج نکالنے کا اعلان کرکے اپنے اتحادیوں سمیت سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس فیصلے کے بعد امریکی اتحادی کرد ملیشیا سخت پریشانی کا شکار ہے۔ جس کے خلاف ترکی ایک بڑے آپریشن کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکی انخلا کا اعلان ہوتے ہی ترکی نے کہا ہے کہ اب کرد عسکریت کا صفایا کیا جائے گا۔ صدر ٹرمپ نے اسے شام، روس اور ایران کا اندرونی معاملہ قرار دے کر کہا کہ ہم وہاں داعش کی سرکوبی کیلئے موجود تھے، جس کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اب اس مقامی لڑائی کا مزید حصہ بننے کی ہم سے توقع نہ کی جائے۔ امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شام سے امریکی افواج کی واپسی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے جو کہ سو دنوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔ شام میں امریکی فوجیوں کی تعداد دو ہزار تھی، جو شمالی شام میں کرد ملیشیا کے ساتھ مل کرداعش سے نبرد آزما تھے۔ ٹرمپ کے اس فیصلے پر امریکی سینیٹرز اور اتحادی ممالک نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی داعش کو مکمل شکست نہیں ہوئی۔ اس سے قبل امریکی انخلا سے اس گروہ کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملے گا۔فرانسیسی وزیر دفاع فلورینس پارلے نے جمعہ کو ایک بیان میں شام سے امریکی فوج کے انخلاء کے اعلان کی سخت مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں ابھی ہمارا مشن ادھورا ہے اور امریکی فوج کے انخلا کا فیصلہ مہلک ثابت ہوگا۔ جبکہ امریکی حزب مخالف رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے انخلا کا فیصلہ دراصل روس اور ایران کی فتح کا اعلان ہے۔ جبکہ روس نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اب بحران کے سیاسی حل کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ دوسری جانب اس فیصلے کے ایک روز بعدامریکی وزیر دفاع جیمز میٹس مستعفی ہوگئے۔ اگرچہ انہوں نے صدر کے اس فیصلے کا اپنے استعفے میں ذکر نہیں کیا، تاہم انہوں نے روایتی اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کے قریبی تعاون کی اہمیت کی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتحادیوں کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ اس وقت سب سے زیادہ انتشار اور عدم استحکام کا شکار کوئی ملک ہے تو یقینی طور پر وہ شام ہے۔ جہاں عالمی، علاقائی اور مقامی چھوٹی بڑی قوتیں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ تقریباً سبھی قوتیں اس بات کی بھی دعویدار ہیں کہ وہ داعش کے خلاف مصروف جنگ ہیں اور انہی میں سے بعض داعش اور بشار حکومت دونوں کے خاتمے کی خواہش کا اظہار کرتی ہیں۔ اس قضیئے میں کون کس کا حریف اورکون حلیف ہے، کون انتشار کو فروغ اور کون امن و استحکام کا آرزو مند ہے اور اس سے سب سے زیادہ کون مستفید ہورہا ہے، عام لوگ اس کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ سبھی قوتیں مسلمانوں کا خون بہانے میں شریک ہیں۔ خانہ جنگی کی ابتدا سے اب تک پانچ لاکھ سے زائد شامی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، جبکہ ایک کروڑ تیس لاکھ سے زائد شامی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ زخمیوں اور معذوروں کی تعداد تقریباً بائیس لاکھ ہے۔ اس بحران کا پس منظر سمجھنے کیلئے سابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کونڈولیزارائس اور اسرائیلی وزیراعظم اولمرٹ کی ایک پریس کانفرنس کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ 2006ء میں ان دونوں نے مشترکہ پریس کانفرنس میں مڈل ایسٹ پروجیکٹ کا اعلان کیا تھا، جس میں لبنان پر اسرائیلی حملوں کو درست قرار دیا گیا۔ اس پریس کانفرنس میں کونڈو لیزارائس نے کہا کہ ’’ہم عدم استحکام اور بدامنی کی لہر تخلیق کریں گے، جو لبنان اور فلسطین سے شروع ہوکر شام، عراق فارس، خلیج، ایران اور پاکستان سے افغانستان تک ہوگی‘‘۔ پھر اسی برس مشرق وسطیٰ کا نیا نقشہ بھی جاری کیا گیا۔ تاہم اس خاکے میں رنگ بھرنے کیلئے ’’عرب بہار‘‘ کے خوبصورت نام سے احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ عرب دنیا کے نوجوانوں کو اپنی حکومتوں کے خلاف بھڑکایا گیا۔ تیونس سے اس تحریک کی جو لہر شروع ہوئی، اس نے متعدد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ عرب بہار میں نیو لبرلز نے جمہوریت اور انسانی حقوق کے خوشنما نعرے لگا کر خطے میں اٹھنے والی بیداری کی لہر کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ نتیجے میں صومالیہ، یمن، لیبیا، مصر، عراق اور شام کی موجودہ صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ شام میں اس تحریک کو رفتہ رفتہ خانہ جنگی میں تبدیل کردیا گیا۔ ابتدا میں امریکہ سمیت بڑی طاقتیں بشار الاسد کے خلاف تھیں۔ تمام مبصرین کا یہی کہنا تھا کہ عالمی قوتیں بشار حکومت کو گرانا چاہتی ہیں۔ اس کے مقابل بننے والے اپوزیشن اتحاد کو بڑی پذیرائی مل گئی اور اس کے لڑاکا گروپ (جیش الحر) سے بھرپور عسکری تعاون سے کیا گیا۔ یوں شام کے بڑے بڑے شہر بشارالاسد کے ہاتھوں سے ریت کی طرح نکلنے لگے۔ صرف ایک سال بعد عالمی برادری کی نگرانی میں انتقال اقتدار کیلئے مذاکرات شروع ہوگئے۔ ایسا لگتا تھا کہ شامی آمر کے دن گنے جا چکے ہیں اور اس کے اقتدار کا سورج بس غروب ہونے والا ہے۔ لیکن پھر اچانک اجرتی جنگجوئوں کومیدان میں اتارا گیا، پھر داعش کی داغ بیل ڈالی گئی، جس کی سرکوبی کے بہانے خود امریکہ بھی اپنے اتحادیوں سمیت شام میں آدھمکا اور ایران کے بعد روس بھی بشار الاسد کا اقتدار بچانے کیلئے شامی جنگ میں کود پڑا۔ امریکہ اور اس کے مقامی و عالمی اتحادیوں کا ایک ہی نعرہ تھا کہ بشار الاسد کے اقتدار کا خاتمہ۔ مگر اب وہ فتح کے شادیانے بجا رہا ہے۔ امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کے بنیادی نکات ہیں: ایک تیل کی لوٹ مار اور دوسرا اسرائیل کا تحفظ وتوسیع۔ بشار حکومت کا خاتمہ اور داعش کی سرکوبی سب بہانے تھے۔ دراصل اسرائیل کیلئے علاقائی کانٹوں کو چننے کیلئے یہ سارا کھیل کھیلا گیا۔ اس وقت پورے مشرق وسطیٰ میں آتش و آہن برس رہا ہے اور اس پورے خطے میں داخلی و سیاسی حوالے سے مستحکم اسرائیل پرامن ہے،جس کی چوکھٹ پہ آگ لگی ہو، اس کا یہ اطمینا ن سب کچھ سمجھانے کیلئے کافی ہے۔ دوسری جانب امریکی اتحادی عرب ممالک کے بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کی بھی بشارالاسد سے خفیہ ڈیل چل رہی ہے۔ کچھ دن بعد اس سے سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان بھی متوقع ہے۔ حالانکہ یہ سب بشار حکومت کو ختم کرنے کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق تھے۔ دنیا کو بھی یہی باور کرایا جاتا رہا۔ اسی کیلئے خون کے دریا بہائے گئے۔ بقول غالب: ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیںکچھ… دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔ ٭
٭٭٭٭٭