ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
قرآن وہ پہلا معاشرتی اور ثقافتی قانون ہے، جس کی عین متابعت میں حضور اکرمؐ نے مدینہ کا پہلا عملی اور اصلاحی نظام معاشرت قائم فرمایا۔ قرآن کا قانون اور اس کی اساس پر معاشرے و ثقافت کا عملی نظام جو مدینہ میں پہلی بار قائم ہوا اور دونوں رہتی دنیا تک کے لیے نمونہ اور مثال بن گئے۔ جس طرح معاشرہ اور ثقافت، الٰہی رشد و ہدایت کے اتباع اور عمل کے بغیر نہیں بن سکتے، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ دونوں بغیر نمونے کے صحیح بنیادوں پر ڈھل سکیں اور فروغ پاسکیں۔ اسی لیے ہادی و مرسل اس بات کا پابند ہے کہ وہ جس معاشرے اور ثقافت کو وجود میں لانا چاہتا ہے اس کے ہر جزو کو عملاً پیش کرے۔ چنانچہ آپؐ نے مہد سے لحد تک کی زندگی کے تمام مراحل خواہ ان کا تعلق افراد سے ہو یا معاشرے سے، عملی نمونہ بنا کر پیش کیا۔ زندگی کی مقصدیت اور بامعنی ہونے کا تصور بعثت نبویؐ سے پہلے دنیا میں موجود نہ تھا۔ زندگی صرف لہو و لعب کا نام نہیں، بلکہ حصول مقصد ہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کا ثبوت حضور اکرمؐ کی حیات طیبہ سے ملتا ہے۔ مراسم جہالت اور لہو و لعب سے فطری طور پر آپؐ نبوت سے پہلے بھی مجتنب رہے۔
دنیا کی تاریخ میں یہ واقعہ بھی بے نظیر ہے کہ ماحول اگر ناسازگار ہو لیکن ایک مثالی معاشرہ اور ثقافتی نظام کا وجود ہی لانا مقصود ہو تو اس مقصد کے لیے ترک وطن اور ہجرت لازم ہو جاتے ہیں۔ اسلام میں ہجرت کا ہر پہلو دعوت حق کے اعلیٰ مقصد کے تحت ہے۔ ہجرت کے فوری بعد جو معاشرتی اور ثقافتی کارنامہ حضور اکرمؐ نے انجام دیا، وہ ایک اسلامی معاشرہ کا قیام ہے، جس کا ہر پہلو عدل و توازن سے آراستہ تھا اور جس میں دنیا و دین کی قدریں یکجا کر دی گئی تھیں۔ اسلام میں سب سے بنیادی ادارہ جس کو معاشرتی اور ثقافتی نظام میں اہمیت حاصل ہے، وہ مسجد ہے۔ اس میں تمام ادارے ضم ہیں۔ تمام ادارے اسی مرکز کے گرد گھومتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے ہجرت کے فوراً بعد مدینہ میں مسجد کی بنیاد ڈالی، مسجد بحیثیت ادارہ جن مقاصد کی تکمیل کیلئے وجود میں لائی گئی، ان کی عام اشاعت کے لیے اذان کا طریقہ رائج کیا گیا۔ منجملہ اور مقاصد کے مسجد کا سب سے اہم وظیفہ عبادت اور خدا کی بندگی ہے، تاکہ انسانی شخصیت، ادارے، معاشرے، ثقافت قرآن کے معنوی نظام کی اساس پر مکمل ہوتے جائیں۔ عبادت کا وظیفہ مسلسل بھی ہے اور ہمہ وقتی بھی۔ اس لیے اس وظیفہ کی بجاآوری کے لیے صبح سے رات تک پانچ مرتبہ امت کے مرکز یعنی مسجد میں جمع ہونے کیلئے اذان اسلام کا ایک انوکھا طریقہ ہے۔ اس نشر کا مرکزی خیال توحید ہے۔ اس کا معاشرتی مقصد یہ ہے کہ مختلف مزاج افراد میں اخوت اور محبت پیدا کی جائے اور اس طرح ان میں وحدت فکر، وحدت خیال اور وحدت عمل کے ذریعے ایک تصور اجاگر کیا جائے۔
اسلامی مملکت میں مسجد عبادت گاہ کے علاوہ ایک ثقافتی مرکز ہوتی ہے۔ جس میں تمام اہل محلہ کو دن رات میں پانچ بار ایک جگہ جمع کر کے ان کی اجتماعی اور اتحادی قوت کو بڑھایا جائے۔ حضور اکرمؐ کے دور میں مسجدوں کا جال بچھ چکا تھا۔ مدینہ کے اندر اگر نو مسجدیں تھیں تو مختلف قبائل کی جداگانہ مسجدیں علیحدہ ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی تھیں اور اشاعت اسلام کے ساتھ ساتھ مزید مساجد عرب کے گوشے گوشے میں بنتی جا رہی تھیں۔ مسجد کے ادارے کو نہ صرف مذہبی اہمیت عطا کی گئی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے بھی اس کا مقام متعین کیا گیا۔ اسلامی نظریے کی تعلیم اور اس کا عملی سبق سکھانے اور ان بنیادوں کو واضح کرنے کے لیے جن پر اسلامی ریاست کو قائم کرنا تھا، مسجد انتہائی ضروری تھی۔ حضور اکرمؐ نے مسجد کو اپنی تمام سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا۔ مدینہ پہنچ کر تو مسجد نبویؐ کی تعمیر ہوئی، مگر مدینہ سے پہلے قباء کے قیام کے وقت وہاں خاندان عمرو بن عوف کے سردار کلثوم بن الھدام کی ایک افتادہ زمین پر جہاں کھجوریں خشک کی جاتی تھیں، اسلام کی سب سے پہلی مسجد کی بنیاد آپؐ نے رکھی۔ اسی مسجد کی تعریف سورۃ نور میں قرآن نے فرمائی۔ قباء میں آپؐ کا قیام بہت مختصر رہا، لیکن اس کے باوجود مسجد کی تعمیر کی، جو بہت اہم اور معنی خیز بات ہے، اس سے مسجد کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ آپؐ نے تمام مسلمانوں پر جماعت سے نماز ادا کرنا لازمی قرار دیا، تاکہ ایک امام کے پیچھے کھڑے ہو کر امامت و اقتدا کا فرق سمجھ سکیں اور نظم و اطاعت کا درس حاصل کر سکیں۔ مدینہ کی مسجد نبویؐ میں آپؐ خود جلوہ افروز ہوئے اور دوسری مساجد میں آپؐ کے مقرر کردہ ایسے امام تھے جو علم و فضل اور اخلاق و کردار کے اعلیٰ نمونے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد مسجد کی اہمیت اور بڑھ گئی، یہ ثقافتی مرکز بھی بن گئی۔ جہاں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے عام امور کی تعلیم دی جاتی۔ مدرسہ اور درسگاہ بھی تھی، اس میں تمام اہم قومی معاملات کو بھی طے کیا جاتا تھا۔ سارے جنگی و دفاعی صلاح و مشورے بھی وہیں ہوتے تھے۔ مسجد مسلمانوں کا دارالشوریٰ، پارلیمنٹ ہائوس، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے وفود کی اجتماع گاہ اور مہمان خانہ بھی بن گئی۔ مقدمات، تنازعات کا فیصلہ اور تصفیہ بھی یہاں ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی سپریم کورٹ اور عدالت بھی مسجد تھی، مسجد کی یہی ہمہ گیر حیثیت ہے، جس نے مسلمانوں کی تربیت و تنظیم میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ مسجد کو مرکز و محور بنانے سے جو اسلامی ریاست وجود میں آئی، اس کی امتیازی خصوصیات بھی دنیا بھر میں قائم ہونے والی بڑی بڑی مملکتوں سے اعلیٰ و ارفع تھیں، ان کا مختصر جائزہ ضروری ہے۔
(1) آپؐ کی قائم کردہ ریاست کی سب سے پہلی خصوصیت وہ معاہدہ تھا، جس کی بنیاد بیعت عقبہ کی صورت میں مکہ کی سرزمین میں 13 نبویؐ کو رکھا گیا اور اس معاہدے کی رو سے اہل مدینہ نے برضا و رغبت آپؐ کو اپنا حکمراں تسلیم کر لیا۔ آپؐ کی قائم کردہ ریاست لوگوں کی باہمی رضامندی سے وجود میں آئی۔
(2) یہ ایک ایسی ریاست تھی، جس میں اقتدار اعلیٰ کا سرچشمہ خدا کی ذات تھی۔ اصل حاکمیت اس کے علاوہ کسی کو حاصل نہ تھی اور آپؐ پیغمبر خدا ہونے کی حیثیت سے قرآنی احکام و ہدایات کی روشنی میں اس ریاست کے منتظم اعلیٰ تھے۔ خدا کے احکامات پر سب سے پہلے خود عمل کرتے اور اپنے صالح عمل سے دوسروں کو اس طرح رغبت دلاتے۔ ’’میں پہلا مومن ہوں‘‘ (سورہ اعراف143) ’’میں پہلا مسلمان ہوں‘‘ (سورۃ انعام 163) کا ارشاد اس بات کو واضح کرتا ہے۔ آپؐ نے خود اپنے ہی خلاف متعدد بار لوگوں کو دعوت دی کہ اگر ان کی طرف سے کوئی زیادتی ہو تو اس کا بدلہ لے لیا جائے۔
(3) مدینہ کی اسلامی ریاست نظریاتی اور دستوری ریاست تھی۔ تاسیس ریاست کے ساتھ ہی1ھ میں آپؐ نے تحریری دستور بھی مرتب فرمایا، جس میں واضح طور پر پوری ریاست میں بسنے والے تمام عناصر کے درمیان حقوق و فرائض کی واضح تقسیم فرما دی اور یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور تھا، جو دنیا کی کسی مملکت میں نافذ کیا گیا۔ اس ریاست کی بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ نہ تو یہ نسل و وطن پر قائم تھی، نہ رنگ و زبان پر اور نہ محض معاشی و سیاسی اشتراک نے اس کو جنم دیا تھا، بلکہ وہ اسلامی نظریہ حیات کی علمبردار قرآنی اصولوں کی حامل اور تمام انسانوں کو دعوت دینے والی تھی۔ سورۃ حج کی آیت41 میں ارشاد ربانی ہوا: (ترجمہ) ’’یہ مسلمان وہ ہیں کہ اگر ہم نے انہیں زمین میں صاحب اقتدار کر دیا تو وہ نماز قائم کریں گے، ادائے زکوٰۃ میں سرگرم ہوں گے، نیکیوں کا حکم دیں گے اور برائیوں سے روکیں گے۔‘‘
(4) اسلام ایک مکمل دین ہے، دین و سیاست اس ریاست کا حسین امتزاج تھا۔ دین و دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے، جس کے متعلق اس نے تفصیلی ہدایات نہ دی ہوں۔ خواہ اس کا تعلق معیشت سے ہو یا معاشرت سے، تہذیب سے ہو یا تمدن سے، سیاست سے ہو یا عدالت سے، اس ریاست میں تمام معاملات کو الہامی ہدایات کے مطابق انجام دیا جاتا تھا۔ ایک طرف رسول اکرمؐ سربراہ ریاست تھے، دوسری طرف مسجد میں اشاعت اسلام، نمازوں کی امامت، ولایات کی تنظیم، فوجوں کی قیادت، سرحدوں کا دفاع، احکام الٰہی کی تنفیذ ہوتی تھی۔ اس ریاست میں محراب و منبر دربار و دفتر سب کچھ معاملات مسجد میں طے پاتے تھے۔
(5) مساجد میں ہی شوریٰ کا نظام طے پا چکا تھا۔ تمام امور مملکت جمہور کی رائے سے اسی جگہ طے پاتے تھے، مگر آخری فیصلہ وحی الٰہی اور رسول اکرمؐ کا ہوتا تھا۔
(6) عبادات و معاملات کے مشترک نظام، دین و دنیا، مذہب و معاشرت، روحانیت و ثقافت کے یکجا ہونے کا پختہ تصور مسجد سے ہی ملتا ہے۔
(7) تعزیرات کے سلسلے میں سب سے اہم بات انسان کی جان کی حرمت کا حکم ہے۔ حلال و حرام کے احکامات پر عمل درآمد کرانا، ان کی تنفیذ کے احکام مسجد سے جاری ہوتے تھے۔
(8) اسلام میں توحید کا نظریہ افراد، معاشرہ، ثقافت، ادارات، اعتقادات اور روحانیت کا مرکزی نقطہ ہے۔ توحید کی معنوی اور وجودی اساس پر جینا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اس لیے جہاد کو ایک معاشرتی وظیفہ اور لازمی عمل قرار دیا گیا ہے۔ اسلام اور اسلامی ثقافت کی بقا و ارتقا میں جہاد کو جو بنیادی حیثیت حاصل ہے، اس کا عملی ثبوت غزوات اور سرایا سے لگایا جا سکتا ہے۔ جس کی تمام تیاری تمام احکامات مسجد سے جاری ہوتے تھے۔
(9) مدینہ منورہ میں صفہ واحد درس گاہ نہ تھی، بلکہ یہاں کم از کم نو مسجدیں عہد نبویؐ میں تھیں اور ہر مسجد اپنے آس پاس کے محلے والوں کے لیے درس گاہ کا بھی کام دیتی تھی۔ خاص کر بچے وہاں پڑھنے آیا کرتے تھے۔ قبا، مدینہ منورہ کے جنوب میں مسجد نبویؐ سے تقریباً ڈھائی میل پر واقع ہے۔ آپؐ وقتاً فوقتاً وہاں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں کی مسجد کے مدرسے کی شخصی طور پر نگرانی فرماتے تھے۔ آپؐ یہ احکام بھی جاری فرماتے تھے کہ لوگ اپنے ہمسایوں سے تعلیم حاصل کر لیا کریں۔ اس طرح مسجد حصول علم کا سب سے بڑا مرکز تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن العاص بیان کرتے ہیں کہ ایک دن جب رسول اکرمؐ مسجد نبویؐ میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں دو قسم کے لوگ موجود ہیں، کچھ لوگ نوافل اور خدا کی عبادت میں مشغول تھے اور کچھ لوگ فقہ کی تعلیم و تعلم میں منہمک تھے۔ آپؐ نے فرمایا: دونوں ہی لوگ اچھا کام کر رہے ہیں، البتہ ایک کا کام اچھا ہے جو لوگ خدا سے مانگ رہے ہیں، ان کے متعلق خدا کی مرضی ہے کہ چاہے تو دے چاہے تو نہ دے، البتہ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو علم حاصل کررہے ہیں اور جہالت کو دور کر رہے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے آپؐ نے اس حلقے میں اپنے لیے جگہ بنائی، جہاں درس ہو رہا تھا۔ آپؐ خود بھی شخصی طور پر تعلیم دیتے تھے اور تمام بڑے بڑے صحابہؓ ان درسوں میں شریک رہا کرتے تھے، جہاں قرآن کی تعلیم دی جاتی تھی۔ حضور اکرمؐ مسجد نبویؐ کے حلقہائے درس کا اکثر معائنہ کیا کرتے تھے۔ اگر وہاں کوئی بے عنوانی نظر آتی تو فوراً تدارک فرماتے۔ ایک مرتبہ رسول اکرمؐ نے قضا و قدر کے متعلق کچھ مباحثہ ہوتے سنا۔ آپؐ اپنے حجرے سے باہر آئے، مارے غصے کے آپؐ کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ ترمذی کی روایت کے مطابق ’’ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ انار کا رس آپؐ کے رخساروں پر اور پیشانی پر نچوڑ دیا گیا ہے، آپؐ نے اس موضوع پر بحث و مباحثے سے منع کر دیا اور ارشاد فرمایا کہ بہت سی گزشتہ قومیں اسی مسئلے میں الجھ کر گمراہ ہوئیں۔‘‘
(10) یہ رسول اکرمؐ کی طے شدہ سیاست تھی کہ صرف وہی لوگ قوم کی سرداری اور رہنمائی کریں اور نتیجتاً مسجدوں میں امام بنیں، جو قرآن مجید اور سنت کے زیادہ سے زیادہ ماہر ہوں۔
(11) ہجرت کے بعد سیاسی معاہدات، سرکاری خط و کتابت، ہر فوجی مہم میں جانے والے رضاکاروں کے ناموں کی فہرستیں مختلف مقامات مثلاً مکہ، نجد، خیبر، اوطاس وغیرہ میں خفیہ نامہ نگار جو عموماً تحریری طور پر آپؐ کو اپنے مقام کے حالات کی اطلاع دیتے تھے، ان کے جواب مسجد سے ہی لکھے جاتے تھے۔
-12 عہد نبویؐ می مملکت اسلامیہ جو ابتداً شہر مدینہ کے کچھ حصے پر مشتمل تھی پھیلتی چلی گئی۔ اس کا سبب ایک وسیع تعلیمی، ثقافتی، معاشرتی نظام تھا جو دس لاکھ مربع میل کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ عہد نبویؐ کے اختتام پر حکومت اسلامی باوجود اس قدر وسیع رقبے پر مشتمل ہونے کے دینی اور مذہبی تعلیم کی ضرورتوں سے بھی اچھی طرح عہدہ برآ ہو چکی تھی۔ کچھ تو مرکز مدینہ سے بڑے بڑے مقامات پر تربیت یافتہ معلم بھیج دیئے جاتے تھے اور کچھ صوبہ دار گورنروں کے فرائض منصبی میں یہ امر صراحت کے ساتھ شامل کر دیا جاتا تھا کہ وہ اپنے ماتحت علاقے کی تمام تعلیمی، مذہبی، معاشرتی، معاشی اور ثقافتی ضروریات کا مناسب انتظام کریں۔ گورنروں کو جس تعلیم کے رائج کرنے کا حکم تھا، اس میں وضو، جمعہ کا غسل، نماز باجماعت، روزہ، حج اور کعبہ کے احکام شامل تھے۔
غرضیکہ اسلامی مملکت میں ہمیشہ مسجد ہی ثقافتی، معاشرتی، مذہبی، تعلیمی اور فوجی مرکز رہی۔ جس نے دنیا کے نقشے پر ایک فلاحی ریاست کا نقش ہمیشہ کے لیے قائم کر دیا۔
٭٭٭٭٭