’’ہزاروں فوجی الرٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ادویات ذخیرہ کرنے کا کام فوری شروع کیا جا رہا ہے، کئی درجن فیریز بک کرلی گئی ہیں، طیاروں کو بھی تیار رہنے کے لئے کہا گیا ہے، عوام کو خوراک ذخیرہ کرنے کے لئے ابھی کال نہیں دے رہے، لیکن اس حوالے سے انہیں ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے، کاروباری طبقہ بھی مشکل وقت کے لئے تیار ہو جائے، شرح سود بڑھ سکتی ہے، کرنسی جو پہلے ہی کمزور ہوتی جا رہی ہے، آنے والے دنوں میں اس کی قدر میں مزید کمی ہو سکتی ہے، 80 ہزار کمپنیوں کو ای میل کر رہے ہیں کہ وہ آنے والے حالات کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلیں، ان کے معاہدے ٹوٹ سکتے ہیں، شپمنٹس رک سکتی ہیں، درآمدات اور برآمدت میں خلل پڑنے کے قوی خدشات ہیں، معیشت کساد بازاری کا شکار ہو سکتی ہے، شمالی حصے کو بجلی کی تسلسل سے فراہمی برقرار رکھنا چیلنج بن سکتا ہے، اس لئے وہاں کے عوام کو تیار رہنا چاہئے، جنریٹرز کی خریداری کے بڑے پیمانے پر آرڈر دے رہے ہیں…‘‘ یہ سب پڑھ کر تو آپ کو لگے گا کہ کوئی ملک جنگ کی تیاری کررہا ہے یا اسے کسی دوسرے ملک کے حملے کا قوی خدشہ ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہے، یہ سارے فیصلے برطانوی کابینہ میں کئے گئے ہیں اور یہ کسی جنگ کی تیاری نہیں اور نہ ہی برطانیہ کو کسی کے حملے کا خدشہ ہے، بلکہ یہ ساری تیاریاں اس لئے ہیں کہ برطانیہ نے یورپی یونین سے طلاق لے لی ہے، یورپ سے طلاق لینے کی منظوری گوروں نے ریفرنڈم کے ذریعے دی تھی، لیکن دنیا کی سب سے چالاک سمجھی جانے والی قوم اب ٹربل میں ہے، یعنی گورا ان ٹربل ہے۔ طلاق لینے کا فیصلہ تو بہت آسان تھا، لیکن اب اسے منطقی انجام تک پہنچانا ان کے لئے آزمائش بن چکا ہے، طلاق کا جو بل یورپی یونین نے انہیں تھمایا ہے، وہ اسے اگل بھی نہیں پا رہے اور نگلنا بھی مشکل ہو رہا ہے، ویسے بھی مغرب میں شادی کرنا بہت آسان اور طلاق لینا بہت مشکل ہے، طلاق میں جو بھی پہل کرتا ہے، اسے یہ پہل بہت بھاری پڑتی ہے، کیوں کہ طلاق کی صورت میں نصف املاک دوسرے فریق کو دینی پڑ جاتی ہیں، روسی تو یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اس قانون کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں، کیوں کہ کچھ چالاک گوریوں نے بہت خوبصورتی سے یہ قانون ان کے خلاف استعمال کیا اور ارب پتی روسی جو لندن میں جاتے تھے، انہیں اپنی ادائوں سے شکار کرکے شادیاں کیں اور بعد میں طلاق پر نوبت پہنچا کر ان روسیوں کا نصف مال لے اڑتی رہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی یورپ سے برطانیہ کی طلاق کی، کئی ماہ سے برطانیہ میں اس معاملے پر شور ہے، پارلیمنٹ میں لڑائی ہو رہی ہے، یہ آوازیں لگتی ہیں کہ طلاق کی آڑ میں یورپی یونین انہیں ٹھگنا چاہتی ہے، ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری طرف یورپ لگتا ہے آرام سے بیٹھا مزے لے رہا ہے اور یہ ان کا حق بھی ہے، کیوں کہ کافی عرصہ بعد یورپی اقوام کو گورا ٹربل میں نظر آرہا ہے، وہی گورا جو ان پر برتری جتانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا۔ اب اس کی وزیر اعظم برسلز کے طواف پر طواف کر رہی ہیں، فرانس اور جرمنی جیسے بڑے ممالک ہی نہیں، بلکہ بلجیم اور ہالینڈ سمیت چھوٹے ممالک کے سربراہان کے سامنے بھی ایسے مسکرا رہی ہوتی ہیں، جیسے دیہاتوں میں لسی مانگنے والے ( لسی لینے کیلئے)، کبھی اسپین انہیں جبرالٹر کے معاملے پر آنکھیں دکھا دیتا ہے، تو کبھی آئرلینڈ کی قیادت برطانوی کنٹرول میں موجود شمالی آئرلینڈ کی طرف اشارہ کر دیتی ہے، جس کا بیشتر بجلی نظام بھی آئرلینڈ سے منسلک ہے، رہی سہی کسر اسکاٹ لینڈ کی رہنما نیکولا اسٹرجن نکال دیتی ہیں، جو وقتاً فوقتاً یہ چٹکلہ بھر دیتی ہیں کہ اسکاٹش قوم اپنا مستقبل یورپ سے وابستہ رکھنا چاہتی ہے اور وہ برطانیہ سے علیحدگی کے لئے ایک اور ریفرنڈم کرائیں گی۔ اب کئی ماہ کے منت سماجت سیشن اور فرانس و جرمنی کے درجنوں طواف کرنے کے بعد وزیر اعظم تھریسامے طلاق نامے کی جو دستاویز یورپی یونین سے منظور کرانے میں کامیاب ہوئی ہیں، اس پر ان کے گھر میں ہنگامہ ہو گیا ہے۔ اپوزیشن لیبر پارٹی کو تو چھوڑیں، ان کی اپنی جماعت کے تقریباً چالیس فیصد ارکان طلاق کی شرائط قبول کرنے پر تیار نہیں۔ ان کی کابینہ کا جب بھی اجلاس ہوتا ہے، اس میں وزراء اس معاملے پر لڑتے ہیں، ان کا جو نقشہ برطانوی میڈیا کے ذریعے سامنے آتا ہے، وہ دیکھ کر تو لگتا ہے کہ برطانوی کابینہ میں وزیر ہمارے ہاں غریب محلوں کی خواتین کی طرح لڑتے ہیں، اب طلاق نافذ العمل ہونے میں سو سے بھی کم دن رہ گئے ہیں، لیکن گوروں میں اس پر اختلاف ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ تھریسامے نے اپنی پارٹی کو مطمئن کرنے کے لئے منظور شدہ طلاق نامے پر مزید رعایتیں حاصل کرنے کے لئے پھر یورپی درباروں پر ماتھا ٹیکا، لیکن یورپی رہنمائوں نے خالی ہاتھ لوٹا دیا ہے۔ دوسری طرف فرانس پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ اگر طلاق شرائط کے مطابق نہ ہوئی تو وہ دونوں ملکوں کو ملانے والا انگلش چینل بند کر دے گا۔ انگلش چینل ہی کیا، برطانیہ اور اس کے شہریوں کے لئے سارے یورپ کے دروازے بغیر ویزے کے بند ہو جائیں گے اور گورے واقعی بڑی ٹربل میں آجائیں گے، کیوں کہ تجارت بند ہونے سے ادویات سے لے کر خوراک تک سب چیزوں کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ جو آپ نے اوپر فوجی الرٹ کرنے سے لے کر فیریز بک کرنے تک کے اقدامات پڑھے ہیں، یہ اسی لئے ہیں کہ کسی طرح سمندری راستے سے ضروری سپلائی جاری رکھی جا سکے، کسی بحران میں عوام کو کنٹرول میں رکھا جاسکے۔
برطانوی وزیر اعظم تھریسامے یورپ سے طلاق کے معاملے پر مکمل ناکام ہو چکی ہیں۔ طلاق نامے یعنی بریگزٹ بل کی پارلیمنٹ سے منظوری تو دور کی بات، ان کی اپنی جماعت کے تقریباً چالیس فیصد ارکان ووٹنگ میں ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔ مغرب میں ایسی صورت حال ہو تو عام طور پر لیڈر مستعفی ہو جاتا ہے، لیکن تھریسامے نہیں ہوئیں، تو اس کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اس کی وجہ جو نظر آتی ہے، وہ اپوزیشن لیڈر جیمی کاربن ہیں، جنہیں برطانوی اشرافیہ کسی صورت وزیر اعظم قبول کرنے پر تیار نہیں۔ جنگ مخالف اور بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے اپوزیشن رہنما کے بارے میں برطانوی جنرل اعلانیہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ جیمی کاربن کو کسی صورت وزیر اعظم قبول نہیں کریں گے، اب اگر تھریسامے مستعفی ہوں اور نئے الیکشن کرائے جائیں تو لیبر پارٹی جیت سکتی ہے اور جیمی کاربن وزیر اعظم بن سکتے ہیں، کیوں کہ تمام تر کوششوں کے باوجود انہیں لیبر پارٹی کی سربراہی سے ہٹایا نہیں جاسکا۔ ان کے خلاف میڈیا میں بہت سے اسکینڈل لائے گئے، انہیں سوویت یونین (موجودہ روس) کا جاسوس تک ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان سب کے باوجود لیبر ارکان میں وہ مقبول ہیں، لہٰذا جب تک وہ اپوزیشن لیڈر ہیں، اقتدار موجودہ حکمران جماعت ٹوری کے پاس ہی رہے گا۔ تھریسا مے کو لانے کا عمل بھی دیکھا جائے تو غیر جمہوری تھا۔ بریگزٹ ریفرنڈم سے قبل اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون یورپی یونین سے علیحدگی کے خلاف تھے اور تھریسامے بھی ان کے ساتھ تھیں، ان کی پارٹی کے رہنما اور سابق میئر لندن بورس جانسن یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں مہم چلا رہے تھے۔ ریفرنڈم کے نتائج نے ان کے مؤقف کی تائید کی تو وزیر اعظم کیمرون نے استعفیٰ دے دیا۔ اب اصولی طور پر تو بورس جانسن کو وزیر اعظم ہونا چاہئے تھا، جن کا مؤقف عوام نے قبول کیا تھا، لیکن وہ برطانوی اشرافیہ کو قبول نہیں تھے، اس لئے ان کے اسکینڈل آنے لگے، ان کے آبائواجداد کا تعلق ترکی سے نکال لیا گیا اور یوں تھریسامے کو وزیر اعظم بنوا دیا گیا، حالاں کہ جس اصول پر کیمرون نے استعفیٰ دیا تھا، اس کے تحت تھریسامے تو وزیر اعظم بن ہی نہیں سکتی تھیں، کیوں کہ ان کے مؤقف کو تو عوام مسترد کر چکے تھے، لیکن بس جمہوریت اسی وقت تک ہے، جب تک اشرافیہ کی مرضی کا بندہ رہے، ورنہ جمہوری اصول فولڈ ہو جاتے ہیں۔ روسی صدر پیوٹن نے شاید اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے برطانیہ کو چٹکی بھری ہے اور کہا ہے کہ برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کا ووٹ دیا ہے تو جمہوری رویوں کے مطابق اس پر عمل کیا جائے، کسی نئے ریفرنڈم کا نہ سوچا جائے۔ گورے دنیا کی سب سے چالاک قوم سمجھے جاتے ہیں اور اسی وصف کی بدولت انہوں نے ایک صدی سے زائد دنیا کے بڑے حصے پر حکمرانی کی، لیکن جب قدرت عقل سلب کر لیتی ہے تو پھر ایسے فیصلے ہوتے ہیں، جیسے گوروں نے یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے ریفرنڈم کا کیا۔ انہیں عظمت کا تکبر لے ڈوبا اور اب وہ ٹربل سے نکلنے کے لئے یورپی رہنمائوں کی خوشامد پر مجبور ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭