امریکا نے شام کے بعد افغانستان سے بھی اپنی آدھی فوج واپس بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ افغانستان میں اس وقت چودہ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ ان کی نصف تعداد واپس ہونے پر سات ہزار امریکی فوجی وہاں رہ جائیں گے۔ دو ملکوں سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان ہونے پر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ وزارت دفاع کے حکام نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ امریکی فوجیوں کی واپسی میں کم و بیش تین ماہ لگ سکتے ہیں۔ وزارت دفاع کے ذرائع امریکی فوجیوں کی واپسی کے بارے میں متضاد رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کوئی باضابطہ اور باقاعدہ حکم جاری نہیں کیا ہے، بلکہ طالبان سے امریکا کے مذاکرات کے موقع پر امریکی صدر نے اس خیال کا اظہار کیا، جبکہ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا زبانی حکم دے دیا ہے۔ دریں اثنا افغان طالبان کی شوریٰ کے ایک اہم رکن نے انکشاف کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک نے کابل پر چڑھائی نہ کرنے کی امریکی درخواست قبول کر لی ہے۔ تاہم امریکا کی جانب سے طالبان کو امریکی فوجیوں کے انخلا کے فیصلے سے باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ ادھر کابل میں امریکا کی پٹھو اشرف غنی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلے پر کوئی تشویش نہیں ہے۔ شام کے بعد افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے فیصلے پر امن پسند اور مہذب ممالک نے بالعموم خوشی کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان میں سترہ سال تک زبردست تباہی کے بعد بالآخر امریکا کو اپنی شکست اور جنگی منصوبہ بندی کی ناکامی تسلیم کرنی پڑی۔ 2001ء میں جب امریکا نے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر وحشیانہ بمباری کر کے اور ایک وقت میں جدید ترین اسلحے سے لیس تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجی اتار کر درندگی اور دہشت کا جو بازار گرم کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ افغان شہری ہلاک، زخمی، معذور اور بے گھر ہوئے۔ امریکا کی ریاستی دہشت گردی سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا۔ کم و بیش ستر ہزار پاکستانی شہری و فوجی اہلکار اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دونوں ملکوں میں عمارتوں، شاہراہوں وغیرہ کی تباہی کے علاوہ جو شدید جانی و مالی نقصان ہوا، اس کا درست تخمینہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ صرف پاکستان کو ایک کھرب ڈالر کے قریب مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ خود امریکا بہادر کے ڈھائی ہزار کے قریب فوجی افغانستان میں جہنم رسید ہوئے۔ دوسرے اتحادی ممالک کے جانی و مالی نقصان کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں، کیونکہ ان کے اعداد و شمار کہیں موجود ہیں نہ دستیاب۔ کٹھ پتلی افغان حکومت نے اگرچہ یہ اعلان کیا ہے کہ اسے افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے فیصلے پر کوئی تشویش نہیں ہے، کیونکہ (سرکاری) افغان فوجی مکمل طور پر مسلح اور تربیت یافتہ ہیں اور وہ 2014ء سے زمینی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی تربیت اور اسلحے کے باوجود افغان فوجیوں کا یہ حال ہے کہ وہ کابل سے نکل کر کوئی کارروائی کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ پچھلے چند برسوں میں افغان طالبان کا دائرئہ اثر ملک کے مختلف علاقوں میں تیزی سے بڑھا ہے۔ اس کا اعتراف امریکا، اس کے اتحادیوں اور دیگر ممالک کو بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا بھی مجبور ہو کر طالبان سے حتمی اور فیصلہ کن مذاکرات پر آمادہ ہوا ہے۔ طالبان نے بھی کابل پر چڑھائی نہ کرنے کی امریکی درخواست قبول کر لی ہے۔ امریکا کو افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلا میں یقینا پاکستان کی مدد درکار ہوگی۔ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا موجودہ حکومت کیلئے امتحان ہے۔ امریکا کی ریاستی دہشت گردی میں پاکستان نے ستر ہزار شہریوں اور فوجیوں کا جو جانی نقصان اٹھایا، اس کا تو کوئی بدل نہیں ہوسکتا۔ البتہ پاکستان ایک کھرب ڈالر کے مالی نقصان کو پورا کرنے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ امریکا نے پندرہ تا بیس ارب ڈالر کی جو ادائیگی کی، وہ امریکی و اتحادی فوجیوں اور ان کے سازو سامان کی افغانستان منتقلی کے لیے تھی، جسے امریکا نے پاکستان کے لیے امداد کا نام دیا۔ اس معاملے کو پاکستان کی جانب سے درست انداز میں اٹھایا جائے تو ملک کو درپیش زبردست مالی بحران سے نمٹنے میں بڑی مدد لی جا سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے سینیٹ میں پیش کردہ ملکی و غیر ملکی قرضوں کی تفصیلات کے مطابق اس وقت وطن عزیز اٹھائیس ہزار دو سو باون ارب روپے کا مقروض ہے۔ ماضی کی دو حکومتیں ملک کو قرضوں میں جکڑ کر خود اپنے خاندانوں کے لیے تجوریاں بھرتی رہیں۔ ان کی لوٹ مار کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ 2008ء میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو ملک پر قرضوں کا بوجھ چھ ہزار پانچ سو باسٹھ ارب روپے تھا، لیکن اس نے اپنے دور حکومت میں یہ قرضہ بڑھا کر پندرہ ہزار آٹھ سو بہتر ارب تک پہنچا دیا۔ میاں نواز شریف کی لیگی حکومت 2013ء سے 2018ء تک پانچ سال کے عرصے میں ملکی و غیر ملکی قرضے کو اٹھائیس ہزار دو سو باون ارب تک لے گئی۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت اب تک صرف یہ دعوے کر رہی ہے کہ وہ قومی دولت کے لٹیروں سے پائی پائی وصول کر کے ملک کو نہ صرف قرضوں سے نجات دلائے گی، بلکہ ترقی و خوش حالی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گی۔ یہ سب کچھ کب اور کیسے کرے گی؟ کسی کو نہیں معلوم۔ فی الحال تو وہ غریب عوام پر بجلی، گیس، پیٹرول اور ٹیکسوں کے بم گرا کر انہیں زمین بوس کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ برسراقتدار آنے سے پہلے اس نے اقتصادی بحران پر قابو پانے اور قرضوں سے بچنے کے لیے جو دعوے کئے تھے، وہ اب ہوا میں اڑ چکے ہیں۔ قومی دولت کے لٹیروں سے رقوم وصول کرنے اور اپنی پارٹی کے دولت مندوں سے کچھ لینے کے بجائے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا سارا زور اس امر پر ہے کہ سعودی سے کیا لیا جائے، متحدہ عرب امارات سے کیا مل رہا ہے، چین کیا دے گا اور آئی ایم ایف سے کیا اور کیسے لیا جا سکتا ہے؟ امداد اور قرضوں کی بھیک کے اس مسلسل عمل کے ساتھ غریب عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے دبانے میں ایک روز کی بھی کمی نہیں آئی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے افغانستان سے اپنے چودہ ہزار فوجیوں کی مرحلہ وار واپسی کا اعلان کر کے تحریک انصاف کی حکومت کو بہترین موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ افغان جنگ میں پاکستان کو پہنچنے والے مالی نقصانات اور ان کا ہرجانہ طلب کرے، بصورت دیگر راہداری دینے اور تعاون کرنے سے صاف انکار کر دے۔ ٭
٭٭٭٭٭