قسط نمبر20
محمد فاروق
محمد فاروق اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رہنما ہیں۔ برطانیہ میں مقیم محمد فاروق نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ جو نہ صرف ایک عہد کی آئینہ دار ہے، بلکہ اس میں شریعت و تصوف کے امتزاج کی لطافت بھی جابجا ملتی ہے۔ قارئین کیلئے ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے منتخب ابواب پیش کئے جارہے ہیں۔
آیئے اور باباجیؒ کے اس فرمان کی صداقت کا ایک اور مظاہرہ دیکھتے ہیں۔
’’یہ کوہاٹ ٹکنیکل کالج میں بحیثیت پرنسپل میری تعیناتی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ ابھی دو تین مہینے بمشکل ہوئے تھے۔ ایک دن کالج کے اساتذہ میں سے ایک نے مجھے بتایا، کہ سر…! یہاں کوہاٹ شہر سے ذرا باہر ایک چھوٹی سڑک کے کنارے، آبادی سے دور ایک جگہ پر ایک جھونپڑی یا ایک چوپال سا بنا ہے۔ ایک بزرگ بابا عرصۂ دراز سے اس جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ خوش قسمتی سے اس کا تعلق آپ ہی کے علاقے سوات سے ہے۔ لوگ ان کے پاس دعائیں لینے کے لئے آتے ہیں۔ کسی نے اگر اپنی مرضی سے ان کو پیسوں کی شکل میں کوئی نذرانہ دینا چاہا، تو اس کے ایک بوسیدہ بستر یا مصلے کے نیچے وہ رقم رکھ دیتا ہے۔ مگر وہ خود ہاتھ نہیں لگاتے۔ اس کی اس جھونپڑی میں بس ایک وضو کے لئے لوٹا ہے۔ ایک پانی کا مٹکا اور اوڑھنے کے لئے رضائی۔ وہ وہاں سے باہر کبھی نہیں جاتے۔ اسی جھونپڑی میں نماز پڑھتے اور رات دن اسی میں قیام کرتے ہیں۔ کسی نے باہر سے ان کوکھانے کی کوئی چیز لاکر دی تو قبول فرماتے ہیں… ورنہ خود ان کے ہاں کھانا پکانے کا کوئی انتظام نہیں۔ شہر کے کچھ اوباش اور بدقماش قسم کے جوانوں نے سمجھا کہ دن کو بابا جی کے پاس کافی نذرانے جمع ہوتے ہیں۔ کیوں نہ ان پر ہاتھ صاف کرلیا جائے۔ مگر آدھی رات کو اس نیت سے پہنچنے والوں نے کیا دیکھا کہ آٹھ دس مسلح گھڑ سوار دائرے کی شکل میں بابا جی کی جھونپڑی کے گرد مسلسل گھوم رہے ہیں۔ بری نیت سے جانے والوں پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ یہ بات شہر کے لوگوں میں مشہور ہوئی۔ کچھ اور لوگوں نے بھی ’’قسمت آزمائی کی، مگر منہ کی کھائی۔ وہ دن اور آج کا دن، اب سب لوگ بابا جی سے بہت احترام کے ساتھ ملتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ چلیں نا… سر…! ان سے ملنے۔ وہ تو آپ کے علاقے کے ہیں…!‘‘۔
یہ 2001ء اور 2004ء کا درمیانی زمانہ تھا۔ میری مصروفیت یہ تھی کہ صبح آٹھ نو بجے سوات ٹیکنیکل کالج کے قریب اپنی چھوٹی سی فیکٹری (سلک ملز) میں جاتا تھا۔ کچھ ضروری کاموں کو نمٹا کر پھر عصر تک اپنے دفتر میں مختلف کتابوں کے علاوہ قرآن پاک کی مختلف تفاسیر سے استفادہ کرتا تھا۔ عصر کی نماز کے لئے مجھے اس مسجد یا مقام پر پہنچنا ہوتا تھا، جہاں ہمارے ’’اصحاب صفہ قرآنک سوسائٹی‘‘ کے درس قرآن یا سیرت النبیؐ کا کوئی لیکچر ہوتا۔ یہ سوسائٹی ہمارے بزرگ رہنما اور فرشتہ سیرت محترم ڈاکٹر محمد نثار خان صاحب کی کوششوں اور محبتوں سے وجود میں آئی تھی۔ وہی اس کے روح رواں تھے۔ ہمارے سننے والوں میں کالج و اسکول کے طالب علم، وکلا، اساتذہ، ڈاکٹر اور بیوروکریسی کے لوگ ہوا کرتے تھے۔ ایک صاحب علم دوست کے ذمے درس قرآن کی ذمہ داری تھی۔ البتہ جب کام بڑھ گیا اور دو تین مسجدوں تک بیک وقت دراز ہوا تو سیرت النبی کی ایک مستقل کلاس اور ایک مسجد میں مستقل درس قرآن کی ذمہ داری اس ناچیز کو سونپی گئی۔ رات عشا کی نماز سے فراغت کے بعد میں واپس سیدھا مل میں اپنے دفتر میں پہنچ جاتا تھا۔ رات دیر تک یا تو مطالعے میں مصروف رہتا، یا پھر ایک بہت ہی صاحب بصیرت، سراپا شفقت و محبت، ذی علم و عرفان ہستی کے ساتھ ایک ایسی ملاقات میں مگن رہتا تھا، کہ وقت کا پتہ ہی نہ چلتا۔ اکثر جب یہ مجلس برخاست ہوتی تو فجر کی نماز میں تھوڑا ہی وقت باقی رہتا۔
یہ صاحب علم و سراپا محبت ہستی جناب محمد ظاہر شاہ شہیدؒ کی تھی، جو اس وقت میرے مل کے قریب واقعہ سوات ٹیکنیکل کالج کے پرنسپل تھے اور اسی کالج کے سامنے اپنی سرکاری رہائشگاہ میں قیام پذیر تھے۔ ان کے ساتھ دعا سلام تو پہلے سے تھی۔ مگر کسی دن اتفاقی طور پر کسی مسئلے میں ان سے علمی قسم کی کوئی گفتگو ہوئی۔ پھر کیا تھا… حضرت نے گویا اپنے آپ پر فرض کیا تھا، کہ دن میں ایک دو بار اپنا نوکر بھیج کر مل میں میری موجودگی کا پتہ کراتے تھے، یا پھر اگر خود اس طرف سے گزرتے تو از راہِ عنایت دفتر تشریف لے آتے تھے۔ عشا کی نماز کے بعد تو انہیں یقین ہوتا تھا کہ میں موجود ہوا کرتا ہوں، لہٰذا وہ اس خوبصورت محفل کو رونق بخشنے کی خاطر خود وارد ہوتے اور پھر تاریخ، ادب، کلام، فلسفہ، شعر و شاعری اور شریعت و تصوف، غرض ہر ہر موضوع پر علم کے وہ موتی بکھیرتے جو آج بھی میری زندگی کا نایاب اثاثہ ہے۔ مزاجاً حضرت شاہ تصوف کی طرف مائل تھے۔ چنانچہ شریعت و تصوف کا ’’تنازعہ‘‘ ہماری گفتگو کا خاص موضوع رہتا۔ یہاں میں جان بوجھ کر شاہ صاحب کو چھیڑنے کی خاطر شریعت کی طرف داری، اور ظاہر و باطن میں محسوس و غیر محسوس کے فرق کو ارداتاً واضح کرنے کی کوشش کرتا… جس پر شاہ صاحب اپنے مخصوص انداز میں بھڑک اٹھتے اور میرے اور ان کے درمیان حائل میز کو عبور کر کے میرے سر و گردن کو اپنی بازؤں میں پکڑ کر احتجاج فرماتے:
’’فاروق…! میں نے تم سے کہا تھا اور وعدہ بھی لیا تھا کہ تم اس معاملے میں شریعت کے قانونی ضابطے کو بیچ میں نہیں لاؤ گے… مگر تم خود بھی بزرگوں پر یقین نہیں رکھتے اور ایسی باتوں کی طرف شرارت آمیز اشارے کر کے میرے یقین کو بھی تباہ کرتے ہو۔ اب دیکھو نا… یہ جو کچھ ہمارے صوفیا اور بزرگوں نے فرمایا ہے… وہ نہ تو شریعت کے دشمن تھے نہ شریعت سے ناواقف تھے…۔ ان کے ہاں کوئی مصلحت تو ہوگی نا… ہم کون ہوتے ہیں ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے والے؟‘‘۔
اس دوران خالص ’’اتفاقی‘‘ طور پر میرے ماموں جان اور دوسرے نیشنل سنٹر آف ایکسی لینس ان جیالوجی کے جوان عمر شہید ڈاکٹر حمیداللہ کی خواہش و ترغیب پر میں نے یونیورسٹی آف سنڈر لینڈ (انگلینڈ) میں ایڈمشن لیا۔ بادل ناخواستہ، غیر ارادی اور دل کی کراہیت کے ساتھ جب انگلینڈ کے لئے رخت سفر باندھ رہا تھا، تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا، کہ یہ سفر میرے حق میں پاکستان سے انگلینڈ کے لئے ہجرت کاملہ ثابت ہوگا۔ مگر دو ’’اتفاقات‘‘ پر آج بھی بے حد حیران ہوں۔
-1 کسی درس قرآن… یا غالباً عشا کی نماز میں، میں نے کسی امام مسجد سے سورہ بنی اسرائیل کی چند آیات سنیں، جو پہلے ہزاروں بار سنی تھیں اور تلاوت کرچکا تھا، مگر اس بار ان کی تفسیر و ترجمے کی طرف دھیان گیا، تو یہ نہ صرف میرے دل پر نقش ہوگئیں، بلکہ زبان پر یہ آیت بالکل ایک مستقل ذکر اور ورد کی طرح جاری بھی ہوگئی۔
’’اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال، سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنادے‘‘۔
اہل علم جانتے ہیں کہ یہ آیت اور اس کے آگے پیچھے باقی آیات ہجرت مدینہ سے چند ماہ پہلے نازل ہوئی تھیں اور اللہ نے ان آیات کی صورت میں اپنے رسولؐ کو پیش آنے والے نئے حالات کے بارے میں پہلے ہی ایک کامل اور خوبصورت دعا سکھائی تھی۔ یہ آیات نمبر 80 میرے دل و زبان پر جاری رہی اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بظاہر ایک سال کورس کے لئے جانے اور واپس آنے کے مصمم ارادے کے باوجود کون سے حالات ہو سکتے ہیں کہ میں کبھی اس دیار غیر کا مستقل باشندہ رہنے پر مجبور ہوسکتا ہوں۔
-2 یہ 28 اگست 2004ء کا دن تھا۔ ظہر کے بعد مجھے گھر سے نکلنا تھا۔ اس سے پہلے ظاہر شاہ صاحب کی طرف چکر لگا کر ان سے آخری ملاقات اور رخصت لے لی تھی۔ گھر سے رخصت ہونے سے کچھ پہلے دروازے پر گھنٹی بجی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ شاہ صاحب اس سخت گرمی میں پیدل تشریف لاکر باہر کھڑے ہیں۔ انہوں نے اپنے رویے، گفتگو، علیک سلیک اور ہماری زبان میں ’’باڈی لینگویج‘‘ میں مجھے ’’ہمیشہ ہمیشہ‘‘ کے لئے خدا حافظ کہہ کر رخصت کیا۔ ان کے پر نور چہرے پر وہ مخصوص کرب اور آنکھوں میں وہ آنسو… آج بھی میرے دل پر نقش ہیں۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ’’معاملہ‘‘ صرف ایک ماسٹر ڈگری کی خاطر ایک سال کے لئے باہر جانے، اور واپس آنے کا نہیں۔ بلکہ شاہ صاحب مجھ کو ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ رہے ہیں۔ اس ’’اتفاق‘‘ کی کوئی تو جیہہ نہ اس وقت سمجھ میں آئی تھی نہ اب آرہی ہے، کہ شاہ صاحب سے میں باقاعدہ اور رسماً اجازت لے چکا تھا۔ ان کی مصروفیات میں اس بات کی گنجائش نہ تھی کہ وہ تقریباً ایک میل پیدل آکر اس میں پھر مجھے ملاقات کی عزت بخشتے۔ یہ ایک صاحب کے دل بیدار میں کوئی ’’کھٹک‘‘ یا ’’خلش‘‘؟۔ وہ بالکل ایسی باتیں کر رہے تھے جیسے کسی آئندہ ملاقات کی نہ کوئی امید ہے نہ اس کے لئے کسی’’لمبے انتظار‘‘ کے بغیر کوئی چارہ…!۔ (جاری ہے)