جالان تیانکو عبدالرحمان شروع ہی سے میری پسندیدہ سڑک رہی ہے۔ یہ کوالا لمپور کا ایک قدیم روڈ ہے، جیسے کراچی میں شاہراہ محمد علی جناح روڈ ہے۔ جالان تیانکو عبدالرحمان کا خاص طور پر وہ حصہ ہمارے لئے انتہائی پرکشش تھا، جہاں دو اہم روڈ ’’جالان راجا لاؤت‘‘ اور ’’جالان ڈانگ وانگی‘‘ ملتے ہیں اور ان کے درمیان واقع تنگ گلیاں جالان اصفہان، جالان ملایو، جالان بونس، جالان کولون اور جالان منشی عبداللہ ملتی ہیں۔ وہیں انڈین دکان ہیں اور یہاں کی قدیم مسجد ’’مسجد انڈیا‘‘ واقع ہے۔
میں جب بھی شاپنگ کے لئے کوالالمپور آتا تھا تو جالان تیانکو عبدالرحمان کے قریب واقع گلیوں میں سے کسی ایک گلی میں اپنی کار پارک کرتا تھا۔ یہاں ایک مرتبہ آسمانی بجلی گری تھی اور کچھ موٹر سائیکلوں کے ساتھ میری کار کا کچھ حصہ بھی اس کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ بہرحال کوئی کام اور ضرورت نہ ہونے کے باوجود میں اکثر اوقات مسجد انڈیا کے اندر اور باہر رکھی بنچ پر بیٹھ کر آنے جانے والے ٹورسٹ اور مقامی لوگوں کو دیکھتا تھا، ان سے بات چیت کرتا تھا۔ یہاں انڈیا کے بھانت بھانت کے لوگ نظر آتے ہیں۔ سندھی ہندو، سکھ، گجراتی، تامل، مدراسی، ملباری، بنگالی، پارسی وغیرہ خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ جگہ جگہ ٹھیلے والے مختلف چیزیں، ملئی مٹھائیاں اور فروٹ فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔ 1986ء میں بھوپندر سنگھ نامی ایک سکھ نے جالان ملایو پر ’’جے ہند‘‘ کے نام سے مٹھائی کی دکان کھولی ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ سیپانگ میں اس کا بھینسوں کا باڑہ ہے۔ وہ وہاں سے آنے والے خالص دودھ سے کھویا، برفی اور کھیر ملائی تیار کرتا ہے۔ بہر حال اس نے ایسے معیار اور ذائقے کی مٹھائیاں تیار کرنا شروع کر دیں کہ لوگوں نے پاکستان اور انڈیا سے مٹھائی منگوانا چھوڑ دیا ہے۔
شروع میں اس دکان پر صرف ہم پاکستانی اور ہندوستانی ہی آتے تھے۔ لیکن اب میں نے دیکھا ہے کہ یہاں ملئی، تامل، چینی حتیٰ کہ فارنرز کی بھی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ مسجد انڈیا کے سامنے والی سڑک ’’جالان مسجد انڈیا‘‘ والی گلی ’’جالان بونس‘‘ میں کئی برسوں سے ریسٹورنٹ یاسین مشہور ہے۔ تامل مسلمان کے اس ریسٹورنٹ میں بھی پہلے صرف انڈین اور پاکستانی مسلمان آتے تھے، لیکن اس مرتبہ چینی اور ملئی کثرت سے نظر آئے۔ جس طرح ہمارے ہاں انگریزی کھانے ڈبل روٹی، بن، برگر، پیزا کھا کھا کر ان چیزوں کا ٹیسٹ ڈیولپ ہوا ہے، اسی طرح یہاں کے ملئی اور چینی لوگوں میں بھی ہماری چپاتی، پوری، نان، سالن اور مدراسیوں کا اڈلی ڈوسا کھانے کا شوق پیدا ہوا ہے۔
مسجد انڈیا کے سامنے اب بھی کئی ادیب، شاعر، آرٹسٹ نظر آتے ہیں۔ شام کے وقت یہاں کئی لوگ مالش کراتے نظر آتے ہیں۔ کئی جڑی بوٹیوں والے اپنی دوائیں فروخت کرنے کے لئے مجمع لگا کر ملئی میں لیکچر دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مجھے کوالالمپور میں کسی سے ملنا ہوتا تھا تو میں ہمیشہ اسے مسجد انڈیا میں اس سے باہر ’’مسجد انڈیا روڈ‘‘ پر آنے کا کہتا تھا، تاکہ وہ بور نہ ہو۔ وہاں ہر وقت رونق اور چہل پہل لگتی رہتی ہے۔ کھیل تماشے ہوتے رہتے ہیں۔ اس جگہ پر کسی کا انتظار کرتے ہوئے بوریت ہرگز نہیں ہوتی۔ یہاں کچھ ایسی رونق ہوتی ہے۔ جیسی کراچی کی امپریس مارکیٹ، برنس روڈ اور کھارادر مچھلی میانی مارکیٹ میں ہے۔ میں ہمیشہ کہتا تھا کہ ان گلیوں میں جن کے گھر اور فلیٹ ہیں، ان کے لئے ہر وقت مفت کی تفریح موجود ہے۔ وہ جب بھی بوریت محسوس کریں، گھر سے باہر نکل آئیں۔ پھل، سبزی اور کپڑے لینے کے لئے بھی انہیں بس یا ٹیکسی میں بیٹھ کر کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہر چیز دروازے ہی پر موجود اور انتہائی سستی دستیاب ہوتی ہے۔ اس حد تک کہ یہاں کی بڑی دکانوں میں بھی صحیح معنوں میں Sale لگتی ہے۔ لوگوں کی بھیڑ ہونے کے سبب یہاں سستے داموں چیزیں بیچنے والے بھی فائدے میں رہتے ہیں۔ کیونکہ اس کے لئے بے شمار گاہک ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔
ہمارے شہر اور پڑوس میں رہنے والے ڈاکٹر شکیل کی رہائش اپنی یونیورسٹی کے کیمپس میں تھی۔ لیکن اب وہ پی ایچ ڈی اور شادی کرنے کے بعد شہر میں رہتے ہیں۔ ان کی شادی بھی ہالا سے تعلق رکھنے والی ایک فیملی میں ہوئی ہے۔ ان کی بیگم نسیم اور ان کی فیملی سے بھی میری شناسائی ہے۔ میں نے ان کی دعوت قبول کرتے ہوئے رات کا کھانا کھانے کی ہامی بھرلی۔
’’آپ کی رہائش کہاں ہے؟‘‘ میں نے ڈاکٹر شکیل سے پوچھا۔
’’مسجد انڈیا کے قریب‘‘ انہوں نے جواب دیا۔ پہلے میں سمجھا کہ وہ مذاق کر رہے ہیں، پھر انہوں نے بتایا ’’مسجد انڈیا کی قریبی گلی جالان منشی عبد اللہ پر جو بیس منزلہ منارا سٹی ون کنڈو میم ہے، اس کے سولہویں فلور کے فلیٹ میں رہتا ہوں۔ کرائے کا فلیٹ ہے۔‘‘
پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا ’’آپ بتایئے کہ میں آپ کو لینے کیلئے کہاں پہنچوں؟‘‘
’’کوالا لمپور جیسے اس طویل وعریض شہر میں مجھے تلاش کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ ڈاکٹر شکیل نے حیرت سے پوچھا۔
’’اس لئے کہ آپ اپنی بلڈنگ سے باہر آئیں گے تو مجھے وہیں، جالان منشی عبد اللہ پر پائیں گے یا اس سے تھوڑا آگے مسجد انڈیا والی سڑک پر۔‘‘
اگلے دن میں خود ہی ڈاکٹر شکیل کی بلڈنگ کے سامنے پہنچ کر موبائل فون پر انہیں اپنی آمد کی خبر دی اور کہا کہ وہ نیچے آکر مجھے اپنے فلیٹ پر لے جائیں۔ دراصل دنیا میں جو دہشت گردی کی لہر شروع ہوئی ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ملائیشیا کے ہوٹلوں اور بڑی عمارتوں میں سیکورٹی کا سسٹم سخت کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی فلیٹ یا ہوٹل کا کمرہ اس وقت تک نہیں کھلتا جب تک اس کا مالک اپنا الیکٹرک کارڈ داخل نہیں کرتا۔ لفٹ کو چلانے کیلئے بھی یہ کارڈ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس کا یہ نقصان ضرور ہے کہ مہمان کو لینے کیلئے نیچے اتر کر سڑک پر آنا پڑتا ہے اور اسی طرح واپسی پر میزبان دروازے پر کھڑا ہو کر مہمان کو رخصت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ نیچے جانے اور بلڈنگ کے گیٹ سے نکلنے کیلئے اس کے مالک کے الیکٹرک کارڈ کی ضرورت پڑتی ہے، اس لئے میزبان کا مہمان کے ساتھ نیچے تک آنا لازمی ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر شکیل اور نسیم کی شادی اسی سال ہوئی ہے۔ ان کا فلیٹ سولہویں منزل پر ہونے کے سبب وہاں کی بالکونی اور کمرے کی کھڑکیوں سے پورا شہر نظر آتا ہے۔ اتنی بلندی پر سخت گرمی میں بھی ہوا کے خوشگوار جھونکے آتے رہتے ہیں۔ نیچے ہمیشہ حیدر آباد کے حیدر چوک جیسا شور شرابہ رہتا ہے، اوپر پہنچ کر گویا خاموشی کی دنیا میں آجاتے ہیں۔
’’آپ خوش نصیب ہیں کہ شہر کے درمیان میں رہائش کا فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں اور مضافات کی پرسکون خاموشی کا بھی۔‘‘ میں نے ڈاکٹر شکیل اور نسیم سے کہا۔ ’’کسی چیز کی ضرورت ہوتو گاڑی نکالنے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑتی، آپ دنوں میں سے کوئی بھی نیچے جاکر خریداری کرسکتا ہے۔ ایسی کونسی چیز ہے جو یہاں نہیں ملتی۔ کچھ ہی فاصلے پر چوکٹ مارکیٹ ہے، جہاں ہر قسم کا گوشت، مچھلی، جھینگا وغیرہ بہ آسانی مل سکتے ہیں۔‘‘ ٭