کشمیر میں بندوقیں بھونک رہی ہیں اور پوری دنیا خاموشی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ وہ خاموشی سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے، جو بھارتی مسلمانوں کے حصے میں آئی ہے۔ بھارت کے 18 کروڑ مسلمان خاموشی کی رسی میں لٹکتے نظر آ رہے ہیں۔ اس بار اپنے ہونٹوں پر لگے ہوئے تالے کو اداکار نصیر الدین شاہ نے کھولا تو اس کے اوپر نہ صرف سوشل میڈیا پر پتھروں کی بارش شروع ہوئی، بلکہ وہ اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے لیے اجمیر بھی نہیں جا سکا۔ حالانکہ اس نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا کہ جس سے بھارتی برہمن ازم کے بت ٹوٹ جائیں۔ اس نے صرف اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ بھارت گائے کے لیے محفوظ اور مسلمان کے لیے غیر محفوظ ملک ہے۔ اس نے اپنے بیٹوں کے بارے میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اگر وہ جنونی بھیڑ کے گھیرے میں آگئے تو کیا ہوگا؟ کیا ایک باپ کو اس اظہار پریشانی کا حق بھی حاصل نہیں!!؟
اس وقت بھارت کی کھوکھلی سیکولر پہچان کا تحفظ کرنے والے قلمکار یہ مؤقف پیش کر رہے ہیں کہ ’’بھارت میں مسلمانوں کی خاموشی بھارت کے لیے خطرناک ہے۔‘‘ ممکن ہے کہ اس قسم کی بات کرنے والوں کے ذہن میں اس خاموشی کا تصور اس خاموشی سے ملتا ہو، جس خاموشی کو طوفان سے پہلے والی خاموشی کہتے ہیں۔ مگر یہ پہلی بار نہیں کہ کسی مسلمان کے ہونٹوں سے سچ نکلا ہوا اور اس کی زبان کھینچنے کے لیے ہاتھ نہ بڑھے ہوں۔ یہ پتھر جو اس وقت نصیر الدین شاہ پر برس رہے ہیں، وہ پتھر اس سے قبل عامر خان اور شاہ رخ خان پر برسے تھے۔ حالانکہ وہ بھارت میں بسنے کی قیمت ادا کرتے ہوئے ہر سال ہولی بھی مناتے ہیں اور دیوالی کے دیے بھی جلاتے ہیں۔ مگر پھر بھی ان پر ہندو شاؤنزم واچ ڈاگ کی طرح پہرہ دیتی رہتی ہے۔ اِدھر ان کے ہونٹوں سے کچھ نکلا نہیں اور اُدھر ان کے پتلے جلنے لگتے ہیں اور انتظامیہ کی طرف سے ان کی سیکورٹی میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ بھارت میں موجود مسلمان اداکاروں نے اپنی جائیدادیں دبئی میں بنائی ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جیسے ہی وہ فلمی دنیا سے ریٹائر ہوں گے، وہ اپنے خاندان کے ساتھ دبئی منتقل ہو جائیں گے۔ مگر بھارت میں 18 کروڑ مسلمان، فلمی اداکار نہیں۔ وہ سب امیر نہیں۔ ان کی اکثریت غریب ہے۔ وہ کہاں جائیں؟
اگر اس وقت پاکستان کی طرف سے بھارتی مسلمانوں کو شہریت دینے کا اعلان ہو اور پاکستان اپنی سرحدیں بھارتی مسلمانوں کے لیے کھول دے تو پاکستان میں بھارتی مسلمان سیلاب کی صورت میں داخل ہو جائیں گے۔ کیوں کہ ستر برس تک بھارت میں رہنے کے باوجود بھارتی مسلمان اس ملک میں آزاد شہری ہونے کا حق حاصل نہیں کر پائے، جس ملک میں انہوں نے بٹوارے کے بعد چار نسلیں پیدا کی ہیں۔ وقت کے ساتھ انسان دھرتی میں درخت کی طرح اپنی جڑیں مضبوط کرجاتا ہے، مگر بھارتی مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی بنیاد مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہوئی ہے۔ وہ اس وقت انسانی اور مذہبی آزادی کے ساتھ نہ کھا سکتے ہیں، نہ پی سکتے ہیں اور نہ جی سکتے ہیں۔ وہ کبھی کانگریس پارٹی کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی بھارتیہ جنتا پارٹی میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلمانوں کے خلاف موجودہ ماحول تیار کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، مگر برسوں سے کانگریس پارٹی نے بھی بھارتی مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش نہیں کی۔ بھارت اپنے منہ سے نہیں کہتا، مگر بھارت یہ چاہتا ہے کہ مسلمان بھارت سے نکل جائیں۔ آر ایس ایس کی طرف سے اکیسویں صدی میں جس سوچ کو فروغ دیا گیا ہے، اس سوچ کے باعث بھارت کے ہندو اب صرف سمجھتے نہیں بلکہ کہتے بھی ہیں کہ مسلمانوں کا وجود بھارت کو اپویتر یعنی ناپاک کر رہا ہے۔ اگر ہندوؤں کے بس میں ہو تو 18 کروڑ مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دیں، مگر سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی کہاں جائے گی؟ اگر بھارت ایک بار پھر بٹوارے کے لیے تیار ہوتا ہے تو بھارت کے مسلمان اپنے لیے الگ ملک خوشی سے حاصل کریں گے، مگر جو بھارت کشمیر کو حق آزادی دینے کے لیے تیار نہیں، وہ بھارت کے مسلمانوں کو الگ ملک کس طرح دے گا؟ حالانکہ بھارتی مسلمانوں کے مسائل کا اصل حل یہی ہے کہ بھارت کے وجود سے ایک اور پاکستان کا جنم ہو۔
بھارت میں اپنے انسانی حقوق کی حفاظت اور اپنے قومی اور مذہبی وجود کے تحفظ اور عزت کے لیے بھارت کے مسلمانوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، مگر بھارت میں مسلمانوں کا کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے۔ بھارتی مسلمان چاہتے ہیں کہ انہیں ایسا سیاسی پلیٹ حاصل ہو، جس کی طاقت ان کے تحفظ کا سبب بنے، مگر بھارتی مسلمانوں کو معلوم ہے کہ بھارت کی جمہوریت اور سیکولرزم ان کو یہ حق حاصل کرنے نہیں دے گا۔ بھارت میں آر ایس ایس کے جنونی ہندو انتہاپسندوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مزاج کے مطابق پلیٹ فارم بنائیں اور اپنی مرضی کے نعرے لگائیں، مگر بھارت کے مسلمانوں کو عملی حق حاصل نہیں کہ اپنی الگ پارٹی بنائیں۔ حالانکہ اس مسئلے کا اصل حل یہی ہے کہ بھارت کے مسلمان اپنے سماجی حقوق کے لیے سیاسی پلیٹ فارم بنائیں اور ایک دوسرے کے حقوق کی حفاظت کرنے کے سلسلے میں سیسہ پلائی دیوار ہو جائیں۔ اس سلسلے میں اگر مسلمان اپنے لیے ممکن نہ سمجھیں کہ اپنا الگ سیاسی پلیٹ فارم بنائیں تو وہ بھارت کی ساری اقلیتوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور اقلیت کے انسانی حقوق کے تحفظ کی تحریک چلائیں۔ اگر بھارت میں بسنے والے مسلمانوں نے آزاد اقلیت کا نعرہ بلند کرنے کے لیے اپنی خاموشی نہیں توڑی تو ان کی نئی نسل کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیوں کہ بھارتی معاشرہ وقت کے ساتھ سماجی طور پر زیادہ لبرل اور سیاسی طور پر بہت تنگ نظر ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ ہر کمزوری کی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ طاقت کی حقیقت نے تاریخ میں ثابت کیا ہے کہ طاقت کے حوالے سے اعداد و شمار کا اہم کردار نہیں ہوتا۔ اگر اقلیت کے پاس طاقت ہو تو وہ اکثریت کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ بھارت میں مسلمان اتنی چھوٹی اقلیت بھی نہیں ہیں۔ 18 کروڑ انسان بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ انسانوں کی اتنی تعداد سب کچھ کر سکتی ہے، مگر اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ہمت کرے اور ایک دوسرے سے مل کر متحد ہو جائے۔
برصغیر کے مسلمانوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ بہادر بھی ہیں اور باصلاحیت بھی۔ اس وقت بھی آرٹ کے شعبے میں بھارتی مسلمانوں کا بھارتی ہندو مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ایک وقت تھا جب بھارت میں مسلمانوں کی تعداد اب سے بھی بہت کم تھی، مگر اس وقت بھارت پر مسلمانوں نے حکومت
کی۔ اقلیت اکثریت پر غالب آسکتی ہے۔ مسلمان اقلیت ماضی میں یہ ثابت بھی کر چکی ہے، مگر موجودہ دور میں بھارت کے مسلمان بے حد گھبرائے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انہیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کی کمزوری کا سبب یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں۔ اگر وہ سیاسی پلیٹ فارم بنانے میں کامیاب ہوگئے تو بھارتی ہندو شاؤنزم کا رویہ تبدیل ہو جائے گا۔
کاش! یہ دنیا اصول اور اخلاق پر چلتی۔ اگر ایسا ہوتا تو دھرتی میدان جنگ کا منظر پیش نہ کرتی۔ اس دنیا میں اپنے وجود کو قائم رکھنے اور اپنے جائز حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے بھی طاقت کا توازن درکار ہوتا ہے۔ اس وقت طاقت کا توازن بھارتی مسلمانوں کے حق میں نہیں۔ بھارتی مسلمانوں نے بھارت کی ہندو نفسیات میں اپنے لیے نرم گوشہ حاصل کرنے کی کوشش میں پاکستان کی دل سے نہیں تو زبان سے ضرور مخالفت کی ہے۔ جب کہ پاکستان کی طرف بھارتی مسلمانوں کا پیار انہیں بھارت میں پختہ کر سکتا ہے۔ مگر پاکستان کی حمایت کرنے کا حوصلہ بھارتی مسلمانوں میں اس وقت نہیں ہے۔ وہ اس سوچ کو مہم جوئی سمجھیں گے۔ ٹھیک ہے کہ پاکستان کی حمایت نہ کریں۔ وہ بھارت کی سرزمین پر پاکستان کے پرچم نہ لہرائیں۔ مگر ان کا اپنا تو کوئی پرچم ہونا چاہئے۔ بھارت میں اگر آدی واسیوں کے لیے آئین میں تھوڑی بہت گنجائش ہے تو مسلمان اقلیت کے لیے کیوں نہیں ہو سکتی؟ بھارتی مسلمان اپنی جدوجہد سے بھارت میں اقلیتوں کے حوالے سے آئینی حقوق حاصل کر سکتے ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اب دھرتی وہ نہیں کہ جس کا جہاں جی آیا، وہ وہاں چل پڑا۔ اس وقت کسی ملک میں بغیر ویزے کے داخل ہونے کا تصور نہیں ہے۔ دنیا میں آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور دھرتی کم ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک بھارت کے مسلمانوں کے لیے اپنا دامن کشادہ نہیں کرے گا۔ بھارت کے مسلمانوں کو اپنے اور اپنی نسلوں کے لیے اس سرزمین کا حق حاصل کرنا ہوگا جو انہیں ایسا تحفظ فراہم کرے، جیسا تحفظ ملک اپنی آبادی کو فراہم کرتے ہیں۔
بھارت میں مسلمان کس درجے کے شہری ہیں؟ اس سوال کا جواب تاریخ تلاش کر رہی ہے۔ تاریخ جس کی آنکھوں کو صاف نظر آ رہا ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمان اپنے ملک میں جلا وطن ہیں۔ ان کی جلاوطنی کب ختم ہوگی؟ اس سوال کا جواب بھی ان کی جدوجہد دے پائے گی۔ اس وقت بھارت کے مسلمان اس گھاس کی طرح ہیں، جس پر برف کی موٹی تہہ جمی ہوئی ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کو اپنے اوپر پڑی ہوئی برف کی یہ چادر چاک کرنی ہوگی۔ بھارت کے مسلمانوں کو اپنے وطن میں اپنا وطن تلاش کرنا ہوگا۔ بھارت کے مسلمانوں کو اپنی کمزوری اس طرح طاقت میں تبدیل کرنا ہوگی، جس طرح اس وقت کشمیر کے مسلمان کر رہے ہیں۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ بھارت کے مسلمان کشمیریوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہتے آئے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کا یہ احتیاط نامی ڈر ان کی کمزوری کا باعث بنتا رہا ہے۔ بھارت کے مسلمان اپنے اس ڈر سے اپنے آپ کو آزاد کرائیں۔ اس وقت وہ اپنے لیے نہیں، اگر کشمیر کے مسلمانوں کے لیے بھی آواز بلند کریں گے تو وہ صدا صرف کشمیر کے لیے نہیں، بلکہ خود ان کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ کشمیر کا قرض پوری دنیا پر ہے۔ پاکستان کشمیر کا مقروض ہے۔ مگر کشمیر کے لیے صدائے حق بلند کرنے کا سب سے بنیادی فرض ان بھارتی مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے جو بھارت میں خاموش قیدیوں کی طرح جیتے ہیں۔ وہ قیدی جنہوں نے اپنے ہونٹوں کو نعرئہ مستانہ بلند کرنے کی اجازت دینا تو دور کی بات، انہوں نے تو اپنی زنجیر کی زبان پربھی چپ کی مہر لگا رکھی ہے۔