ابرش آنکھیں بند کئے چلا رہی تھی ’’دددو، دددو‘‘ لاڈلی بیٹی کی رونے کی آواز پر دوسرے کمرے میں موجود سیلانی لپک پر اپنی خوابگاہ میں پہنچا تو ابرش اپنے ننھے ننھے پیروں سے لحاف اچھا ل کر پرے پھینک چکی تھی اور اب اونچی آواز سے دودھ مانگ رہی تھی۔ سیلانی کے گھر میں یہ لگ بھگ ہر صبح کا معمول ہے، جس طرح اسے صبح سویرے کافی یا چائے کا کپ چاہئے ہوتا ہے، اسی طرح ابرش کو دودھ کی طلب ہوتی ہے اور اس طلب میں اس کی مما سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابرش تین سال کی ہو رہی ہے، اسے پراٹھا، ڈبل روٹی اور کھانا شانا بھی کھانا چاہئے، دودھ پینے کے بعد یہ سارا دن کچھ نہیں کھاتی۔ ٹافیاں چاکلیٹس، لالی پاپ اور الا بلا کھاتی رہتی ہے۔ بات درست ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ ابرش کم ہی ناشتے کی طرف مائل ہوتی ہے۔ آج بھی یہی ہو رہا تھا، اب اس نے اپنے بابا کو پکارنا شروع کر دیا تھا۔
’’بابا، بابا! دددو، دددو…‘‘ سیلانی سے رہا نہیں گیا۔ وہ لیپ ٹاپ چھوڑ کر لپک کر اپنی خوابگاہ میں پہنچا اور ابرش کو اٹھا کر سینے سے چمٹا لیا۔
’’بیٹا! تھوڑا سا ناشتہ کر لو، انڈا کھا لو، پھر ددو بھی پی لینا۔‘‘
’’نئیں ناشتہ نہیں کرنا دددو، دددو…‘‘
’’اچھا بھئی، میں لے کر آتا ہوں، آپ رونا تو بند کرو۔‘‘ سیلانی بیگم کی چبھتی ہوئی نظریں نظر انداز کرکے باورچی خانے میں گیا، چولہے پر دیگچی میں پڑے دودھ سے بالائی ہٹا کر فیڈر بھرا اور ابرش کے پاس لے آیا ’’یہ لے میرا بچہ، اب ناشتہ بھی کرنا اچھا۔‘‘
ابرش نے کوئی جواب نہیں دیا اور جھپٹ کر دودھ کی بوتل پکڑ لی، البتہ ابرش کی مما نے طنزاً ضرور کہا ’’اب کیوں کرے گی ناشتہ، دودھ سے جو پیٹ بھرلے گی، آپ بھی سمجھتے نہیں ہیں، بڑی ہو رہی ہے، اسے ناشتے میں انڈہ کھانا چاہئے، پراٹھا لینا چاہئے، اب صرف دودھ سے تو پیٹ نہیں بھرتا ناں، لاڈ پیار اپنی جگہ ہی اچھا لگتا ہے، اب دیکھ لیجئے گا سارا دن اس نے جو کچھ کھایا، دنیا کو سمجھاتے ہیں اور اپنی سمجھ کام نہیں کرتی…‘‘ بیگم بڑبڑاتے ہوئے میلے کپڑے لئے واشنگ مشین کی طرف بڑھ گئیں اور سیلانی نے پھر اپنے لیپ ٹاپ سے رجوع کر لیا۔ وہ کل ہی پشاور سے واپس آیا تھا اور اب کالم لکھنے بیٹھا تھا۔ وہ اس سے پہلے پشاور کئی بار جا چکا ہے، لیکن اسے اتفاق کہئے کہ مسجد مہابت خان کبھی نہیں جا سکا۔ اس بار سیلانی کا کزن زاہد امین اسے 348 برس پرانی یہ مسجد دکھانے لے گیا، جہاں کینیڈا سے آئے ہوئے سکھ فوٹو گرافر لکبیر سنگھ سے یادگار ملاقات ہوئی۔ لکبیر سنگھ خالصتان تحریک کا زبردست حامی ہے اور بڑی ہی خوبصورت پنجابی اور گلابی اردو میں بات کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ ریفرنڈم 2020ء سکھ قوم کو خالصتان کے سامنے لا کھڑا کرے گا۔ وہ بتا رہا تھا کہ سکھ قوم کی آنکھیں کھل گئی ہیں، انہیں پتہ چل گیا ہے کہ کون سجن اور کون دشمن ہے۔ لکبیر نے قہوے کی چسکیاں لیتے ہوئے انکشاف کیا کہ حال ہی میں انڈین آرمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر آف سائیکالوجیکل انٹیلی جنس ونگ نے سکھ فوجیوں کے سیل فونز ریکارڈ کرنے اور ان کے اہل خانہ، دوستوں یاروں، ملنے جلنے والوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی سفارش کی ہے۔ لکبیر سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارت JUSTICE FOR SIKHS تحریک سے خائف اور پریشان ہے۔ خالصتان کے قیام کے لئے 2020ء میں ہونے والے ریفرنڈم نے ان کی نیندیں اڑا رکھی ہیں، انہیں سکھ فوجیوں کی جانب سے بغاوت کا ڈر ہے۔ یہ بات کتنی حد تک درست تھی یا غلط، لکبیر سنگھ سے ملاقات دلچسپ رہی اور سیلانی قارئین کو لکبیر سنگھ سے ملوانا چاہ رہا تھا کہ ابرش نے سب کچھ الٹ پلٹ دیا۔ وہ ایک بار پھر گڈمڈ خیالات کے ساتھ لیپ ٹاپ سامنے رکھ کر بیٹھ گیا۔ دفعتاً اس کی نگاہ لیپ ٹاپ کے کونے میں ہندسوں پر پڑی اور اسے یاد آیا کہ چند گھنٹوں بعد پچیس دسمبر اور یوم قائد ہے، پھر مسجد مہابت خان کی تاریخ بھی پیچھے کہیں رہ گئی، لکبیر سنگھ کا چہرہ بھی دھندلا گیا اور سیلانی کی آنکھوں میں جبڑے کی ابھری ہوئی ہڈیوں، ستواں کھڑی ناک اور بیضوی چہرے والی نفیس، خوش لباس، ’’مغرور، ضدی اور سخت گیر‘‘ شخصیت کا سراپا گھوم گیا، اسے قائد اعظم یاد آئے تو ان کے حوالے سے لکھی ہوئی تحریریں جیسے مجسم ہوکر سامنے چلنے پھرنے لگی ہوں۔ قائد اعظم کو گھمنڈی انگریز بھی مغرور کہتے تھے، کیوں کہ وہ گوروں کو کسی کھاتے میں شمار نہ کرتے۔ ہندو ضدی کہتے، کیوں کہ وہ انہیں ان کے مؤقف سے ایک سینٹی میٹر پیچھے نہیں کھینچ سکے۔ انہیں سخت گیر انا پرست کے نام بھی دیئے گئے کہ وہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے، کسی کی سفارش نہیں کرتے تھے اور سفارش کی نوبت تو تب آتی ناں جب کسی کو ان سے سفارش کروانے کے لئے بات کرنے کی ہمت ہوتی۔ یہ ہمت یہ حوصلہ کسی نے کیا یا نہیں، لیکن سیلانی کو اس نرس کا علم ہے، جس نے زیارت کی وادی میں قائد اعظم کے آخری دنوں میں خوب خدمت کی اور ان کا اتنا خیال رکھا کہ قائد اعظم بھی خوش ہوگئے اور ایک دن ممونیت بھرے لہجے میں کہنے لگے کہ میرے لئے کوئی کام ہو تو بتانا، یہ سن کر وہ نرس کھل اٹھی اور نوزائیدہ مملکت کے سربراہ سے کہنے لگی کہ میرا یہاں سے پنجاب تبادلہ کروا دیں، یہاں میرا کوئی عزیز رشتہ دار نہیں ہے، میں پنجاب جانا چاہتی ہوں، یہ کام بہت معمولی اور بالکل جائز تھا، وہ ایک عورت تھی، اپنے عزیز واقارب سے سینکڑوں کلومیٹر دور فرائض انجام دے رہی تھی، یہ سب نہ بھی ہوتا تو قائدکا کہہ دینا کافی ہوتا، وہ انہیں کس کس طرح نہ نواز سکتے تھے، لیکن وہ سوچ میں پڑ گئے اور پھر انہوں نے دھیرے سے قطعی لہجے میںکہا کہ سوری بیٹی! یہ کام محکمہ ہیلتھ کا ہے، گورنر جنرل کا نہیں۔
تاریخ کے اوراق میں وہ عجیب واقعہ بھی محفوظ ہے کہ گورنر جنرل اور گورنر جنرل بھی وہ کہ جو بانی وطن ہو، جس نے دنیا کا نقشہ بدل ڈالا ہو، وہ کہتا ہے کہ اس کے زیر استعمال سرکاری جہاز میں لکھنے کی میز نہیں ہے، وہ لگوا دی جائے، یہ ایک بہت ہی معمولی سا چھوٹا سا کام تھا، قائد نے دوران پرواز اس میز پر غزلیں یا افسانے نہیں لکھنے تھے، تحریک پاکستان کی یادداشتیں بھی نہیں لکھنی تھیں، وہ سفر کے وقت کا کارآمد استعمال چاہتے تھے، ان کے حکم کی تعمیل کے لئے فائل تیار ہو کر نوزائیدہ مملکت کے وزارت خزانہ کے پاس پہنچی۔ نیا نیا ملک تھا۔ یہاں آنے والے بھی اسی قائدکے سپاہی تھے۔ جانے کون جی دار افسر تھا، جس نے قلم اٹھایا اور فائل پر لکھ دیا کہ گورنر جنرل اس قسم کے احکامات سے پہلے وزارت خزانہ سے اجازت لینے کے پابند ہیں۔ قائد تک یہ فائل دوبارہ پہنچی تو غصے سے ان کا چہرہ سرخ ہوا، نہ انہوں نے اسے اپنی توہین گردانا۔ انہوں نے اس افسر کو طلب کرکے یہ بھی نہیں کہا کہ میں نے تمہیں ایک ملک لے کر دیا ہے اور وہ بھی دنیائے اسلام کا سب سے بڑا ملک، تمہیں اس کا شہری بنا دیا اور تم مجھے ہی اصول سکھانے چلے ہو؟ اس میز کی اوقات ہی کیا ہے، میں کوئی کنگلا تو نہیں ہوں، مشہور بیرسٹر ہوں، میرے ایک مقدمے کی فیس سے میز کرسی بنانے والا پورا کارخانہ خریدا جا سکتا ہے اور تم مجھے منع کر رہے ہو! لیکن وہ قائد اعظم تھے، وزارت خزانہ کی بات اصولی تھی، انہوں نے اپنے طیارے Vickers Viking میں میز لگوانے کا حکم نامہ منسوخ کر دیا۔
سیلانی کو قائد اعظم یاد آئے تو ان کی بیٹی دینا جناح بھی یاد آگئیں، قائد اعظم کی ایک ہی بیٹی تھیں اور وہ بھی ان کی محبت کی نشانی، ان کی اہلیہ مریم جناح محض 29 برس کی عمر میں دینا جناح انہیں سونپ کر اس جہان فانی سے کوچ کر گئی تھیں، محمد علی جناح کی حیثیت سے انہیں اپنی بیٹی سے کتنا پیار ہو گا، یہ سمجھنا اتنا مشکل نہیں، جیسے سیلانی ابرش کی آواز پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے لئے بھاگ کھڑا ہوتا ہے، جیسے ابرش اس کی گود میں آبیٹھتی ہے، جیسے وہ چھوٹی چھوٹی فرمائشیں کرتی ہے، ویسے ہی دینا جناح بھی ان سے فرمائشیں کرتی تھیں، قائد اعظم حتی الامکاں اسے پورا بھی کرتے تھے اور وہ دینا جناح کو اتنا ہی چاہتے تھے، جتنا ایک باپ اپنی اکلوتی اولاد کو چاہتا ہے، لیکن جب اسی دینا جناح نے ایک پارسی نوجوان سے شادی کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ قائد اعظم کی مرضی کے بغیر کیا تو قائد اعظم اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی میں شریک ہوئے، نہ ہی انہوں نے دینا جناح سے میل ملاپ رکھا، دینا جناح اپنے والد کو سالگرہ پر تہنیتی کارڈ بھیجتیں تو قائد اعظم جواب میں لکھ بھیجتے:
’’مسز واڈیا آپ کا بہت شکریہ‘‘
قائد اعظم نے دو قومی نظریئے کی بنیاد پر ہی تو پاکستان بنایا تھا۔ ان کا تو اصل مطالبہ ہی یہی تھا کہ جن کے عقائد مختلف ہوں، رہن سہن الگ ہوں، جینا مرنا مختلف ہو، وہ ایک قوم نہیں ہو سکتے۔ قائد اعظم، محمد علی جناح بن کر باپ کی شفقت سے مجبور ہو کر دینا جناح کی ضد سے ہار مان لیتے تو آج دو قومی نظریئے کی جگہ کہاں ہوتی؟ پھر ان کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہوتا کہ جب مسلمان پارسیوں سے رشتے داریاں بنا سکتے ہیں تو ہندوؤں سے کیوں نہیں؟ اور پھر مسلمان ایک الگ شناخت رکھنے والی قوم کہاں سے ہوگئے؟ کہا جاتا کہ مل جل کر رہنے میں کیا قباحت تھی، جو لاکھوں لوگوں کو بٹوارے کے نام پرکٹوا ڈالا گیا… قائد اعظم اصول پرست راہنما تھے۔ انہوں نے باپ کی شفقت کو اتنا پیچھے چھوڑ دیا کہ کسی کو آوازہ کسنے کی ہمت نہ ہوئی، لیکن افسوس آج کے حکمران تو کیا، سرکاری افسران نے بھی پاکستان کو وہاں رکھتے ہیں، جہاں قائد اعظم بیٹی کی محبت چھوڑ آئے تھے، آج سرکاری دفاتر میں اسی قائد کی تصویر لگا کر وہ سب کچھ کیا جا رہا ہوتا ہے، جس سے قائد کی روح تڑپ تڑپ اٹھتی ہو، جس پاکستان کے قائد اعظم نے ایک نرس کے تبادلے سے معذرت کر لی تھی، آج اسی کے حکمران بادشاہ بنے بیٹھے ہوتے ہیں، کسی صحافی سے خوش ہوئے تو سرکاری ٹیلی ویژن کا چیئرمین لگوا دیا، دوسرے نے خوش کیا تو پیمرا کا چیئرمین بنائے جانے کے احکامات صادر کر دیئے، ساتھی سفارشی ہوا تو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن سے اسسٹنٹ ڈویژنل انجینئر بھرتی ہونے والا خوشاب کا کمشنر ہو گیا، کسی پولیس والے نے سسرالی کی گاڑی روک لی تو تیوری پر بل پڑ گئے، فی الفور سیٹ چھوڑنے کا حکم دے دیا… قائد اعظم کے بعد پاکستان ویسے تو پھل پھول نہیں سکا، ہاں یہاں رشوتوں اور سفارشوں کا سلسلہ خوب پھلتا پھولتا رہا۔ جس ملک کا بانی اپنے جہاز میں میز نہیں لگوا سکا، آج اسی ملک کے حکمران عوام کے پیسوں سے اپنے محلوں کو جانے والے راستوں پر شاہراہیں بنا کر بیٹھے ہیں۔ سچ ہے آج عمران خان، نواز شریف، زرداری، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق اور میرا آپ کا پاکستان تو ہے، لیکن قائد اعظم کا پاکستان جانے کہاں رہ گیا؟ اس گمشدہ پاکستان میں سرکاری اور سیاسی سطح پر قائد اعظم کی سالگرہ کے جانے کتنے کیک کاٹے جائیں گے۔ وزیر اعظم ہاؤس اور وزرائے اعلیٰ اور گورنر ہاؤسوں سے رٹے رٹائے انداز میں پیغامات جاری کئے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہیں سیمینارز بھی ہو جائیں، لیکن سب بے روح اور مصنوعی۔ ہمیں رشوت، سفارش، بے اصولی اور قانون شکنی کی زنجیریں کاٹنی ہیں، کیک تو کب سے کٹتے آرہے ہیں… سیلانی یہ سوچتے ہوئے لیپ ٹاپ پر قائد اعظم کی تصویر سے نظریں چرا کر کھڑکی سے باہر دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭