کرسمس کی حقیقت اور شرکت کی شرعی حیثیت ( آخری حصہ)

ڈاکٹر شمس الحق حنیف
کرسمس منانے کے بارے میں میرے جواب پر چند حضرات کی طرف سے شبہات و تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے، جن میں سے کچھ باتیں سوء فہم پر مبنی ہیں، مثلاً حدیثِ رسولؐ ’’مَنْ تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنھُمْ‘‘ کی تشریح میں، میں نے صاف لکھا تھا کہ: ’’یہاں مشابہت سے مراد ان کی قومی/ مذہبی علامات میں مشابہت ہے، جیسے کوئی صلیب لٹکائے، کرسمس منائے، چھ کونوں والا ستارہ لگائے، کڑا کرپان، زنار یا چوٹی رکھے، بتوں کے سامنے پَرنام کرے تو وہ ان میں ہی شمار ہوگا۔‘‘ لیکن پھر بھی ایک صاحب نے اعتراض اٹھایا کہ اگر اس کی تشریح اس طرح کی جائے تو پھر مغرب سے آنے والی ہر چیز کو کافروں سے مشابہت کی دلیل پر ترک کرنا پڑے گا، جس میں ان کا لباس، ٹیکنالوجی اور انسانیت کے عمومی طور پر فائدہ مند چیزیں بھی شامل ہیں۔ اب:
ناطقہ سر بگریباںہے اسے کیا کہئے!
ان صاحب سے ہم پوچھتے ہیں کہ اس حدیث کی یہ تشریح تم نے کس محدث اور فقیہ کی کس عبارت سے اخذ کی ہے، جبکہ تمہارے سامنے واضح الفاظ میں اس حدیث کے مصداق کے طور پر مذہبی علامات اپنانے کو مشابہت قرار دینے کی کھلے الفاظ میں تصریح کرنے والی عبارت اس کی نفی کر رہی ہے؟ اس ضمن میں معترض کی یہ غلط فہمی بھی دور کرتا چلوں کہ انسانیت کیلئے عمومی طور پر مفید چیزیں صرف مغرب سے ہمیشہ نہیں آئیں، ایک دور میں جب پورا یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا تو اسلامی اسپین اور بغداد سے علم کی روشنی پھوٹ رہی تھی، ڈریپر (Dr. John William Draper)، موسیولیبان، آرنلڈ (Arnold Thomas Walker) اور راجر بیکن (Roger Bacon) کی تحریرات پڑھنے والوں سے یہ مخفی نہیں کہ مسلمانوں نے مغرب کو علم کے میدان میں بہت کچھ مفید چیزیں سکھائی ہیں۔ البتہ میں نہیں سمجھتا کہ مغرب سے انسانیت کیلئے مفید چیزوں میں مغرب کی طرف سے آئی ہوئی ہم جنس پرستی، بے حیائی، بن باپ کی اولاد، کنواری مائیں، فالس فلیگ آپریشنز (False Falg Operations) اور الحاد جدید کی ساری جہالتیں وغیرہ وغیرہ کی مغرب سے مرعوب ذہنیت کونسی تاویل کرے گی؟ آخر یہ سب بھی تو اسی شجرِ خبیثہ کے کڑوے کسیلے پھل ہیں۔ بقول اقبالؒ:
خوش تو ہم بھی ہیں جوانوں کی ترقی سے مگرلبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیمکیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھدوسرا شبہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مبارکباد دینے میں کیا حرج ہے؟ ان کی اس بات کا تو صاف مطلب یہ ہے کہ ’’جھوٹی خبر اور جھوٹ پر مبنی فلسفہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کسی بات پر خوش ہونے اور خوشی کا اظہار کرنے والوں میں شامل ہونے میں کیا حرج ہے؟‘‘ یہی اعتراض ایک دوسرے صاحب نے دوسرے انداز میں پیش کیا کہ کسی مسلمان کی اپنی عیسائی بیوی کو کرسمس کی مبارکباد دینے میں کیا حرج ہے؟ معترض ایسے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ اسلام کی اپنی تہذیب اور اپنی اقدار ہیں اور مسلمان کسی کو خوش کرتے وقت اتنا ہلکا واقع نہیں ہوتا کہ اپنی تہذیب و اقدار بھول کر غیر مسلموں کے اقدار و تہذیب کو اپنائے، ظاہر ہے اپنی بیوی کو اپنا عقیدہ بتانے اور سمجھانے میں اگر ایک شخص اتنا بے وزن اور دبا ہوا ثابت ہو جائے کہ اسے اہل کتاب عورتوں سے شادی کا فلسفہ اور حکمت بھی معلوم نہ ہو تو وہ خاک اس مقصد کو پورا کرسکے گا، جس کیلئے اس امت کو امتِ وسط بنا کر پیدا کیا گیا ہے؟
ایک شبہ یہ ظاہر کیا گیا بلکہ تمام امت کو اپنی دانست میں نصیحت کی گئی ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان کو ایمان کی تفصیلات سمجھانے کے زعم میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام ہمارے اور عیسائیوں کے درمیان نقطہ اتحاد ہیں اور کرسمس منانے سے اس اتحاد کو مضبوط بنانے کی مسلمانوں کی طرف سے بھرپور کوشش ہونی چاہئے۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدابے چاروں کو اتنا نہیں معلوم کہ مسلمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کے وقت نہیں، اُن (عیسیٰ علیہ السلام) پر بحیثیتِ رسول پہلے سے ایمان لاچکے ہیں، ان کی آمد کے وقت تو عیسائی ان پر ایمان لائیں گے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اب وہ کسی صورت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں رکھتے، وہ تو عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں، جبکہ یہ عقیدہ ان پر ایمان لانے کے منافی ہے، اس لئے کہ وہ خدا کے بندے اور رسول ہیں اور حق تعالیٰ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا۔
پھر ان صاحب سے پوچھا جائے کہ ’’تم کان کمانے کی فکر میں سینگ ہار جاتے ہو، ہمیں عیسیٰ علیہ السلام کی جھوٹی تاریخ پیدائش کے دن منانے کی تلقین کرتے ہوئے تمہارے دماغ پر جس اتحاد کا بھوت سوار رہتا ہے، اس اتحاد سے تو خود تمہارے ان دوستوں (عیسائیوں) نے اختلاف کیا ہے، بلکہ اسلام کی طرف سے اس اتحاد کے پیغام کے جواب میں انہوں نے مسلمانوں سے صدہا سال لڑائیاں لڑی ہیں اور اب بھی پوری دنیا میں مسلمانوں پر ان کی دست درازیاں جاری ہیں، فی الوقت افغانستان سے فلسطین تک پوری مسلم دنیا میں انہوں نے ظلم و ستم کا جو بازار گرم کیا ہوا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ مسلمان تو عیسیٰ علیہ السلام اور گزشتہ تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں، اختلاف تو یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرکے اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر عیسائیوں نے محمد مصطفیؐ کی نبوت کا انکار کرکے شروع کیا، جس پر وہ تمہاری اس بے جا و بے دلیل رواداری اور ہم آہنگی کے باوجود سختی سے قائم ہیں۔ آخر ایک دن منانے یا نہ منانے کا معاملہ ایک سچے اور آخری نبیؐ کی صاف اور واضح نبوت سے انکار کے مقابلے میں کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔
اب آپ کے نزدیک گویا ان کا نبوتِ محمدیؐ سے انکار اتنی بڑی بات نہیں، جس پر ان کو غیر روادار اور اتحاد کے دشمن قرار دیا جائے، جبکہ ہمارا ان کی ایک بے دلیل بات پر مبنی مشرکانہ رسم کی مبارکباد نہ دینا ہماری ان تمام رواداریوں پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہے، جو رسول اقدسؐ اور خلفائے راشدینؓ کے دورِ مبارک سے لے کر صلاح الدین ایوبیؒ کی فتوحات اور ’’محاصرہ اَدرنہ‘‘ تک ہم نے ان کے ساتھ نبھائی ہیں؟
میں نہیں سمجھتا کہ قوموں، تہذیبوں اور افراد تک کے اتفاق کے ایک بالکل بے بنیاد اور ہمارے اور ان کے درمیان ایک بنیادی اختلافی مسئلہ (جیسے عیسیٰ علیہ السلام کی جھوٹی تاریخِ پیدائش کے دن کو بطورِ عید منانے) کو نقطۂ اتحاد بنانے کی خالص نامعقول بات پر اتنا اصرار کیوں کیا جاتا ہے، جبکہ قرآن تو ان کو توحید کے نکتے پر اتحاد کرنے کی طرف بلاتا ہے، جس کیلئے وہ قطعاً تیار نہیں۔
میرے پیارے! جب کسی موضوع پر بات کرنی ہو تو پہلے اس کے تمام پہلوؤں کو غور سے سمجھنا ضروری ہوتا ہے، جس کیلئے زبان و قلم کی تیزی کے بجائے دل کی صفائی ضروری ہے۔ اکبر الٰہ آبادیؒ نے کیا خوب کہا تھا:
علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے زبان تو صاف ہو جاتی ہے دل طاہر نہیں ہوتاہندوستان کے ایک محترم نے کرسمس منانے میں مسلمانوں کی شرکت کو سماجی تعلقات میں شامل کرتے ہوئے اس کو ایک غیر مضر عمل قرار دینے کی کوشش کی ہے، جبکہ کیک کاٹنے کو اس نے بھی غلط قرار دیا ہے۔ دراصل ہندوستان کے معاشرے میں بطورِ اقلیت کے رہتے ہوئے ان کی اس انداز سے ذہن سازی اور پھر اس طرح کے مدافعانہ اندازِ فکر کے نتیجے میں اسلام کی تہذیبی حیثیت کا نظروں سے اوجھل رہنا ان کی ’’معاشرتی مجبوری‘‘ ہے، جو ہمارے لئے کسی طور دلیل نہیں بن سکتی، اسی طرزِ فکر کی مکمل علامت وہاں وحید الدین خان صاحب ہیں، جو ہندومت اور عیسائیت ومغرب کی ہر شے کو بنظر ِ استحسان دیکھنے کی قسم کھا چکے ہیں اور اسلام کی ہر تہذیبی حسن وخوبی کو داغدار کرنا اپنی زندگی کا واحد مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ انہی کے مریدِ کامل پاکستان کا مشککین کا وہ طبقہ ہے، جس نے پرانے دورِ شاہی کے درباریوں کی یاد تازہ کر دی ہے اور جو مغرب اور مغرب سے آئے ہوئے ہر فکر وعمل کو سندِ جواز عطاء کرکے گویا اپنی ڈیوٹی باقاعدگی سے انجام دے رہا ہے، جو ٹی وی پر آنے کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی معراج سمجھتے ہیں اور مجتہدِ دروغ گو بن کر غیروں کی نمک حلالی کا فریضہ خوب سے خوب تر طور پر انجام دینے میں اپنی ’’متاعِ حیات‘‘ صرف کر رہے ہیں۔
آخری بات اس سلسلے میں ایک صاحب کایہ اعتراض ہے کہ رسول اکرمؐ نے یہود کے ساتھ رواداری کی بنیاد پر عاشورہ کا روزہ رکھا تھا تو ہم کیوں نہ اس پر مزید اضافے کرکے اس میں کرسمس وغیرہ کو بھی شامل کریں؟ ان صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ ذرا بتایئے تو سہی، کرسمس منانے والے مسلمانوں میں سے کتنوں نے گزشتہ عاشورا پر روزہ رکھا تھا اور کیا واقعی کرسمس میں شرکت وہ اسی حدیث کی بنیاد پر کرتے ہیںیا کسی خوف، لالچ یا جہالت کی بنیاد پر کرتے ہیں؟
لیکن اصل بات وہ نہیں جو اس معترض نے کی ہے، عاشورہ کو آپؐ اور قریش مکہ مکرمہ میں رکھا کرتے تھے، مدینہ آنے پر یہود کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ بھی یہ روزہ رکھتے ہیں تو آپؐ نے جو الفاظ ادا فرمائے وہ یہ نہ تھے کہ ’’ہم بھی یہود کے ساتھ ہم آہنگی کے لئے اسے رکھیں گے‘‘ بلکہ فرمایا کہ ’’ہم یہود کی بہ نسبت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں۔‘‘ ہم موسیٰ علیہ السلام کی وجہ سے یہ روزہ رکھیں گے(نہ کہ تمہاری وجہ سے)، موسیٰ علیہ السلام پر اور ان پر نازل شدہ کتاب پر تو ہم پہلے سے ایمان رکھتے ہیں، تمہاری وجہ سے نہیں، پھر روزہ شریعت میں پہلے سے بطورِ عبادت رائج ہے، (تو کیا کرسمس کیک اور ٹوپی اور ٹری کی قسم کی کوئی چیز اسلامی عبادات میں ہیں؟) اور شاید معترض جوشِ اعتراض میں یہ بھی بھول گیا کہ آپؐ نے آخری سال فرمایا تھا کہ آئندہ عاشورہ میں ہم یہود کی مخالفت کرتے ہوئے دو روزے رکھیں گے۔ گویا ایک خالص عبادت میں بھی ان سے ہم آہنگی گوارا نہیں فرمائی۔ اسی طرح مشرکین اور یہود وعیسائیوں سے ترکِ مشابہت کی کئی مثالیں احادیث میں مذکور ہیں، بس ذرا غلامی کی زنجیروں اور غیروں کی خوشنودی اور مرعوبیت سے نکلنے کی ضرورت ہے۔
امام نسفیؒ فرماتے ہیں کہ ’’اور نوروز یا مہرجان کے نام پر کسی کو کچھ دینا جائز نہیں ہے‘‘۔ یعنی ان ایام لوگوں کو تحفے تحائف دینا حرام بلکہ کفر ہے، امام ابوحفص کبیر ؒ نے فرمایا ہے کہ اگر ایک شخص پچاس سال تک خدا تعالیٰ کی عبادت کرتا رہے، پھر نوروز کا دن آجانے پر وہ مشرکین کو ایک انڈہ بھی تحفۃً دیدے اور اس تحفے سے اس کا مقصد اس دن کی تعظیم ہو تو وہ کافر ہو جائے گا اور اس کے تمام نیک اعمال حبط وضائع ہو جائیں گے۔ جامعِ اصغر کے مصنف نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص نوروز کے دن کسی دوسرے مسلمان کو تحفہ بھیجے اور اس کی نیت نوروز کے دن کی تعظیم نہ ہو، بلکہ لوگوں کی عام عادت کی بنا پر ہو تو وہ کافر نہیں ہوگا، البتہ مناسب یہ ہوگا کہ وہ خاص اسی دن تحفے بھیجنے سے گریز کیا کرے، بلکہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھیجے تاکہ ان کفار کے ساتھ مشابہت نہ پیدا ہو، رسول اقدسؐ نے فرمایا ہے کہ جوکوئی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ انہی میں سے ہوگا۔ جامع اصغر میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ایک شخص نوروز کے دن وہ چیز خریدے، جو اس دن کفار خریدتے ہیں، جبکہ وہ ایسی چیز اس سے پہلے نہ خریدتا رہا ہو تو اگر اس سے اس کا مقصد نوروز کے دن کی تعظیم ہو جیسا کہ مشرکین اس کی تعظیم کرتے ہیں، تو وہ کافر ہو جائے گا، ہاں اگر اس کا مقصد محض کھانے پینے کی حد تک ہو (اور نوروز کی تعظیم کا ارادہ نہ ہو) تو پھر کافر نہیں ہوگا۔
اسلام تو ایسی صاف شاہراہ ہے، جہاں کی رات بھی دن جیسی روشن ہے۔ لیلھا کنھارھا۔
علماء اور فقہاء نے اس طرح کی جاہلیت والی عیدیں اور تہواریں منانے سے ابوداؤد کی اس صحیح حدیث کی بنیاد پر منع فرمایا ہے، جس میں رسول اقدسؐ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے جاہلیت کی تہواروں کے بدلے تمہیں دو عیدیں (عید الفطر اور عید الاضحی) عطاء فرمائی ہیں۔
اس بنیا د پر امام ذہبیؒ نے ان تہواروں کے منانے کو بدعت، جہالت، مذموم حرکت (اور اگر صرف چھوٹے بچوں کی ضد کی وجہ سے ان کو منانے کی خاطر ہو تو) محلِ نظر قرار دیا ہے۔ امام طیبیؒ اور امام بیہقیؒ نے اسے ممنوع اور ابوحفص حنفیؒ نے اس دن کے حوالے سے کسی غیر مسلم کو ہدیہ دینا کفر قرار دیا ہے۔ امام ابن تیمیہؒ نے اسے غیر مسلموں کی مشابہت بتلا کر حرام کہا ہے، یہی رائے حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں ظاہر کی ہے۔
گر نہ بیند بروز شبپر چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment