پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے ’’خوش خبری‘‘ سنائی ہے کہ نئے سال سے بسنت پر عائد پابندی کو اٹھایا جا رہا ہے، انہوں نے کہا: ’’اس سے اربوں روپے کا کاروبار وابستہ ہے اور یہ ہمارا خالصتاً ثقافتی، روایتی اور معاشرتی ورثہ ہے۔‘‘
اٹھارہ سال پہلے2000ء میں فوجی آمر مشرف نے بسنت کا تہوار سرکاری سرپرستی میں منانے کی اجازت دی تھی۔ اس کے بعد کئی برس تک پتنگ بازی کا طوفان بدتمیزی برپا رہا۔ اس بسنت بازی میں درجنوں افراد جان سے گئے اور سینکڑوں شدید زخمی ہوئے۔ یہاں تک کہ شدید عوامی احتجاج کے بعد اس پر پابندی لگا کر معصوم زندگیوں کو محفوظ کیا گیا اور ملک کو کئی نقصانات سے بچایا گیا۔ بہت سا جانی نقصان ہونے کے بعد سال 2007ء میں پرویز الٰہی حکومت نے بسنت پر پابندی لگا دی، جو بہت اچھا اقدام تھا۔ اس سے گزشتہ دور میں گلے پر ڈور پھرنے، بچوں کے چھتوں سے گر کر اپاہج ہونے، بجلی کے تاروں کے شارٹ ہو جانے، ٹرانسفارمر پھٹ جانے اور دیگر کئی ناخوش گوار واقعات کا سلسلہ رک گیا۔ اس طرح بعد از خرابیٔ بسیار ہی سہی، بہرحال بسنت کی ہلاکت خیزی کو تسلیم کر لیا گیا تھا، جسے تسلیم کرنے سے نئے پاکستان کے حکمران انکار کرتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ موجودہ حکمران جس ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کر رہے ہیں، اسی ملک میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے دل میں ’’بو کاٹا‘‘ کی آرزو نے بھانبڑ مچا رکھی ہے۔ حیرت ہے کہ نئے پاکستان کے حکمران پرانے پاکستان کی برائیوں کے ساتھ اچھائیوں کو بھی مٹا ڈالنے کے درپے ہیں۔ حیرت در حیرت تو پنجاب کے وزیر اطلاعات کے جھوٹ بولنے پر ہے، جو کہتے ہیں ’’بسنت ہمارا ثقافتی، روایتی اور معاشرتی ورثہ ہے۔‘‘ اس خالصتاً ہندووانہ تہوار کو اپنا ورثہ قرار دینا ایسا ہی ہے، جیسے ہندو یہ دعویٰ کر دیں کہ عید الفطر اور عید الاضحیٰ ان کے تہوار ہیں۔
ہندو ویدوں کی رو سے بسنت کا تہوار زمانہ قدیم سے ہی سرس وتی دیوی کے لیے وقف رہا ہے، جسے ہندو علم، زبان، موسیقی اور فنون کی قدیم دیوی سمجھتے ہیں۔ اس تہوار کو پیلے رنگ سے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ اس موقعے پر زعفران شامل کرکے پیلے رنگ کے چاول پکائے اور کھائے جاتے ہیں اور پیلے رنگ کی مٹھائیاں تیار کی جاتی ہیں۔ سرس وتی دیوی کے لیے پوجا اور موسیقی کی تقریبات میں زرد پھولوں کی بہار ہوتی ہے۔ اس دن خوشی منائی جاتی ہے، خوشی کے اظہار کے لیے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں اور پتنگیں اڑائی جاتی ہیں اور موسیقی سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ بسنت (Basant) کو بسنت پنچمی بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ ہندو اسے بکرمی کیلنڈر کے ماگھ مہینے کی 5 تاریخ کو مناتے ہیں، جو عموماً فروری کے مہینے میں آتا ہے۔ وہ ہندو جو بسنت کو ایک مذہبی تہوار سمجھتے ہیں، ان کا یہ عقیدہ ہے کہ پتنگ پر دو آنکھیں یا دوسری شکلیں بنانے سے آسمان سے نازل ہونے والی بلائیں دور ہوتی ہیں۔
مغل بادشاہ شاہ جہان کے دور میں یہ تہوار سرس وتی دیوی کے بجائے ایک گستاخ ِرسول ہندو ’’حقیقت رائے‘‘ سے منسوب ہو گیا۔ حقیقت رائے کو توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت دی گئی تھی۔ اس کا ذکر ایک ہندو مورخ بی ایس نجار نے اپنی کتاب ’’پنجاب مغلیہ دور کے آخر میں‘‘ (under the later Mughals Punjab) میں یوں کیا ہے:
’’حقیقت رائے باگھ مل پوری سیالکوٹ کے ایک ہندو کھتری کا اکلوتا لڑکا تھا۔ حقیقت رائے نے حضرت محمد (ﷺ) اور حضرت فاطمہؓ کی شان میں انتہائی گستاخانہ اور نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ اس کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد ہندوئوں نے حقیقت رائے کی ایک مڑہی (یادگار) قائم کی، جو کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہی) لاہور میں واقع ہے اور اب یہ جگہ ’’باوے دی مڑہی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
حقیقت رائے کا قصہ یہ ہے کہ وہ اٹھارہویں صدی کے شروع (مغل دور) میں سیالکوٹ کے ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کا والد باگھ مل رائے ایک امیر تاجر تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کو چودہ سال کی عمر میں فارسی سیکھنے کے لیے ایک مسلمان استاد کے پاس بھیجا۔ فارسی سیکھنے کے بعد اس بد بخت نے پہلا کام یہ کیا کہ رسول اقدسؐ کی شان میں توہین پر مبنی ایک زہر افشاں پمفلٹ لکھا۔ اس جرم پر حقیقت رائے کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے لیے لاہور بھیج دیا گیا، جہاں قاضی کی عدالت میں اسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ اس واقعے سے پنجاب کے ہندوئوں کو شدید دھچکا لگا اور کچھ ہندو افسر سفارش کے لیے اس وقت کے پنجاب کے گورنر زکریا خان (1707ء تا 1759ئ) کے پاس گئے کہ حقیقت رائے کو معاف کر دیا جائے، لیکن زکریا خان نے کوئی سفارش نہ سنی اور سزائے موت کے حکم پر نظر ثانی کرنے سے انکار کر دیا۔
گستاخ رسول حقیقت رائے کی گردن اڑا دی گئی، تو ہندوئوں میں صف ِماتم بچھ گئی۔ ہندوئوں نے گستاخ رسول کو ہیرو اور شہید قرار دے کر ’’ویر حقیقت رائے‘‘ کا خطاب دے دیا۔ اس کے بعد سے بسنت کے تہوار کو سرس وتی دیوی سے زیادہ ’’حقیقت رائے‘‘ کی یاد میں منایا جانے لگا۔ حقیقت رائے کو لاہور میں جس مقام پر سزائے موت دی گئی، وہاں آج کل انجینئرنگ یونیورسٹی ہے۔ اسے پھانسی اس دن ہوئی جب لاہور شہر میں ہندو بسنت منا رہے تھے۔ ہندوئوں نے اس کی سمادھی کو ’’باوے کی مڑھی‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ اس سے اگلے سال ایک مقامی ہندو رئیس کالو رام کی سرکردگی میں شہر کے تمام ہندو اکھٹے ہوئے، پتنگیں اڑائیں اور ڈھول بجائے۔ کالو رام نے بسنت منانے کے اس سلسلے کو حقیقت رائے سے جو ڑ دیا اور آئندہ برسوں میں بھی اسے باقاعدہ ایک جشن اور میلے کی شکل ملی رہی۔
برصغیر کی تقسیم سے پہلے ہندو ہر سال حقیقت رائے کی یاد میں بسنت مناتے اور مسلمان اس پر احتجاج کیا کرتے تھے۔ 1947ء یعنی آزادی کے سال بھی بسنت پنچمی فیسٹیول میں ہزاروں ہندو لاہور میں ’’باوے کی مڑھی‘‘ پر جمع ہوئے۔ اس دن کی تقریبات میں رسول اقدسؐ کی توہین کرنے پر حقیقت رائے کی تعریف و توصیف کی گئی۔ لاہور کے اردو اخبار ’’نوائے وقت‘‘ نے اس کا سخت نوٹس لیا اور لکھا: ’’حقیقت رائے کو توہین رسالت پر شاباش دی گئی ہے۔‘‘ اس دن ضلع ہوشیار پور میں حقیقت رائے کے لیے وقف اور سمادھی پر ہزاروں ہندو سجدہ ریز ہوئے۔ ایسی ہی ایک سمادھی اور وقف گرداس پور ضلع میں بٹالہ کے مقام پر واقع ہے۔ یہی نہیں، بلکہ آج ہندوستان بھر میں سینکڑوں ادارے، سڑکیں، اسکول، کالج اور دیگر عمارتیں حقیقت رائے سے منسوب ہیں۔ حقیقت رائے کی بیوی لکشمی دیوی کے نام پر بھی وقف اور ٹرسٹ موجود ہیں۔ اس دن ہندو جہاں سرس وتی دیوی کے نام پرعبادت کرتے، پتنگیں اڑاتے اور ڈھول بجاتے ہیں، وہاں اس جشن کے موقعے پر گیتوں اور اشلوکوں کی زبان میں حقیقت رائے کی ’’قربانی اور بہادری‘‘ کے تذکرے ہوتے ہیں۔ اس بہانے انتہا پسند ہندو حضور رحمت للعالمینؐ کے خلاف اپنے دلوں میں چھپی نفرت اور بغض کا اظہار کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کیا فیاض الحسن چوہان بسنت کی اس تاریخ سے اتنے لا علم اور بے خبر ہیں کہ ہندوئوں کے مذہبی تہوار کو اپنا ورثہ کہتے ہیں؟ اگر وہ جانتے ہیں تو پھر ہٹ دھرمی کی حد ہے۔ یہ ورثہ مسلمانوں کا کیسا ہو سکتا ہے جسے ہندو توہین رسالت کے ایک مجرم کی یاد میں مناتے ہیں؟ یہ تو ایک ناپاک تہوار ہے، جو ایک ناپاک اور گستاخ رسول شخص کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ لاہور کے مسلمانوں سے پوچھیں کہ اس موقعے پر کس قدر فحاشی اور بے حیائی کا ارتکاب ہوتا ہے۔ اس نام نہاد تہوار پر جنسی بائولے پن اور حیوانیت کے ایسے مظاہرے کیے جاتے ہیں، جن کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ ان راتوں کو منانے کے لیے سارا سال شراب جمع کی جاتی ہے، وسیع ہالوں میں رقص و سرود کی محفیں جمتی ہیں۔ پھر جب پتنگ اڑتی اور کٹتی ہے تو مکانوں کی چھتوں پر ڈھو ل تاشے کے ساتھ مردو زن ہر ’’بوکاٹا‘‘ پر نعرے لگاتے ہیں۔ لاہور شہر میں سینکڑوں ایسے محلات ہیں، جہاں جنسی ہوس ناکیوں کے مناظرعام ہوتے ہیں۔ کیا فیاض الحسن چوہان اور عثمان بزدار اس فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے مظاہر کو دوبارہ زندہ کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ایک بار پھر شہر کی معروف طوائفو ں اور اداکارائوں کی بولیاں لگیں گی اور فسق و فجور کی مجلسیں آباد ہوں گی، جن میں منتخب اَشرافیہ شریک ہوکر والہانہ انداز میں ویلیں نچھاور کریں گے؟
پھر بسنت کا تہوار اب محض پتنگ بازی تک محدود نہیں رہا، اس میں آتشیں خودکار اسلحے سے فائرنگ کا خطرناک رجحان بھی فروغ پا چکا ہے، نوجوان لڑکیاں تک بوکاٹا کے نعرے لگاتی اور کلاشنکوف سے فائرنگ کرتی ہیں۔ فائرنگ کے ساتھ ڈیک لگا کر اونچی آواز میں موسیقی کے نام پر طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے۔ پتنگ کٹنے یا کاٹنے پر لڑکیاں لڑکے مل کر مجنونانہ اچھل کود کرتے ہیں۔ پتنگ بازی کو فیاض الحسن چوہان نے بجا طور پر اربوں کا کاروبار قرار دیا، بلاشبہ اس فضول شوق کی تکمیل میں قوم کا کروڑوں روپے کا سرمایہ برباد کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو زندگی کی گاڑی مشکل سے چلا رہے ہیں، وہ بھی اپنے نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں کی خاطر قرض لے کر، بسنت کے اس جنون میں حصہ لیتے ہیں۔ بارہا اس جنون میں لہو کا رنگ شامل ہوتا ہے۔ تیز دھار ڈور کی وجہ سے کئی مرتبہ راہ گیروں کی گردنیں کٹ جاتی ہیں۔ مکانوں سے گر کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد خاصی تشویش ناک ہے۔ کیا مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کے دعوے کے ساتھ یہ بات جچتی ہے کہ بسنت اور پتنگ بازی کی اجازت کی آڑ میں فائرنگ، موسیقی، موج میلہ، مستی، شراب وشباب سب کچھ چلے؟
کیا نئے پاکستان کے حکمرانوں نے یہ بھی سوچا ہے کہ بسنت کے موقعے پر خدا نخواستہ درجن دو درجن لوگ جاں بحق یا زخمی ہو گئے، توکیا وزیر اعلیٰ اور ان کے وزیر اطلاعات اس پر تیار ہیں کہ ایف آئی آر میں ان کو نامزد کیا جائے؟ افسوس حکمرانوں کی طرح ہمارے والدین اور اساتذہ بھی مشرکوں کے تہواروں کی تاریخ سے نابلد ہیں۔ نہ ہی وہ اسلامی شعائر سے محبت کو پروان چڑھانے کا شعور رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک گستاخِ رسول کی یاد میں منعقد کیے جانے والے بسنت میلے میں شریک ہو کر خود بھی توہین رسالت کا ارتکاب کررہے ہیں، تو کبھی بسنت کے قریب نہ آتے۔ ٭
٭٭٭٭٭