’’قندیل فکر‘‘

برادر محترم عبد الودود قریشی ایک دینی اور علمی خانوادے کے ہونہار فرد ہیں۔ زمانہ عالب علمی میں گارڈن کالج کے نمایاں طالب علموں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ایوبی دور آمریت اور جناب بھٹو کی آمرانہ جمہوریت میں نعرہ حق بلند کرنے کی پاداش میں جیل یاترا بھی کی۔ 74ء کی تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تحریک ختم نبوت راولپنڈی کمیٹی کے جوائنٹ سیکریٹری رہے۔ قید ہو یا رہائی، وہ اپنی خاندانی روایات پر کاربند رہے اور قلم و قرطاس سے رشتہ برقرار رکھا۔ روزنامہ تعمیر کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر رہے۔ صوبہ سرحد (اب خیبر پختون) حکومت کے مشیر رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف اور پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے عوض سول ایوارڈ ستارہ امتیاز عطا کیا۔ عمر رفتہ کی چھ دہائیاں گزار چکے ہیں، مگر جوانوں کی توانائی رکھتے ہیں۔ ان کی تازہ کتاب ’’قندیل فکر‘‘ حال ہی میں مارکیٹ میں آئی ہے، جس میں ان کے 66 انشائیہ شامل ہیں۔ زبان و بیان کی قدرت، لفظوں پر ان کی گرفت، اختصار اور معنی و مطالب کی اثر آفرینی ان کی خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے۔ اس سب کے باوجود انکسار، بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے ان کی شفقت، اپنے زیر نگرانی کام کرنے والوں سے ان کا حسن سلوک، ناقابل بیان ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر منیب الدین شیخ لکھتے ہیں: ’’عبد الودود قریشی تحریر و تقریر کے مرد میدان ہیں، ایک انشائیہ آئینہ مطالعہ کریں اور داد دیں۔ یہ کتاب ماورا لاہور نے شائع کی ہے۔ خوبصورت آرٹ پیپر پر شائع ہونے والی کتاب کی قیمت 500 روپے ذرا زیادہ ہے۔
آئینہ:
آئینہ بڑے کمال کا لفظ اور بڑے کمال کی تخلیق ہے۔ یہ سچ بولتا ہے، سچ دکھاتا ہے، لگی لپٹی نہیں رکھتا۔ وہ تمام خدوخال بھی ہوبہو واضح کر دیتا ہے، جو دیکھنے والا چھپانا چاہتا ہے۔ اس کا تبصرہ اس قدر بے لاگ ہوتا ہے کہ آدمی شرم سے نہ بھی ڈوبے، شرم سے پانی پانی ضرور ہو جاتا ہے اور بسا اوقات آئینے کے سامنے ہی سے ہٹ جاتا ہے، لیکن سچائی کے دلدادگان اور اپنی اصلاح کے خواہش مندوں کو اس کے سامنے سے ہٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، بلکہ اس کے تبصرے کی روشنی میں وہ اپنے چہرے پر نمایاں نظر آتے ان داغوں کا علاج کرتے ہیں، جنہوں نے ان کی شخصیت کو مسخ کر کے انہیں معاشرے کا ناسور بنا دیا ہے۔ اس کے برعکس ایسے عناصر بھی ہیں، جو نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے آئینے کی آواز پر کان دھرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ اس کے شورو غوغا کو خاطر میں نہیں لاتے۔ بار بار اس کا سامنا کرنے پر بھی اپنی روش نہیں چھوڑتے۔ چنانچہ تمام بدبختیاں ان کے حصے میں لکھ دی جاتی ہیں۔ ’’ادراک نو‘‘ بھی اک آئینہ ہے، جس میں سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، علاقائی اور بین الاقوامی منظرناموں کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ کیا معاشرہ تھا جب لوگ جیب میں آئینہ رکھتے اور جس کے پاس نہیں ہوتا تھا، وہ دوسروں کو منہ دیکھنے کے لیے دے دیتا تھا۔ اسی لیے لوگ آج بھی اس زمانے کو یاد کرتے ہیں جب بدقماشوں، راشیوں، چوروں، ڈاکوئوں، رسہ گیروں سے تعلق داری کا تصور بھی نیندیں حرام کر دیتا تھا۔ آج بھی ایک طبقے کی نیندیں اڑی رہتی ہیں، مگر چوروں، ڈاکوئوں اور بدقماشوں کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کے لیے کاش انہیں تو کچھ ادراک ہوتا۔

Comments (0)
Add Comment