امریکہ کے دو تھنک ٹینکس نے اپنی علیحدہ علیحدہ رپورٹوں میں ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پانچ مزید ایٹمی وار ہیڈز کی تیاریوں میں مصروف ہے اور اپنے اس منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ ایران نے ایٹمی وار ہیڈز کی تیاریوں کے لیے ضروری انفرا اسٹرکچر بھی تیار کر لیا ہے۔ دفاع جمہوریت فائونڈیشن اور بین الاقوامی سلامتی انسٹی ٹیوٹ کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق ایران کم از کم پانچ عدد وار ہیڈز کی تیاریوں کے ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل بھی ان تھنک ٹینکس کی جانب سے ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں خطرناک اعداد و شمار جاری کئے گئے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بارک اوباما دور میں ایران کے ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی پروگرام کے خطرے کو کم سے کم ظاہر کیا گیا تھا، تاکہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کیا جا سکے۔ ایران نے اپنے بہت سے ایٹمی انفرا اسٹرکچرز اب بھی خفیہ رکھے ہوئے ہیں اور اندیشہ ہے کہ ان انفرا اسٹرکچرز کو خطرناک قسم کے آلات سے لیس کیا جا سکتا ہے، جن کے ذریعے ایٹمی وار ہیڈز کی تیاری کی جا سکتی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ ایران جو پانچ مزید ایٹمی وار ہیڈز کی تیاریوں کے منصوبے پر عمل کر رہا ہے، ان میں سے ہر وار ہیڈ کا وزن دس ٹن تک ہو سکتا ہے اور انہیں ایران اپنے بیلسٹک میزائلوں میں نصب کر کے استعمال کر سکتا ہے۔
ایٹمی ہتھیاروں کی مانیٹرنگ کرنے والے ایک انٹرنیشنل گروپ کے مطابق ایران نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں کے سلسلے میں نئے خام مال کی خریداری کے لیے کروڑوں ڈالرز کے اخراجات کئے ہیں، جبکہ ایران ایٹمی وار ہیڈز میں استعمال کے لیے یورینیم کی خریداری بھی کررہا ہے۔ گروپ نے اپنے نام نہاد خدشے میں بتایا ہے کہ ایران اپنی تمام ایٹمی سرگرمیوں کو حددرجہ خفیہ رکھتا ہے اور وہ ضرورت پڑنے پر زیرزمین ایٹمی دھماکہ بھی کر سکتا ہے، کیونکہ ایران کا اصل ہدف ایک ایٹمی طاقت بننا ہے، جس کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اس قسم کی رپورٹس کا اجرا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ ایران کے ایٹمی خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا دراصل اسرائیل اور امریکی ایجنڈے کا ایک حصہ ہے، جس پر عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ اگر ایران کے ایٹمی پروگرام سے اتنا ہی خطرہ ہے تو پھر ٹرمپ نے بلا سوچے سمجھے اور محض اسرائیل کی خوشنودی کے لیے مئی 2018ء میں ایران کے ساتھ متفقہ طے شدہ معاہدے سے راہ فرار کیوں اختیار کی؟ امریکہ کے اس اقدام کا کیا مقصد ہے؟ بارک اومابا پر تنقید کرنا کہ انہوں نے ایران کے ایٹمی خطرے کو کم سے کم ظاہر کیا ایک انتہائی احمقانہ بات ہے، کیونکہ امریکہ میں حکومتوں کی تبدیلیوں سے امریکی مفادات متاثر نہیں ہوتے، اگر ایسا ہوتا تو پھر امریکہ کی یہ حکومت اسرائیل کی اندھی حمایت نہ کرتی اور نہ ہی اسے اربوں ڈالرز سالانہ کی خطیر امداد نہ دیتی۔ بارک اوباما کے آخری ایام میں امریکہ کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کھنچائو پیدا ہوا تھا، مگر اسرائیل کو امریکی امداد کی فراہمی جاری رہی تھی۔
حقیقت میں ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں سے متعلق آنے والی تمام رپورٹس بے بنیاد اور جھوٹی ہیں۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے بارہا اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران امریکہ سے طے پانے والے معاہدے پر خلوص دل سے عمل پیرا ہے اور ایران کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں کی کوئی شہادت نہیں ملی ہے، لیکن اس کے باوجود ان نام نہاد امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹوں کا اجرا ایران کو دبائو میں لینے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ امریکہ اور اسرائیل ایران کو مسلسل دیوار سے لگانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایران کے ایٹمی پروگرام کے ساتھ ساتھ اسکے بیلسٹک میزائل پروگرام پر بھی مسلسل تنقید کی جارہی ہے، جس میں فرانس اور جرمنی بھی پیش پیش ہیں۔ فرانس اور جرمنی کو شرم کرنا چاہئے کہ ان کے تعاون کے بغیر اسرائیل ایٹمی طاقت نہیں بن سکتا تھا۔ فرانس نے اسرائیل کو دیمونا کے مقام پر ایٹمی ری ایکٹر تعمیر کر کے دیا، جس کے لیے بھاری پانی ناروے سے خرید کر فراہم کیا گیا۔ اسی طرح فرانس نے اسرائیل کو بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی فراہم کی، جس کے بل پر اسرائیل نے اپنے بیلسٹک میزائل تیار کئے، بعد میں امریکہ نے اسرائیل کے بیلسٹک میزائلوں کو جدید ترین بنانے کے لیے اسے جدید ترین ٹیکنالوجی اور اربوں ڈالرز کے فنڈز فراہم کئے۔ جرمنی نے نہ صرف اسرائیل کو جدید ترین ڈولفن کلاس آبدوزیں رعایتی قیمتوں پر فراہم کیں، بلکہ دو آبدوزیں بطور تحفہ بھی پیش کیں۔ جرمنی ہی میں ان اسرائیلی آبدوزوں میں ایٹمی وار ہیڈز سے لیس پوپ آئی میزائل نصب کئے گئے، جن کی نگرانی امریکی اور جرمن انجینئرز نے کی۔
امریکہ اور دنیا بھر کے تمام نام نہاد تھنک ٹینکس محض اندیشوں اور اندازوں پر انحصار کر کے ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹیں جاری کر کے سنسنی پھیلاتے رہتے ہیں ، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایران کی ایٹمی سرگرمیاں اگر مستثنیٰ ہوتیں تو سب سے پہلے اس کا علم IAEA کو ہوتا، جس کے معائنہ کار بغیر بتائے درجنوں مرتبہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کا دورہ کرتے رہے ہیں اور معاہدے کے تحت آئندہ بھی کریں گے۔ یہ عالمی تھنک ٹینکس اور بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس وقت کہاں تھیں، جب جرمنی میں اسرائیلی نیوی کی آبدوزوں میں ایٹمی وار ہیڈ سے لیس پوپ آئی میزائل نصب کئے جارہے تھے؟ یا جب فرانس اسرائیل میں ایک ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر کررہا تھا؟ یا جب ناروے نے اسرائیل کو ٹنوں بھاری پانی فراہم کیا تھا؟
کیا کبھی کسی بین الاقوامی ادارے یا تھنک ٹینک نے اسرائیل کے 250 سے زائد ایٹمی ہتھیاروں اور مشرق وسطیٰ کے اس واحد ایٹمی طاقت کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے خطرات کے بارے میں کوئی رپورٹ جاری کی؟ یہ تمام عالمی ٹھیکیدار اچھی طرح جانتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں محض اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کس قدر خطرناک اور خوفناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ کیا ان عالمی ٹھیکیداروں کو علم نہیں کہ اکتوبر 1973ء میں مکمل شکست کے خوف سے اسرائیل نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر لی تھی اور اسی کے ذریعے امریکہ کو ایٹمی بلیک میلنگ کا نشانہ بنایا تھا۔ کیا کسی عالمی ادارے یا تھنک ٹینک نے آج تک اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاریوں کے خفیہ منصوبوں پر کوئی رپورٹ جاری کی؟ چنانچہ ایران کے ایٹمی خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے کیا مقاصد ہیں؟ انہیں سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔
امریکہ اور دنیا جس طرح سے اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں خاموش ہے اور اس کے بارے میں بولنا گناہ تصور کرتی ہے تو پھر ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایٹمی ہتھیار تیار کرے، کیونکہ ایٹمی ٹیکنالوجی محض امریکہ یا اسرائیل کے باپ کی جاگیر نہیں۔ امریکہ اور اسرائیل نے ایٹمی ہتھیار کیوں بنائے؟ جبکہ ان کے پاس روایتی ہتھیاروں کی خوفناک طاقت موجود ہے۔ امریکہ نے جاپان کے خلاف اگست 1945ء میں ایٹم بم کیوں استعمال کئے، جبکہ جاپان سرینڈر کرنے کو بھی تیار تھا؟ مشرق وسطیٰ میں جدید ترین اور خوفناک روایتی ہتھیاروں کے باوجود اسرائیل نے ایٹمی ہتھیاروں کا انبار کیوں لگا رکھا ہے؟ اگر یہ تمام چیزیں جائز اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں تو پھر ایران پر اعتراضات کیوں؟ ایران کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے خطرات کو کائونٹر کرنے کے لیے اپنے ایٹمی ہتھیار تیار کرے اور ضرور کرے۔
امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹ کو اگر درست تسلیم کر ہی لیا جائے تو امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ کئے گئے ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ نکل جانے کے بعد ایران پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی اور ایران اگر اپنی ایٹمی سرگرمیاں شروع کرتا ہے تو وہ اس میں حق بجانب ہو گا، کیونکہ ایران کو حقیقی طور پر امریکہ اور اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں سے خطرات کا سامنا ہے، جس کے توڑ کے لیے ایران کا ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا فیصلہ بالکل درست اور جائز ہو گا۔ اگر امریکہ اور دنیا بھر کو ایران کے ایٹمی پروگرام یا اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر کوئی اعتراض ہے اور وہ اس پر کوئی قدغن لگانا چاہتے ہیں تو اس کی ابتدا انہیں اسرائیل سے کرنا ہو گی، جو اپنی روایتی اور ایٹمی قوت کے بل پر دنیا بھر میں کھلی بدمعاشی کررہا ہے۔ ایران سے قبل اسرائیل کی ایٹمی ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کو تلف کیا جائے، اس کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کی بات کی جائے، کیونکہ ایران نے ابھی تک ایٹمی ہتھیار تیار نہیں کئے ہیں، جبکہ اسرائیل کئی دہائیوں سے ایٹمی ہتھیاروں کا حامل ہے اور اس نے ایٹمی ہتھیار اپنی آبدوزوں میں نصب بھی کر رکھے ہیں، چنانچہ دنیا کے امن و استحکام کے لیے اصل خطرہ ایران نہیں، بلکہ اسرائیل ہے، جس کا سدباب کرنا دنیا کے امن اور استحکام کے لیے بے حد ضروری ہے۔