احتساب کا کھیل، پس منظر اور خدشات

مسعود ابدالی

سن2016ء میں سائبر نقب زنی (Hacking) سے دنیا بھر کے سیاستدانوں کی لوٹی ہوئی دولت کا انکشاف ہوا۔ اس فہرست میں جہاں آئس لینڈ کے وزیر اعظم، جنوبی کوریا کی صدر اور دوسرے بہت سارے رہنمائوں کا ذکر تھا، وہیں میاں نواز شریف، بینظیر بھٹو اور عبد الرحمن ملک سمیت سینکڑوں پاکستانی شخصیات کے اسمائے گرامی بھی اس فہرست میں شامل تھے۔
پناما لیک سامنے آنے پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ پناما پیپرز میں جن پاکستانیوں کے نام شامل ہیں، ان کا احتساب کیا جائے۔ ایسی ہی درخواستیں عمران خان اور شیخ رشید کی جانب سے بھی داخل کی گئیں، لیکن عمران خان کی درخواست میں تمام پاکستانیوں کے بجائے صرف نواز شریف کا ذکر تھا۔ سپریم کورٹ نے تفصیلی سماعت کے بعد فلیگ شپ کمپنی سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور متحدہ عرب امارات کا اقامہ چھپانے کے الزام میں نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے نیب کو معاملے کی تحقیق کا حکم دیا، جس پر نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف 3 ریفرنس تیار کئے گئے:
ایون فیلڈ ریفرنس… العزیزیہ ریفرنس… فلیگ شپ ریفرنس۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب عدالت نے نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 سال اور نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی، جس کے خلاف نواز خاندان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی اور عدالت نے سزا معطل کرتے ہوئے سب لوگوں کو رہا کردیا۔
فلیگ شپ ریفرنس میں احتساب عدالت نے عدم ثبوت کی بنا پر نواز شریف کو باعزت بری کردیا۔ دلچسپ بات کہ اسی الزام پر نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا ہے۔
العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت نے نواز شریف کو 7 سال قید، جائیداد کی ضبطی، 3 ارب 73 کروڑ روپے جرمانے اور 10 برس کے لئے کسی بھی عوامی عہدے کیلئے نااہل قرار دے دیا۔
ہمیں آئین و قانون کے باب میں اپنی کم مائیگی بلکہ بے مائیگی کا احساس ہے، لیکن ان مقدمات کے سرسری جائزے سے ان کی کمزوری بڑی واضح ہے۔ یعنی جس معاملے میں نوازشریف کو وزارت عظمیٰ نے نااہل قرار دیا، اس ریفرنس میں نیب عدالت نے میاں صاحب کو باعزت بری کر دیا؟
ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کے فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کردیا۔ العزیزیہ اسٹیل ریفرنس میں نواز شریف پر بہت ہی معمولی جرمانے عائد کئے گئے ہیں، یعنی ڈھائی کروڑ ڈالر اور 15 لاکھ پاونڈ جو 4 ارب روپے بھی کم ہے۔ عمران خان بار بار کہہ رہے تھے کہ نواز شریف نے ملک کے کئی سو ارب ڈالر لوٹے ہیں۔ اس اعتبار سے اس قوم کو کم ازکم 138 ارب روپے واپس ملنے چاہئے تھے۔
قانونی ماہرین کو یقین ہے کہ جھول و سقم کی بنا پر نیب عدالت کا فیصلہ اعلیٰ عدالتیں کالعدم کردیں گی اور میاں
صاحب ایک بار پھر مظلوم بن کر سامنے آئیں گے۔ نیب فیصلے کے بعد میاں صاحب کو دی جانے والی VVIP سہولیات سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے۔ نواز شریف کی فرمائش پر دوسرے ہی دن انہیں اڈیالہ سے کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا اور جیل میں میاں صاحب کو کھانے سمیت گھر کی ساری سہولتیں میسر ہیں۔ سیانے کہہ رہے ہیں کہ جیسے عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا، ویسے ہی میاں صاحب کے گردن میں اگ آنے والا سریہ نکال کر انہیں متبادل کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ قید و جرمانہ گستاخیوں پر تادیب اور سہولیات ترغیب کی ایک شکل ہے۔
پناہ گزین بچوں کا قبرستان:
خانہ جنگیوں، مافیا گردی، غربت و بیروزگاری سے ستائے وسطی و جنوبی امریکہ کے باشندے (Latino) خوشی و خوشحالی کی تلاش میں امریکہ کا رخ کررہے ہیں۔ یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، لیکن صدر اوباما اور اب صدر ٹرمپ اپنے ملک کو رنگدار لوگوں سے آلودہ نہیں کرنا چاہتے۔ صدر اوباما کو ایسا کرتے ذرا شرم نہ آئی کہ اگر یہی حربہ ان کے والد بزرگوار کے کینیا سے امریکہ آمد پر اختیار کیا جاتا تو وہ بھی ممباسا میں کہیں کلرکی کر رہے ہوتے۔ جو بات اوباما غیر محسوس انداز میں کررہے تھے، صدر ٹرمپ اسی تنگ نظری کا مظاہرہ ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں۔
میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں اور کیا مجال کہ ہوا کے زور پر کوئی پتہ بھی سرحد عبور کرلے، لیکن بھوکے اور بلکتے بچوں کے مستقبل کی خاطر ہزاروں لوگ روزانہ نت نئے حیلوں اور طریقوں سے جنوبی سرحد عبور کرکے امریکہ داخل ہوتے ہیں، جن کی اکثریت کو امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن (CBP) کے چاق و چوبند ایجنٹ گرفتار کر لیتے ہیں۔ ان لوگوں کو سرحد پر قائم حراستی مرکز پر رکھا جاتا ہے، جسے بیگار کیمپ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اس ماہ کی آٹھ تاریخ کو گوئٹے مالا کی ایک 7 سالہ بچی جیکولین چال مکن گرفتاری کے صرف 48 گھنٹے بعد پانی کی کمی اور طبی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے مرگئی۔
گزشتہ روز CBP کے اعلامئے میں بتایا گیا کہ گوئٹے مالا کا ایک آٹھ سالہ بچہ ہلاک ہوگیا۔ اس بچے کو چند دن پہلے سرحد عبور کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ شدید سردی کے باوجود زیرحراست غیر قانونی تارکینِ وطن خیمہ بستیوں میں رکھے جاتے ہیں۔ ٹھنڈ لگنے سے بچے کو زکام ہوگیا، جس پر اسے نزلے کی دوا دی گئی، جس کے ردعمل میں اسے الٹیاں شروع ہوگئیں، بچے کو علاج کیلئے اسپتال منتقل کیا گیا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا۔
اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے پناہ گزیں فلپ گونزالیس مورالیس نے ایک ماہ کے دوران دو پناہ گزیں بچوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
بنگلہ دیش انتخابات:
بنگلہ دیش میں BNP کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والے جماعت اسلامی کے ارکان کو نااہل قرار دینے کی درخواست بنگلہ دیش ہائیکورٹ نے سماعت کیلئے منظور کرلی۔ حسینہ واجد کے دبائو پر الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کو پاک فوج کا ایجنٹ اور آزادی کا مخالف قرار دے کر اس کی رجسٹریشن منسوخ کردی تھی، اس لئے جماعت کے ارکان BNP کے ٹکٹ اور جاتیو اوکو فرنٹ کے نشان پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ مزے کی بات کہ جماعت اسلامی پر کوئی پابندی نہیں اور اس کا تنظیمی ڈھانچہ برقرار ہے۔
جماعت اسلامی کو انتخابات سے باہر کرنے کیلئے صوفی و مشائخ کی تنظیم بنگلہ دیش طریقت فیڈریشن اور ہندنواز مکتی جودھ (آزادی) کی جانب سے مشترکہ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ملک کے غداروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جائے۔ جن نشستوں پر جماعت کے امیدوار نامزد کئے گئے ہیں، وہاں تمام قوم پرست متحد ہوکر سامنے آئے ہیں اور جماعتی امیدوار کی نااہلی کی صورت میں عوامی لیگ کے امیدوار بلامقابلہ جیت جائیں گے۔
بدھ کو نائب امیر جماعت اسلامی کھلنا اور قومی اسمبلی کے امیدوار محمد مطیع الرحمان کو ان کی اہلیہ سمیت ڈھاکہ سے گرفتار کرلیا گیا۔ ان کی گرفتاری کی وجہ تو گاڑی سے انتخابی پوسٹر اور ہینڈبل کی برآمدگی بتائی گئی، لیکن جب وہ تھانے پہنچے تو ایس پی ملو میاں بسواس نے مطلع کیا کہ ملزم میاں بیوی کے خلاف27 مقدمات درج ہیں۔
اس سب کے باوجود جماعتی انتخاب لڑنے پر مصر ہیں، حالانکہ اب ان کے پاس پولنگ ایجنٹ مقرر کرنے کیلئے بھی کوئی کارکن باقی نہیں بچا۔ چھاترو لیگ سڑکوں پر جو نعرے لگا رہی ہے، اس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہے: ’’ایک جلیبی تیل میں، سارے جماعتی جیل میں۔‘‘ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سابق امیر پروفیسر غلام اعظم کہتے تھے کہ جیسے مچھلی پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی، ویسے ہی انتخابات سے باہر رہنے والی سیاسی جماعت زندہ درگور ہو جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ جماعت نے اپنے قائد کی بات کو گرہ سے باندھ لیا ہے۔
ہمیں اب تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ حسینہ واجد اور ہندوستانی حکومت اس حقیر سی جماعت سے خوفزدہ کیوں ہیں۔ 300 میں سے جماعت نے صرف 20 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ ان کے جیتنے کے امکانات ویسے ہی بہت کم ہیں اور اگر یہ سب کے سب جیت بھی جائیں تو 300 کے ایوان میں یہ 20 لوگ کیا تیر مارلیں گے؟ یہ تو ایسا ہی ہے کہ 1977ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے مقابل امیدوار مولانا جان محمد عباسی کو اغوا کرکے انہیں کاغذاتِ نامزدگی داخل نہیں کرنے دیا۔ حالانکہ اگر عباسی صاحب الیکشن لڑ لیتے تو ان کو ووٹ ہی کتنے ملتے، جس سے بھٹو صاحب خوفزدہ تھے؟

Comments (0)
Add Comment