ٹرمپ نے بالآخر حقیقت کا اعتراف کر ہی لیا، اس حقیقت کا جسے وہ پہلے تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے، بلکہ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ افغانستان کی جنگ ہر قیمت پر جیتے گا، لیکن آخرکار انہیں اعتراف کرنا ہی پڑا کہ امریکہ افغانستان کی جنگ میں جیتنے کی اہلیت و صلاحیت نہیں رکھتا۔ ٹرمپ نے پینٹاگون کو زبانی احکامات دیئے ہیں کہ وہ ابتدائی طور پر افغانستان سے سات ہزار فوجیوں کی واپسی کی منصوبہ بندی کرے۔ ٹرمپ کے اس اعلان کو امریکہ کا اعتراف شکست سمجھا جارہا ہے، کیونکہ امریکی سی آئی اے اور پینٹاگون افغانستان سے فوج واپس بلانے کے خلاف ہیں، جبکہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے افغانستان اور شام سے امریکی فوج کی واپسی کے اعلان کے بعد اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا ہے اور انہوں نے ٹرمپ کے اس فیصلے کو اسٹرٹیجک غلطی بھی قرار دیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سترہ برس سے جاری اس بے مقصد جنگ میں امریکہ کو تاحال کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے اور ٹرمپ اس جنگ پر مزید اخراجات برداشت کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ امریکہ کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے حقانی نیٹ ورک سے درخواست کی ہے کہ وہ کابل کو اپنے حملوں کا نشانہ نہ بنائے اور حقانی نیٹ ورک نے امریکہ کی یہ درخواست قبول کرلی ہے۔ یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ امریکہ افغانستان میں اپنی شکست تسلیم کر چکا ہے۔
امریکہ کا اپنی فوج بلانے کا ارادہ دراصل پاکستان کے اس اصولی مؤقف کی فتح ہے جو وہ برسوں سے اختیار کئے ہوئے ہے اور اس نے امریکہ یہ بھی متعدد مرتبہ واضح کیا تھا کہ افغان مسئلہ کا حل جنگ نہیں، بلکہ طالبان سے مذاکرات ہیں تاکہ اس مسئلہ کا کوئی سیاسی حل نکالا جا سکے۔ ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی پاکستان پر افغانستان کے حوالے سے دبائو بڑھانا شروع کیا تھا اور افغانستان کی جنگ کے حوالے سے اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ امریکہ نے پاکستان پر دبائو ڈالنے کی غرض سے پاکستان کی فوجی امداد بند کی، پھر کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں کی جانے والی ادائیگیاں روک دی گئیں۔ اس کے علاوہ برسوں سے جاری پاکستانی فوجی افسران کی امریکہ میں تربیت کے پروگرام کو بھی بند کر دیا گیا، جبکہ پاکستان کو دبائو میں لینے کے لیے دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارم بھی استعمال کئے گئے، تاکہ پاکستان کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ لیکن پاکستانی حکومت اور افواج پاکستان نے امریکی دبائو کو مسترد کرتے ہوئے دوٹوک مؤقف اختیار کیا اور امریکہ پر واضح کر دیا کہ اب پاکستان اپنے مفادات کے مطابق عمل کرے گا امریکی فرمائش پر نہیں۔
ٹرمپ کی پاکستان پر افغان جنگ کے حوالے سے کی جانے والی تنقید کا وزیراعظم عمران خان نے جرأت مندانہ جواب دیا اور امریکہ کو باور کرا دیا کہ دھونس دھمکیوں اور دبائو کے زمانے اب لدھ چکے، اب پاکستان امریکہ کا دبائو اور ڈکٹیشن قبول نہیں کرے گا اور صرف وہ کرے گا جو اس کے مفاد میں ہو گا۔ پاکستان کے اس دوٹوک مؤقف نے ٹرمپ کو پاکستان کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کر دیا اور بالآخر ٹرمپ کو وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر انہیں افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی مدد کرنے کی درخواست کرنا پڑی۔ پینٹاگون تو پہلے ہی اس حقیقت سے واقف ہے کہ امریکہ افغانستان کی جنگ اور افغانستان میں قیام پاکستان کی مدد و اعانت کے بغیر کر ہی نہیں سکتا اور افغانستان کا مسئلہ پاکستان کی مدد کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ جہاں ایک طرف ٹرمپ پاکستان پر الزام عائد کر رہے تھے کہ پاکستان نے افغانستان کی جنگ میں امریکہ کے لیے کچھ بھی نہیں کیا تو دوسری طرف پینٹاگون وار آن ٹیرر میں پاکستانی قربانیوں اور افغان جنگ کے حوالے سے پاکستان کے مثبت اور کلیدی کردار کا اعتراف کررہا تھا۔ افغانستان میں امن و استحکام دنیا کے لیے بالعموم اور پاکستان کے لیے بالخصوص اہمیت رکھتا ہے، چنانچہ پاکستان یہ کیوں چاہے گا کہ افغانستان میں جنگ جاری رہے۔ ہاں البتہ بھارت یہ ضرور چاہے گا کہ افغانستان میں جنگ جاری رہے اور امن و استحکام پیدا نہ ہو، کیونکہ افغانستان میں جنگ یا خانہ جنگی سے پاکستان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس سے پاکستان کا استحکام متاثر ہوتا ہے، چنانچہ بھارت افغانستان میں اسی لیے موجود ہے تاکہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھا جائے۔ بھارت افغانستان میں موجود رہ کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے وہ ہر طرح کی عناصر کو پیسہ اور ہتھیار فراہم کرتا ہے تاکہ انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کر کے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کر سکے۔ امریکہ افغانستان میں بھارت کو لگام ڈالنے کے بجائے پس پردہ سپورٹ کرتا رہا ہے، کیونکہ دونوں کا ایجنڈہ ایک ہے ،یعنی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا اور اس پر اپنا دبائو برقرار رکھنا۔
پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی امریکہ اور بھارت دونوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے، کیونکہ آئی ایس آئی ان دونوں کے شیطانی عزائم اور منصوبوں پر نہ صرف گہری نظر رکھتی ہے، بلکہ ان کی راہ میں ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ہے۔ پاکستان کے خلاف دشمنوں کے منصوبوں کو بھانپنا اور انہیں ناکام بنانا آئی ایس آئی کی مرکزی ذمے داری ہے، جسے وہ بڑے احسن طریقے سے پورا کررہی ہے۔ بھارت اور امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ آئی ایس آئی کے خلاف جھوٹا اور زہریلا پراپیگنڈہ کر کے اسے نہ صرف دنیا بھر میں بدنام کیا جائے، بلکہ پاکستانی عوام اور فوج کے درمیان نفرت پیدا کی جائے۔ لیکن خدا کا شکرکہ انہیں اب اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ ہو چکا ہے کہ پاکستانی عوام اپنی فوج اور آئی ایس آئی سے والہانہ محبت کرتی ہے۔
بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں بھارتی فوج کی بزدلی کو تسلیم کیا ہے جو کشمیر میں مجاہدین کے خلاف برسرپیکار ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ بھارتی فوجی جنگی علاقوں میں جانے کی بجائے اپنے کوارٹروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی حکومت کو یہ تجویز بھی دی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جاری ہائی برڈ وار میں تیزی لائے اور پاکستان اور فوج کے خلاف جھوٹی خبروں کو پھیلانے اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے میں تیزی لائے، انہوں نے اپنی حکومت کو یہ مشورہ بھی دیا کہ پاکستان پر زیادہ سے زیادہ سائبر حملے کر کے اسے نقصان پہنچایا جائے۔
اس حوالے سے امریکہ اور بھارت یکساں حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں، جس کا مقصد افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کو ہدف تنقید بنانا ہے۔ لیکن انہیں اس میں تاحال نہ کامیابی نصیب ہوئی ہے اور آئندہ نصیب ہوگی۔ امریکہ اس مقصد کے لیے چند ضمیر فروشوں کو چند ٹکوں کے عوض خرید رکھا ہے جو اکثر و بیشتر افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف گلی کے آوارہ کتوں کی مانند بھونکتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ اپنی طرح کے دیگر آوارہ کتوں کو جمع کر کے اجتماعی طور پر بھی بھونکتے ہیں، لیکن ان کو گلی کے آوارہ کتوں کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کر کے بھگا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور بھارت نے کچھ ایسے کتوں کی خدمات بھی حاصل کر رکھی ہیں جو دیگر ممالک میں جعلی خطرات کے ذریعے سیاسی پناہیں حاصل کئے ہوئے ہیں اور امریکہ اور بھارت سے پیسہ وصول کر کے افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف بھونکنے کی اپنی ذمے داریاں ادا کرتے ہیں، لیکن ان آوارہ پردیسی کتوں کی آہ و بکا پر اب کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں، کیونکہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے اور یہ بہت جلدی کھل جاتا ہے۔
افواج پاکستان اور آئی ایس آئی پاکستان کی سلامتی کی علامت ہیں اور ہماری آزادی ان کے دم سے ہی برقرار ہے۔ دشمن نے اب پاکستان کے خلاف ہائی برڈ وار شروع کی ہے، جس کا مقصد افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنا اور پاکستانی عوام اور ان کے درمیان خلیج اور نفرت پیدا کرنا ہے، تاکہ پاکستان کو ختم کیا جا سکے، لیکن شاید دشمن کو اس حقیقت کا علم نہیں کہ پاکستان مملکت خداداد ہے، جسے ختم کرنا یا نقصان پہنچانا ان کے لیے ممکن نہیں اور جب تک ہماری بہادر فوج اور آئی ایس آئی موجود ہے، دشمن کو ذلت و رسوائی اور ناکامی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔
٭٭٭٭٭