کلمۂ توحید ایسا عجیب و غریب کلمہ ہے کہ اگر کوئی انسان اس کلمے کے پڑھنے سے ایک منٹ پہلے مر جائے تو وہ جہنم میں جائے گا اور اس کے پڑھنے کے ایک سیکنڈ بعد مرے تو حق تعالیٰ اس کو جنت الفردوس عطا فرماتے ہیں۔ اس کلمے کی یہ عجیب تاثیر ہے کہ اس کی بدولت عمر بھر کا کافر اور مشرک دوزخ سے نکل کر جنت تک پہنچ جاتا ہے۔ کیا یہ کلمہ کوئی منتر یا جادو ہے کہ اس کے پڑھتے ہی اس پر دوزخ کی آگ حرام ہو گئی؟ اس کو ذرا توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے، نہ یہ کوئی جادو ہے، نہ منتر۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں (یعنی ایمان کے مطابق اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے اعمال ستر سے زائد ہیں، ستر کا عدد گنتی کیلئے نہیں ہے، بلکہ اہل عرب ستر کا عدد بول کر ’’بہت زیادہ‘‘ کا مطلب لیتے تھے۔ ہم بھی اپنی بول چال میں ستر کا عدد بول دیتے ہیں کہ میں نے یہ بات ستر مرتبہ کہی۔ اس کا مطلب ستر کا عدد نہیں ہوتا، بلکہ کثرت مراد ہوتی ہے) ان میں سب سے افضل ’’کلمہ طیبہ‘‘ کا قول ہے اور سب سے ادنیٰ شعبہ اماطۃ الاذیٰ عن الطریق (یعنی راستے سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دینا) ہے اور حیاء ایمان کا بہت بڑا شعبہ ہے۔‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس حدیث میں رسول اقدسؐ نے ایمان کا افضل شعبہ بھی بتا دیا کہ وہ کلمہ توحید ہے اور ادنیٰ شعبہ بھی بتا دیا کہ وہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا ہے۔ اس کے بعد ایک جملہ عجیب انداز سے فرمایا کہ حیاء ایمان کا حصہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے اندر حیاء نہیں ہے تو اس کا ایمان ناقص ہے، چنانچہ ایک دوسری حدیث میں ہے۔
’’جب تمہارے اندر حیاء نہ رہے تو جو چاہو کرو۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث نمبر3483) حیاء انسانی فطرت میں رکھ دی گئی ہے۔ یہ وہ پہرہ دار ہے جو انسان کو غلط کام سے روکتا ہے۔ یہ فطرت ہے کہ ہر انسان جس میں ذرا سی بھی حیاء ہے، وہ اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھول سکتا، بلکہ چھوٹے بچوں میں بھی حیاء ان کو غلط کاموں سے روکتی ہے۔ چنانچہ پانچ، چھ سال کے بچے بھی اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھولتے۔ لیکن جوں جوں ماحول خراب ہوتا ہے، اسی رفتار سے حیاء بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ چنانچہ رسول اکرمؐ نے فرمایا:
ترجمہ: ’’ہر بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے ماں باپ اس کو یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی بنا دیتے ہیں یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، کتب الجنائز، حدیث نمبر 1385)
مثلاً آپ دیکھتے ہیں کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ رات کو جلدی سو جاتا ہے اور صبح کو جلدی اٹھ جاتا ہے۔ پھر وہ اپنے گھر کے ماحول کا اثر قبول کرتا ہے اور دیر سے سونا اور دیر سے اٹھنے لگتا ہے، یہ اس کی علامت ہے کہ ہر بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے خیالات، اس کی صفات شروع میں فطرت کے مطابق ہوتی ہیں اور پھر وہ اپنے ماں باپ کے ماحول کی وجہ سے ایمان سے بھی خارج ہو کر یہودی، نصرانی، مجوسی وغیرہ ہو جاتا ہے۔ حق تعالیٰ نے حیاء کا مادہ انسانی تخلیق کی ابتدا ہی میں فطرت میں رکھ دیا ہے۔
چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ سب جانتے ہیں کہ جب شیطان نے ان کو قسم کھا کر بہکایا کہ جس درخت سے تمہیں کھانے کو منع کیا گیا ہے، اسے اس لیے منع ہے کہ اس کو کھانے والا جنت سے نہیں نکالا جائے گا۔ تو انہوں نے وہ کھا لیا تو ان کا لباس اترنے لگا اور حضرت آدمؑ و حواؑ نے اپنا ستر جنت کے درختوں کے پتوں سے چھپایا۔ معلوم ہوا کہ حیاء انسانی فطرت کا حصہ ہے۔
ساری مخلوقات کی نفی
کلمہ توحید کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا کہہ دینا کافی نہیں ہے، بلکہ دل سے اقرار کرنا اور دل سے تصدیق کرنا ہے۔ یہ حق تعالیٰ کے ساتھ معاہدہ کرنا ہے کہ خدایا! میں نے آج سے ہر مخلوق سے اطاعت کا تعلق توڑ کر آپ کے ساتھ یہ تعلق جوڑ لیا ہے۔ اس کلمہ کا پہلا لفظ ہی لا ہے، جس کے معنی ’’نہیں‘‘ کے ہیں، یعنی یہ نفی کا کلمہ ہے۔ جب آپ نے اس نفی کو اپنے دل میں بسا لیا تو یہ جہنم سے نکال کر جنت میں پہنچا دیتا ہے، جو انسان کو مبغوض ہونے سے بچا کر محبوب بنا دیتا ہے، یہ کفر سے ایمان میں لے آتا ہے۔
حیاء کی مثال اس گاڑی کی سی ہے جو ایک صاف سڑک پر معتدل رفتار سے چل رہی ہے، لیکن جیسے ہی کوئی رکاوٹ سامنے آتی ہے تو فوراً بریک لگا دیا جاتا ہے، پھر وہ گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ حیاء بھی وہ بریک ہے، جو انسان پر لگا دیا گیا ہے۔ ادھر نفس نے گناہ کی رکاوٹ کھڑی کی، فوراً حیاء کا بریک لگ گیا۔
امام قعنبیؒ کا واقعہ
ایک مشہور محدث کا یہ عجیب واقعہ تاریخ نے محفوظ رکھا ہے۔ یہ کس درجے کے محدث ہیں، یہ صحاح ستہ کے مصنفین کے بھی استاد ہیں۔ یعنی امام بخاری،ؒ امام مسلمؒ اور امام ترمذیؒ جیسے بڑے فقہاء و محدثین ان کے شاگرد ہیں۔ ان کے حالات میں لکھا ہے کہ یہ شروع میں بہت آوارہ قسم کے آدمی تھے۔ گالم گلوچ، غنڈہ گردی میں مشہور تھے، شراب کباب میں مبتلا تھے۔ کسی کا مال لے لیا، کسی کو بے وجہ تکلیف دے دی، کسی کا مذاق اڑا دیا۔
ایک مرتبہ دوستوں کی محفل میں بیٹھے ہوئے تھے، گپ شپ ہو رہی تھی۔ سامنے سے ایک مشہور محدث حضرت امام شعبہ بن حجاجؒ اپنے گھوڑے پر سوار گزر رہے تھے۔ اس نے سوچا کہ ان مولوی صاحب سے مذاق کرنا چاہئے۔ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے، امام صاحب کے گھوڑے کی لگام تھام لی اور طنز و گستاخی کے لہجے میں کہا کہ ’’اے شعبہ! مجھے کوئی حدیث سنائو۔‘‘ امام صاحب نے فرمایا: میاں راستہ چھوڑو! حدیث سننے کا یہ طریقہ نہیں ہوتا کہ سامنے آکر گھوڑے کی لگام تھام لی اور حدیث سنانے کا مطالبہ کر دیا۔ اس نے کہا کہ آپ کو حدیث سنانی ہوگی۔ نہیں سنائو گے تو میں بری طرح پیش آئوں گا۔
شرابی سے امام تک
جب امام شعبہؒ نے کہا حدیث سننا چاہتے ہو تو لو سنو۔ پھر انہوں نے تمام راویوں کے نام لے کر وہی حدیث سنائی، جو پہلے گزر چکی ہے کہ
’’جب تمہارے اندر حیاء نہ رہے تو جو چاہے کرو۔‘‘
اس ولی کامل نے کس دل اور کس جذبے سے یہ حدیث سنائی کہ قعنبی کے دل پر چوٹ لگی۔ لگام پر ہاتھ ڈھیلے ہو کر الگ ہوگئے اور فرمایا کہ اے شعبہ! ابھی تک تو میں مذاق کر رہا تھا، لیکن اب اپنا ہاتھ بڑھائو، میں تمہارے ہاتھ پر توبہ کرتا ہوں، بس دل میں حیاء نے ٹھوکا دیا اور سارے برے اعمال چھوڑ کر تحصیل علم میں لگ گئے اور پھر یہ مقام پایا کہ بڑے بڑے محدثین کو حدیثیں پڑھانے لگے۔ سچ ہے۔
از دل خیزد، بر دل ریزد (دل سے نکلی بات دل پر پڑتی ہے)
آنحضرتؐ نے بالکل سچ فرمایا ہے کہ جب انسان کی حیاء جاتی رہے تو پھر اس میں اور کتے بلی میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ کتے بلی میں اور انسان میں حیاء ہی کا تو فرق ہے۔ مغربی ممالک میں دیکھئے کیا ہو رہا ہے۔ کتے بلیوں کی طرح سڑکوں پر فحاشی اور عریانی کے مناظر عام ہیں۔ ان مناظر کو دیکھ کر حیاء بھی شرم سے نظریں جھکا لیتی ہے۔
حیاء کے پیکر
حضرت عثمان غنیؓ میں حیاء کا غلبہ فطری تھا۔ اسلام سے پہلے بھی یہ اپنی حیاء کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان کو کامل الحیاء والایمان کہا جاتا تھا۔ مشہور واقعہ ہے کہ آنحضرتؐ اپنے گھر میں تشریف فرما تھے۔ آپؐ کا تہبند گھٹنے کے پاس سے کھلا ہوا تھا۔ حضرت صدیق اکبرؓ تشریف لائے، تو آپؐ اسی حالت میں بیٹھے رہے، پھر حضرت عمر فاروقؓ تشریف لائے تو آپؐ نے اپنی حالت نہیں بدلی، پھر حضرت عثمان غنیؓ تشریف لائے تو آپؐ نے اپنے گھٹنے کو اچھی طرح ڈھک لیا، سیدھا ہوکر بیٹھ گئے اور پھر ان کو اندر آنے کی اجازت دی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے سوال کیا کہ حضور! اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ نے پہلے دونوں حضرات کے آنے پر اپنی حالت نہیں بدلی، لیکن جب عثمان غنیؓ آئے تو آپ نے تہبند سے پورے پائوں کو ڈھک لیا؟ فرمایا: اے عائشہ! یہ وہ شخص ہے کہ جس سے خدا کے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔ میں ان سے ایسی حالت میں کیسے ملتا کہ میرے گھٹنے کے پاس کا حصہ کھلا ہوا ہو۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 2401)
ایک صحابیہؓ کی عجیب حیاء
حیاء عورت کا زیور ہے، حیاء ہی کی وجہ سے عورت کی اور مرد کی نماز میں فرق ہے۔ حیاء کا حکم صرف مردوں کے لیے نہیں ہے، ایک صحابیہ کا بیٹا آنحضرتؐ کے ساتھ کسی غزوے میں شریک ہوا اور اس میں شہید ہوگیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ تمہارا بیٹا شہید ہوگیا ہے۔ یہ سن کر وہ گھبراہٹ کی حالت میں رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ تمام صحابہؓ اور صحابیاتؓ جب کسی پریشانی میں مبتلا ہوتے تو رسول اقدسؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی پریشانی ظاہر کرتے تھے اور ان کی تسلی ہو جاتی تھی۔ ان صحابیہ کا تو بیٹا شہید ہو گیا تھا، اس لیے ان کی گھبراہٹ اور صدمہ سے جو حالت ہوگی، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
جب وہ گھر سے نکلیں تو اس وقت بھی چادر اس طرح اوڑھی ہوئی تھی کہ پورا جسم چادر میں چھپا ہوا تھا، صرف ایک آنکھ کھلی ہوئی تھی۔ کسی نے ان خاتون سے پوچھا کہ تمہیں اتنا بڑا صدمہ پیش آیا کہ پیارا بیٹا شہید ہوگیا۔ اس کے باوجود تم نے گھر سے نکلنے سے پہلے اتنا اہتمام کیا کہ تمہارا پورا جسم چھپا ہوا ہے اور صرف ایک آنکھ کھلی ہوئی ہے؟ اس وقت ان خاتون نے ایک خوب صورت جملہ کہا:
فرمایا کہ ’’میرا بیٹا مجھ سے جدا ہوا ہے، میری حیاء تو مجھ سے جدا نہیں ہوئی۔‘‘
(ابودائود، کتاب الجہاد، حدیث نمبر 2488، ماخوذ از اصلاحی خطبات)
واقعی حیاء کی یہ مثال بے نظیر ہے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔ آمین۔٭
٭٭٭٭٭